تھانہ لاری اڈہ ،لاہور کا فرض شناس سیکورٹی انچارج اور دو وفاقی وزیر


یوں تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اسلام آباد میں ’اہم‘ پریس کانفرنسز منعقد کرکے قومی میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے لیکن اقبال پارک لاہور کے فرض شناس سیکورٹی انچارج محمد ضمیر تھانہ لاری اڈا میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے متعدد لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرواکے وفاقی وزیروں کی طول بیانی پر بازی لے گئے۔
سیکورٹی انچارج نے پولیس کو بتایا ہے کہ کورونا پابندیوں کے باوجود ان معلوم اور نامعلوم قائدین نے جلسہ کا انتظام کیا اور لوگوں کو جمع کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔ اس کے علاوہ پارک کی ایسی املاک کو نقصان پہنچایا جو براہ راست اس سیکورٹی انچارج کی ذمہ داری میں تھیں۔ اس طرح ایک فرض شناس سیکورٹی افسر تو اپنی منصبی ذمہ داری سے سبکدوش ہؤا ۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ سمیت انتظامیہ اور پولیس حکام نے نہ تو یہ ’سنگین‘ جرم روکنے کی کوشش کی اور نہ ہی اس ’گھناؤنی قانون شکنی‘ میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرنے کے لئے کوئی پیش قدمی کی ہے۔ لاہور سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اتوار کو پی ڈی ایم کے جلسہ کے موقع پر شہر اور خاص طور سے مینار پاکستان کے گرد و نواح میں میلہ کا سماں تھا اور لوگ کسی رکاوٹ کے بغیر جلسہ گاہ کی طرف جارہے تھے، پارک میں جمع ہورہے تھے اور اس طرح کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے تھے۔
وزیر اعظم نے ایک بیان میں ’اعتراف‘ کیا ہے کہ پی ڈی ایم نے لاہورجلسہ کے ذریعے کورونا کے خلاف حکومت کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اقبال پارک کے سیکورٹی انچارج کی شکایت کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس جرم کو حکومت نے بھی سہولت فراہم کی تھی اور اس غیر قانونی حرکت کو روکنے کا اقدام نہیں کیا گیا۔ اب اس کا جواب نہ جانے کون دے گا کہ جلسہ منعقد کرنے والے ’گناہگاروں‘ کی نشاندہی کے بعد اس جرم میں معاونت کے الزام میں کٹہرے میں معصوم و لاچار عثمان بزدار کھڑے ہوں گے یا یہ الزام عمران خان پر عائد کیا جائے۔ یہ سوال شاید ہمیشہ کے لئے تشنہ جواب ہی رہے گا کیوں کہ وزیر اعظم خود یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ نیا پاکستان یا مدینہ ریاست جیسا معاشرہ تعمیر کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ایک دو سال میں سارے کام مکمل کرلئے جائیں ۔اس کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہوگا۔ اللہ ملک کے محبوب وزیر اعظم کو حسب خواہش مہلت فراہم کرے جو نہایت نیک مقصد سے اپوزیشن کی تمام سازشوں کے باوجود میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور قانون کو بالادست کرنے کے مشن پر کاربند ہیں۔
اس حد تک تو پاکستانی عوام کو اطمینان رکھنا چاہئے کہ وزیر اعظم نے پاکستان جمہوری تحریک کے صدر مولانا فضل الرحمان کے الٹی میٹم کے باوجود استعفی نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں، میری پارٹی اور حکومت اپوزیشن کے اس الٹی میٹم کو مسترد کرتی ہے‘۔ نہ استعفی دیا جائے گا اور نہ ہی اسمبلیاں تحلیل ہوں گی۔ الیکشن بھی وقت پر ہی ہوں گے۔ شاہ محمود قریشی زبان و بیان کے ماہر ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپوزیشن کو دھمکی دے رہے تھے، ان کے مطالبات کا منہ زور جواب دے رہے تھے یا انہیں مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے سیاسی امور طے کرنے کی درخواست کررہے تھے۔
شاہ محمود قریشی نے البتہ اپوزیشن کا مطالبہ نہ ماننے کے لئے ’مسترد‘ کا لفظ استعمال کرکے نہایت سعادت مندی سے نواز شریف کی طرف سے فوج کی ایک تحقیقاتی رپورٹ مسترد کرنے کا ’بدلہ ‘ ضرور لے لیا ہے۔ نواز شریف نے اکتوبر میں کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے موقع پر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے حوالے سے آئی ایس آئی اور رینجرز کی کارروائی، آئی جی سندھ کے اغوا اور اس کے بعد فوجی تحقیقات اور متعلقہ افسروں کو تبدیل کرنے کے فیصلہ کو ’مسترد‘ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اپنے تئیں سابق وزیر اعظم نے شاید ڈان لیکس پر اپنی حکومت کی تحقیقات کے بارے میں اس وقت کے آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل کے ٹوئٹ کا جواب دیا ہوگا جس میں حکومتی رپورٹ کو ویسے ہی مسترد کیا گیا تھا جیسے نواز شریف نے فوجی رپورٹ کو نامنظور کہتے ہوئے جھٹک دیا تھا۔ شاہ محمود قریشی نے اس منہ زوری کا بدلہ مولانا فضل الرحمان کے الٹی میٹم کو رد کرکے لیا ہے۔ پی ڈی ایم کے صدر کے طور پر مولانا، اس وقت نواز شریف کے بھی لیڈر ہیں۔ اس طرح شاہ محمود قریشی نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔
وزیر خارجہ کی طویل پریس کانفرنس میں یہ تو پتہ چل گیا کہ پی ڈی ایم کی تحریک بالکل ناکام ہوچکی ہے۔ لاہور کے عوام نے اپوزیشن لیڈروں اور خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے لاتعلقی ظاہر کردی ہے۔ اپوزیشن حکومت سے غیر جمہوری مطالبے کررہی ہے حالانکہ اس کی اپنی صفوں میں انتشار ہے۔ استعفوں کے سوال پر پی ڈی ایم کے اندر جوتوں میں دال بٹ رہی ہے اور 13 دسمبر کے جلسہ کے بعد جاتی عمرہ میں ہونے والے اجلاس میں تو اس بات پر بھی اختلاف تھا کہ لانگ مارچ کب کیا جائے ۔ اسی لئے تو اپوزیشن تاریخوں پر تاریخیں دے رہی ہے حالانکہ حکومت تو دیدہ و دل فرش راہ کئے بیٹھی ہے کہ اپوزیشن لانگ مارچ لے کر دارالحکومت پہنچے اور وہ عمران خان کے وعدے کے مطابق انہیں کنٹینر فراہم کریں اور دعوت کا اہتمام کریں۔ البتہ نئے نویلے وزیر داخلہ شیخ رشید نے واضح کردیا ہے کہ حکومت کوئی بھی کام قانون و آئین سے باہر نہیں کرے گی جو ہوگا قانون کے مطابق ہوگا۔ امید ہے شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید اس معاملہ پر باہم متفق ہوجائیں گے۔ اور کابینہ کے ارکان اسی بات پر ایک دوسرے کا گریبا ن نہ پکڑنے لگیں کہ اپوزیشن کا ’استقبال‘ کیسے کرنا ہے۔
ایسی صورت جزوی طور سے آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دیکھنے میں آچکی ہے جس کی کچھ روداد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ایک علیحدہ پریس کانفرنس میں بتائی ہے اور باقی ماندہ تفصیلات اجلاس کے ’بھیدیوں ‘ نے اخباری نمائیندوں تک پہنچائی ہیں۔ کابینہ میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے مشورہ دیا کہ سینیٹ کے انتخابات میں خفیہ رائے دہی کی بجائے ہاتھ کھڑا کرکے ووٹنگ کروانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے سپریم کورٹ سے مشورہ کرلیا جائے اور ہدایات لے لی جائیں۔ جبکہ سائینس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ یہ طریقہ سیاسی معاملات میں عدالتوں کو ملوث کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ ایک آئینی معاملہ ہے جس کا فیصلہ آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن بھی سینیٹ انتخابات میں اسٹیک ہولڈر ہے ۔ اس لئے اس معاملہ پر اسے بھی مشاورت میں شامل کیا جائے۔ اپوزیشن کے بارے میں مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے عمران خان کو تو یہ رائے پسند نہیں آئی ہوگی لیکن انہیں فواد چوہدری کا یہ مشورہ بہت اچھا لگا کہ سینیٹ انتخاب مارچ کی بجائے فروری میں ہی منعقد کرلئے جائیں۔ اس طرح اپوزیشن کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ میں بھی کمی ہوگی۔عام خیال ہے کہ اپوزیشن تحریک کا اصل ٹارگٹ سینیٹ انتخابات ہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان واضح کرچکے ہیں کہ موجودہ اسمبلیوں نے نئے سینیٹرز چنے تو یہ جعلی انتخاب ہوگا کیوں یہ ساری اسمبلیاں ہی ’ناجائز‘ ہیں۔
شبلی فراز نے کابینہ کی کارروائی کے حوالے سے البتہ یہ اہم انکشاف بھی کیا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن یعنی این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو دیے جانے والے وسائل کی تقسیم کےطریقہ کار میں سقم موجود ہیں جنہیں دور کرنا بےحد ضروری ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ اس طریقہ کے تحت صوبے، وفاقی وسائل کے ’عادی‘ ہوچکے ہیں ۔ وہ خود اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ بلکہ وفاق سے روپے لے کر ’عیش ‘ کرتے ہیں۔ کیوں کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں جو کمزوریاں اب سامنے آئی ہیں ، ان کے مطابق صوبے وفاق سے ملنے وسائل کے بارے میں یہ بتانے کے پابند نہیں ہیں کہ انہوں نے یہ رقم کہاں صرف کی اور نہ صوبائی حکومتوں کا احتساب کیا جاسکتا ہے۔
کابینہ کی کارروائی کے بارے میں شبلی فراز کی باتوں پرغور کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت ایسی آئینی ترمیم چاہتی ہے جس میں ایک توصوبوں کو ’جوابدہ ‘بنایا جاسکے اور ان کا احتساب ہوسکے۔ دوسرے صوبائی حکومتیں خود بھی اپنے اخراجات کے لئے وسائل جمع کریں اور سارا بوجھ وفاق پر ڈالنا بند کیا جائے ۔ تیسرے اس مقصد کے لئے اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت ہے لیکن اسے حکومت یا تحریک انصاف کی بدنیتی نہ سمجھا جائے کیوں کہ حکومت اس ترمیم کے خلاف نہیں ہے۔ صرف اسے ’ناقص‘ سمجھتی ہے۔ وزیر اطلاعات نے یہ تو واضح کردیا کہ صوبوں کو جوابدہی پر مجبور کیا جائے اور ان کا احتساب ہونا چاہئے۔ لیکن شبلی فراز نے یہ نہیں بتایا کہ صوبائی حکومتیں کس کو ’جوابدہ ‘ ہوں گی اور کون ان کا احتساب کرے گا؟ کیا یہ فرض بھی وفاقی حکومت ہی پورا کرے گی کہ وہ صوبائی حکومتوں کی سیاسی و مالی ترجیحات اور اخراجات پر گوشمالی کرے۔
ملک کے موجودہ آئینی انتظام کے تحت یہ قرار دینا کہ صوبائی حکومتیں جواب دہ نہیں ہیں لایعنی اور بے بنیاد الزام ہے۔ ہر صوبے کی حکومت کو صوبائی اسمبلی منتخب کرتی ہے اور وہ حکومت اپنے اقدامات کی اجازت بھی اسمبلی سے لیتی ہے اور کارکردگی کا حساب بھی اسے ہی پیش کرتی ہے۔ یہ کہنا مہمل اور لایعنی مؤقف ہے کہ صوبائی حکومتیں وفاق سے وسائل تو وصول کرتی ہیں لیکن ان کا حساب نہیں دیتیں اور نہ ہی وفاقی وسائل اکٹھے کرنے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ وفاق، پاکستانی حدود سے علیحدہ کوئی اکائی نہیں ہے بلکہ تمام صوبوں میں آباد لوگ مل کر ہی وفاق کی طاقت بنتے ہیں۔ مرکزی حکومت کے سارے وسائل صوبوں میں آباد عوام سے ہی جمع کئے جاتے ہیں۔ ایک متفقہ آئینی طریقہ کار کو تباہ کرنے کے لئے وفاقی حکومت کی دلیلیں کمزور اور اشتعال انگیز ہیں۔
حیرت ہے کہ ایک ایسے وقت جب موجودہ حکومت کی انتخابی حیثیت اور غیر منتخب اداروں کے سیاسی و غیر آئینی کردار پر بحث زور پکڑ رہی ہے، وفاقی کابینہ ایک متنازعہ اور حساس مسئلہ پر غیر واضح بیانات جاری کررہی ہے۔ وفاقی حکومت کے نمائندے اقبال پارک لاہور کے سیکورٹی انچارج سے ہی سبق سیکھ لیں جنہوں نے اپنی شکایت میں نام لے کر واضح کیا ہے کہ کن لوگوں سے کون سا جرم سرزد ہؤا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali