نیاہ سمتھ: ’میں 20 سال کی عمر میں جیل گیا اور 28 سال کی عمر میں میوزک ایگزیکٹو بن گیا‘


نیاہ سمتھ

جب نیاہ سمتھ کو طویل مدت کے لیے جیل کی سزا ہوئی تو انھوں نے زندگی کا جو خواب دیکھ رکھا تھا وہ انھیں ناممکن نظر آنے لگا لیکن انھیں اپنی قسمت کو بدلنے کا جلد ہی موقع مل گیا جس کی انھیں توقع نہیں تھی۔

لندن میں موسم گرما کی ایک خوشگوار دوپہر کو سیاہ رنگ کی ایک کار آڈی اے تھری، رنگ روڈ پر سست رفتاری سے گزر رہی تھی۔ اس میں چار جوان سوار تھے اور وہ سب ابھی برمنگھم جا کر واپس آئے تھے۔ اس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے 20 برس کے نیاہ سمتھ نے سامنے آئینے میں دیکھا کہ ایک پولیس کار ان کے قریب آ رہی ہے۔

نیاہ سے آگے بیٹھے دوست نے بھی اسے آتے دیکھ لیا تھا۔ اس نے کار میں سوار باقی افراد سے کہا: ’ہر کوئی آرام سے رہے۔‘ یہ 19 جون 2012 کا دن تھا۔

ڈرائیونگ کی کچھ معمولی غلطیوں کے علاوہ نیاہ کبھی بھی کسی قانونی پریشانی میں نہیں پڑے تھے۔ وہ مشرقی لندن کے ہومرٹن کے ایک ٹاور بلاک میں اس وقت پلے بڑھے تھا جب اس علاقے میں تشدد اور جرائم پیشہ گروہ سرگرم تھے لیکن ان کی والدہ نے ہمیشہ نیاہ کے لیے اونچے خواب دیکھے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’پہاڑوں میں بیٹھ کر رباب بجا سکتا تھا، مگر شہر میں نہیں‘

خواتین جن کا نام موسیقی کی تاریخ سے مٹا دیا گیا

’موسیقی کو زندہ رکھنے کے لیے لائیو کانسرٹس ضروری’

سکول میں اپنے اچھے نمبروں سے انھوں نے اپنی والدہ کا سر فخر سے اونچا کیا تھا۔ انھیں موسیقی پسند تھی اور وہ ایک ماہر پیانو نواز تھے۔ وہ اب کالج میں تھے اور اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کے لیے ٹینس کوچ کی حیثیت سے کام بھی کر رہے تھے۔

پولیس کی کار نے اوور ٹیک کیا اور رکنے کا اشارہ کیا۔ نیاہ کو بس اتنا احساس ہوا کہ آگے کی ساری ٹریفک بھی رک گئی ہے۔ پھر جیسے ہی او ڈی رکی اس نے اپنے چاروں طرف پولیس کی مزید کاریں اور مسلح افسران کو دیکھا۔

انھوں نے اپنی بندوقیں آڈی کی طرف تان رکھی تھیں اور کار میں موجود سب سے کہا کہ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لیں۔

مشرقی لندن

نیاہ کو یاد ہے کہ ان کے سامنے بیٹھے دوست نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی جیسے وہ فرار ہونا چاہتے ہوں لیکن پولیس اہلکار نے دوسرا آگے والا دروازہ کھولا اور اس پر ٹیسر فائر کیا اور پھر اسے گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا۔

یہ دیکھنے کے بعد نیاہ نے وہی کیا جو انھیں کہا گیا۔ وہ ہاتھ اٹھائے ہوئے کار سے نکلے اور فوراً ہی انھیں ہتھکڑی لگا دی گئی۔ وہ گھاس کے کنارے سے پولیس کو کار کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھتے رہے۔ جلد ہی نیا کے سامنے والی سیٹ کے نیچے سے انھوں نے وہ چیز ڈھونڈ نکالی جن کی انھیں تلاش تھی۔

جب نیاہ کو پہلی بار مغربی لندن کے نوجوان مجرموں کے ادارے یعنی فیلتھم کے ایچ ایم جیل لایا گیا جہاں انھیں ریمانڈ کی مدت گزارنی تھی تو اس وقت تک ان پر گرفتاری کا صدمہ چھایا ہوا تھا۔ فیلتھم کے اندر ان کی بدحواسی مزید بڑھ گئی تھی۔ وہاں کے قواعد و ضوابط، وسیع و عریض راہداریوں اور لینڈنگ سے اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی اور دنیا میں پہنچ گئے ہو۔

استقبالیہ والے ونگ کی طرف لے جانے سے پہلے جیل کے ایک افسر نے ضوابط کی ایک فہرست سنا ڈالی۔ نیاہ کے لیے سب کچھ نیا تھا جیسے روزانہ کے اجتماع اور کمانے کے فوائد جیسی باتیں۔ انھوں نے آٹھ سال کی عمر سے کسی کے ساتھ اپنا کمرہ شیئر نہیں کیا تھا لیکن یہاں انھیں بتایا گیا کہ ان کے سیل میں ان کا ایک ساتھی ہو گا۔ نیاہ حیران تھے کہ ان کے ساتھ ان کی کیسے گزرے گی، کیا وہ خراٹے تو نہیں لیتا ہو گا۔ انھوں نے موبائل فون کے لیے اپنی جیب ٹٹولی لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔

وہ سوچ رہے تھے کہ کیا وہ اس سے بچ پائیں گے؟

اب ان کے پاس اس بات پر غور کرنے کے لیے کافی وقت تھا کہ وہ آخر فیلتھم جیل میں کس طرح پہنچے۔ انھوں نے اپنی والدہ کے بارے میں سوچا، جو گھر کو تنہا چلانے کے لیے دو نوکریاں کرتی تھیس اور یہ کہ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا کہ انھیں یہ دن دیکھنا پڑیں گے۔

وہ نہ صرف ان کی علمی اور موسیقی کی صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرتی تھی بلکہ انھوں نے یہ بھی یقینی بنایا تھا کہ وہ اپنی ٹینس کی خداداد صلاحیت کا بھرپور فائدہ اٹھا سکے۔ 13 سال کی عمر تک ان کا بیشتر فارغ وقت کھیل کے لیے وقف تھا، اپنی تکنیک کو نکھارنا، فٹ رہنے کی ورزش کرنا، انگلینڈ بھر میں ٹورنامنٹ کے لیے سفر کرنا وغیرہ۔

اپنے عروج پر وہ ملک میں اپنی عمر کے 100 ٹاپ کھلاڑیوں میں شامل تھے، اس کی وجہ سے وہ سڑکوں اور پریشانی سے دور رہے تھے اور پھر ایک دن فٹبال کے ایک ممنوع کھیل کے دوران نوجوان ٹینس سٹار کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اس سے نہ صرف ان کے ٹینس کیریئر کی امیدوں کا خاتمہ ہو گیا بلکہ ان کے لیے بیساکھیوں کے ساتھ ہر روز سکول جانا بھی دوبھر ہو گیا۔

اس کے باوجود انھوں نے کبھی تعلیم کو روکا نہیں۔ وہ اپنی کتابوں کے ساتھ ٹاور بلاک میں ہی رہتے اور ایک ٹیوٹر انھیں پڑھانے آتا تھا۔ لیکن 18 مہینوں کے بعد ان کا فریکچر ٹھیک ہوا تو رفتہ رفتہ سکول کے اپنے ہم جماعتوں سے ان کا رابطہ ختم ہو گیا۔ ان کے دوست بھی انھی کی طرح پڑھنے لکھنے کا رجحان رکھتے تھے۔ اب وہ اس گروپ کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے جن کے ساتھ وہ ہومرٹن کی سڑکوں پر بڑے ہوئے تھے۔

اگرچہ نیاہ نے مشکل سے ہی بہت اچھی پرورش پائی تھی لیکن ان لڑکوں نے تو اور بھی سختی دیکھی تھی۔ کچھ نے تو دونوں والدین کھو دیے تھے اور رضائی دیکھ بھال میں رہے تھے اور کسی کو ڈسلکسیا یعنی پڑھنے کے لیے عقل کی کمی تھی اور ان کا علاج بھی نہیں ہو سکا تھا اس لیے وہ کبھی لکھ پڑھ نہیں سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت یہ رہنے کی اچھی جگہ نہیں تھی۔ ہر دوسرے دن کسی کو چاقو مار دیا جاتا تو کسی کو گولی مار دی جاتی۔‘

نیاہ کا کہنا ہے کہ ہومرٹن میں انھوں نے خود کو اپنے دوستوں کو کبھی بھی کسی گینگ کے طور پر نہیں دیکھا۔ وہ گروپ میں ایک ساتھ کہیں جاتے، موٹر سائیکل پر سیر کو نکل جاتے، گلی میں موسیقی کے مقابلے کرتے لیکن وہ وہاں گشت کرتی پولیس کاروں کو کسی گروہ کی طرح دکھائی دے سکتے تھے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ دوستی اور تحفظ کے لیے بھی ساتھ رہتے تھے۔

لندن کی بدنام زمانہ پوسٹ کوڈ جھڑپوں کا مطلب یہ تھا کہ آپ کسی اور علاقے میں یونہی نہیں گھوم سکتے تھے کہ اگر اس علاقے کے بچوں نے دیکھ لیا تو بات بگڑ سکتی تھی اور اگر انھوں نے ایسا کیا اور آپ کو مارا پیٹا گیا تو غیر تحریری ضابطہ تھا کہ آپ پولیس کے پاس نہیں جا سکتے ہیں آپ کو خود ہی اسے سنبھالنا تھا۔

نیاہ سمتھ

لڑائیاں بڑھتی گئیں، ایک کے مقابلے میں ایک کی جگہ پانچ کے مقابلے میں پانچ والی لڑائیاں ہونے لگیں۔ اور پھر یہ اس سے بھی زیادہ بڑھنے لگیں۔ نیاہ کے کچھ دوستوں کو ڈنڈے اور چاقو رکھنے پر گرفتار کیا گیا۔ ان کو معلوم تھا کہ ان میں کچھ اس سے زیادہ سگنین مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔

مگر نیاہ خود زیادہ تر ایسے معاملات سے دور ہی رہتے تھے۔ ایک قریبی کالج میں انھیں ایک میوزک بزنس کورس میں جگہ مل گئی۔

پھر ایک دن ان کے ایک دوست نے کہا کہ برمنگھم چلتے ہیں۔ نیاہ نے سوچا کیوں نہیں؟ اس دن ان کا کوئی اور پلان نہیں تھا۔

Short presentational grey line

نیاہ کو فلتھم میں زندگی کی عادت پڑ رہی تھی۔ انھیں یہ جگہ سمجھ آنے لگی تھی اور وہ غلط کاموں سے دور رہتے تھے۔ ان کی اچھی قسمت یہ تھی کہ ان کا جیل کے کمرے کا ساتھی ایک اچھا انسان نکلا۔ وہ بھی پہلی مرتبہ جیل میں آیا تھا۔ ان دونوں کی ان نئے حالات کی وجہ سے دوستی ہونے لگی۔ قید میں اپنے وقت کا فائدہ اٹھانے کے لیے نیاہ نے پینٹگ، کارپنٹری اور آٹو میکینکس کا کورس کرنا شروع کر دیا۔

اس کے علاوہ ایک اور کورس تھا جس کے لیے وہ انتہائی بے تاب تھے اور وہ تھا موسیقی کا کورس۔ فیلتھم میں ایک انتہائی جدید سٹوڈیو بھی تھا جس کو چلانے کا کورس قیدی کرتے تھے۔ مگر اس کورس میں ساری سیٹیں ختم ہو چکی تھیں۔ ہر رات وہ ٹیبل ٹینس کھیلتے یا ایسٹ اینڈرز دیکھتے اور یہی سوچتے کہ وہ اس کورس میں کیسے شامل ہوں۔

کم از کم یہ انھیں اپنے مقدمے کی پریشانی سے توجہ ہٹانے کا موقع تو دیتا تھا۔

جب پہلی مرتبہ نیاہ کی اپنے وکیل سے ملاقات ہوئی تو وکیل ایک موٹی سی فائل لے کر آیا۔ یہ ان کے خلاف تیار کیا گیا مقدمہ تھا۔

پتا چلا کہ ان کا ایک دوست جو گاڑی میں آگے بیٹھا تھا، وہ پولیس کی نگرانی میں پچھلے دو سال سے تھا۔ اس اوڈی کار کا پولیس مڈ لینڈز سے پیچھا کر رہی تھی۔

جب گاڑی کی تلاشی لی گئی تھی تو اس میں ایک پستول بھی نکلا تھا جس میں سات گولیاں تھیں۔ نیاہ کے خلاف الزام غیر قانونی ہتھیار رکھنا اور کسی کی جان کو خطرہ ڈالنے کی نیت کا تھا۔ اس میں سزا کی حد 14 سال قید تھی۔

نیاہ نے اپنے وکیل کو بتایا کہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ گاڑی میں پستول ہے۔ وکیل نے نیاہ کو سمجھایا کہ ’جوائنٹ انٹرپرائز‘ کا متنازع قانون اس گاڑی پر لاگو نہیں ہوتا تھا۔ مگر استغاثہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس شواہد تھے جو اس پستول کو نیاہ سے منسلک کرتے تھے۔ نیاہ کو بات سمجھ نہیں آئی، ان کا کہنا تھا کہ میں نے کبھی اس پستول کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا یا کبھی پہلے دیکھی بھی نہیں تھی۔

نیاہ کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس نکلنے کا ایک راستہ یہ تھا کہ وہ الزام اپنے دوست پر لگا دیں۔ کیا وہ ایسا کرنے کے لیے راضی تھے؟ ان کی فیملی نے کہا کہ وکیل کا مشورہ مان لو۔ نیاہ نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنھیں وہ ساری عمر سے جانتے تھے۔

نیاہ سمتھ

جیسے جیسے مقدمہ قریب آنے لگا، نیاہ اس بارے میں سوچنے لگے کہ کیا کرنا ہے۔ اگر وہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہار گئے تو کم از کم دس سال قید ہو گی۔ اگ جرم کا اعتراف کر لیا تو سات سے نو سال کی قید سامنے تھی۔

یہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا اور پھر مقدمے سے چھ ہفتے پہلے نیاہ کو ایک اچھی خبر ملی۔ انھیں فیلتھم کے میوزک کورس میں جگہ مل گئی تھی۔

Short presentational grey line

مقدمہ شروع ہونے سے ایک رات قبل نیاہ بالکل نہیں سوئے مگر وہ اپنے مقدمے کے بارے میں نہیں سوچ رہے تھے۔ نہ ہی اپنی زندگی کی اگلی دہائی کے بارے میں۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ موسیقی کی کون سی ٹیکنیک اور کون سی آواز سیکھے گے۔

کورس کی پہلی صبح نیاہ کو پتا چلا کہ کچھ دیگر قیدیوں کے لیے اس سٹوڈیو میں آنا آرام کرنے کے لیے ایک نئی جگہ تھی مگر نیاہ تو وہاں ایسا کرنے نہیں آئے تھے۔ ان کا مقصد تعلیم حاصل کرنا تھا۔

ان کے استاد ڈیوڈ سمارت ایک تجربہ کار ساؤنڈ انجینیئر تھے جو اپنا سٹوڈیو چلاتے تھے۔ انھوں ن سینکڑوں قیدیوں کو موسیقی سیکھائی تھی مگر نیاہ دیگر قیدیوں کی طرح نہیں تھے۔

سمارٹ یاد کرتے ہیں ‘اس میں کچھ مختلف تھا۔وہ صرف جنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ آپ نے یہ افیکٹ کیوں استعمال کیا؟ یہ افیکٹ کیسے کام کرتا ہے؟ اس کی متجسس شخصیت ابھر کر سامنے آ گئی۔‘

یہ کورس دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ساؤنڈ انجینیئرنگ اور گانے لکھنے پر۔ نیاہ نے سیکھنا شروع کر دیا کہ ریکارڈنگ اور مکسنگ کیسے کی جاتی ہے اور اچھا ٹریک ساؤنڈ کیسے بنایا جاتا ہے۔ پھر اس ٹریک پر اپنے ساتھیوں کے ریپنگ گانوں کو کیسے چڑھایا جاتا ہے۔ وہاں پر گٹار اور ڈرم تھے جنھیں انھوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ استعمال کیا۔

نیاہ نے وہاں جو کام کیا اس کی سی ڈی کو اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ یہ سی ڈی اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ کسی بھی پروفیشنل سٹوڈیو میں کام کر سکتے ہیں۔

’میں وہاں سب کچھ سیکھنا چاہتا تھا۔ مجھے ایسا نہیں محسوس ہو رہا تھا کہ میں ایک جیل میں ہوں۔‘

اس کے بعد وڈ گرین کراؤن کورٹ جانے کا وقت آ گیا۔

جب نیاہ کمرۂ عدالت میں بیٹھے ہوئے تھے تو انھیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ان کے ہاتھ جل رہے ہیں۔ اپنی گرفتاری کے بعد سے ان کے بال بہت بے ترتیب اور بڑھ چکے تھے۔ عدالت میں ان کی والدہ، کزن اور بہن بھی موجود تھے لیکن نیاہ نے کوشش کی کہ وہ ان کی طرف نہ دیکھے۔

نیاہ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ جرم قبول کر لے گا۔ ’مجھے یہ قبول کرنا پڑا کہ میں نے اپنے آپ کو ان حالات سے دوچار کیا۔` انھوں نے یہ محسوس کیا کہ انھیں اس بات کی ذمہ داری لینا پڑے گی کہ وہ اس گاڑی میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے جبکہ انھیں اپنے دوستوں کے طرزِ زندگی کے بارے میں معلوم تھا۔

سزا سخت تو محسوس ہوئی لیکن انھوں نے یہ مانا کہ ان سے قابلِ سزا حرکت ہوئی ہے۔ ’یہ دوست اور ان کے ساتھ رہنا میرا انتخاب تھا۔ لہذا مجھے نتائج بھی قبول کرنے پڑے۔‘

نیاہ کو یاد تھا کہ جب جج نے کہا کہ انھیں حیرانی ہے کہ جس طرح کے جرم کے کے الزام میں وہ یہاں کھڑے ہیں جبکہ ماضی میں ان کا ریکارڈ کوئی خاص خراب نہیں۔ اس کے بعد جج نے انھیں ساڑھے آٹھ برس قید کی سزا سنائی۔

اس وقت وہ سزا انھیں اتنی طویل لگی کہ جیسے پوری زندگی کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہو۔ اگر ان کا برتاؤ اچھا رہے تو یہ سزا سوا چار سال میں بھی ختم ہو سکتی تھی۔ لیکن اس وقت لگا جیسے یہ نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔ انھوں نے سوچا کہ ان کی گرل فرینڈ تو اتنا عرصہ انتظار نہیں کرے گی۔ انھیں یہ طے کرنا تھا کہ یہ عرصہ جیل میں کیسے گزارا جائے مگر فیلتھم میں ابھی بھی ان کے کچھ کام نامکمل تھے۔

Short presentational grey line

نیاہ اپنے جیل کے سیل میں واپس جا رہے تھے۔ اب ان کو سزا سنائی جا چکی تھی اور بتا دیا گیا تھا کہ انھیں ایک دوسرے جیل منتقل کر دیا جائے گا۔ ان ہی دنوں میں انھیں اپنی سی ڈی مکمل کرنا تھی۔ انھوں نے اپنی کچھ بیٹس تیار کی تھیں اور جیل میں موجود کچھ قیدیوں کے ریپنگ گانے ان بیٹس پر ریکارڈ کیے تھے۔

لیکن جب وہ جیل پہنچے تو وہاں موجود اہلکار نے انھیں بتایا کہ ان کے بارے میں انتظامات میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ انھیں نوجوان مجرموں کی جیل میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

نیاہ نے اپنے استاد ڈیوڈ سمارٹ سے درخواست کی کہ انھیں سٹوڈیو میں ایک گھنٹے کام کی اجازت دے دی جائے تاکہ وہ وہاں اپنا کام مکمل کر سکیں لیکن سمارٹ کو اپنی کلاس کو پڑھانا تھا۔

نیاہ سمتھ

فیلتھم میں اپنے آخری دن نیاہ نے کسی نہ کسی طرح اپنی سی ڈی مکمل کر لی۔ لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ اپنی سی ڈی کی کاپی بنا سکتے۔ جس دوران نیاہ کو دوسری جیل منتقل کیا جا رہا تھا تو ان کے لیے یہ کام سمارٹ نے کرنا تھا۔ وہ نیاہ کی التجاوں سے پگھل گئے تھے تو انھوں نے اپنی جگہ ایک دوسرے شخص کا انتظام کر لیا جو ان کی جگہ پڑھا سکے۔

’میں آپ کو حقیقت بتاؤں کہ میں یہ کام کسی دوسرے کے لیے نہیں کرتا لیکن مجھے یہ نیاہ کے لیے کرنا پڑا۔‘

جب نیاہ کو دوسری جیل منتقل کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا اور وہ عمارت سے باہر آئے تو سمارٹ کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ پھر جب وہ وین میں بیٹھنے لگے تو اس وقت بھی سمارٹ کہیں نظر نہیں آئے۔

پھر اچانک ہی وہ نمودار ہوئے ’یہ میرے پاس ہے، یہ میرے پاس ہے۔‘

Short presentational grey line

جب نیاہ نئی جیل پہنچے تو انھوں نے اپنے سیل کا جائزہ لیا جہاں انھیں اکیلے رہنا تھا۔ یہ سنہ 2012 کی بات ہے۔ کرسمس کی آمد تھی اور وہ جانتے تھے کہ اس موقع پر اپنے خاندان سے دور رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

وہ ایک سنگین جرم کے نتیجے میں جیل پہنچے تھے۔ انھیں آتشیں اسلحہ رکھنے اور کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزام پر سزا ہوئی تھی اس لیے انھیں خطرناک قیدیوں کی فہرست میں رکھا گیا۔

لیکن نیاہ اس تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے پر عزم تھے۔ جو موسیقی انھوں نے تخلیق کی تھی وہ اس سلسلے میں انھیں تحریک فراہم کر رہی تھی۔

انھوں نے وہاں انگریزی، میتھس، بزنس سٹڈیز، پلمبنگ، سافٹ وئیر سمیت ہر کورس میں داخلہ لے لیا۔ ایک دن انھوں نے جیل کے ایک اہلکار کو ٹینس کے مقابلے کا چیلنج دیا اور جب اس اہلکار نے دیکھا کہ نیاہ کتنی اچھی ٹینس کھیلتے ہیں تو وہ بہت متاثر ہوا اور نیاہ کو جم میں نوکری دے دی۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کی جیل میں سب سے زیادہ مانگ تھی۔

جنوری 2014 تک نیاہ تقریبا 22 سال کے ہونے والے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب انھیں بالغوں کی جیل میں منتقل کیا جانا تھا۔ کچھ عرصے کے بعد انھیں سفک کے قریب وارن ہل جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں انھوں نے خاموشی سے ونگ کلینر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس سال ستمبر تک انھیں قید میں دو سال ہو چکے تھے۔ اس دوران وہ کسی لڑائی جھگڑے کا حصہ نہیں بنے۔ اب وہ کیٹگری بی کے قیدی تھی جنھیں کھلی جگہ جانے کی اجازت تھی۔

نیاہ نے اس نئی آزادی کا غلط استعمال نہیں کیا اور قوائد و ضوابط کا احترام کرتے رہے۔ وہ جس طرح آگے بڑھ رہے تھے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتے تھے۔

انھوں نے بڑی گاڑیوں کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے تیاری کی تاکہ انھیں اچھی اور مستقل نوکری مل سکے۔

اس فیصلے سے انھیں فائدہ ہوا۔ دو سال بعد سنہ 2016 میں جب انھیں جیل سے رہا کیا گیا تو انھیں ایک کیٹرنگ کمپنی میں ڈیلیوری ڈرائیور کی نوکری مل گئی۔ وہ نائٹ شفٹ کیا کرتے تھے تاکہ دن میں وہ اپنی موسیقی پر توجہ دے سکیں۔

Short presentational grey line

انھوں نے جن لوگوں سے شروع میں فون پر رابطہ کیا ان میں فیلتھم میں ان کے موسیقی کے پرانے استاد ڈیوڈ سمارٹ بھی شامل تھے۔

سمارٹ نے جب فون پر ان کی آواز سنی تو بہت خوش ہوئے۔ وہ اس نوجوان قیدی کو نہیں بھولے تھے جو ان کے سٹوڈیو آیا کرتا تھا اور آحری دن اپنی سی ڈی ملنے پر بہت خوش تھا۔ سمارٹ نے فیلتھم جیل میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اب باہر اپنے نئے سٹوڈیو میں کام کرتے تھے اور ساتھ ہی سابق قیدیوں کی بھی نگرانی کرتے تھے۔

انھوں نے نیاہ کو اپنے سٹوڈیو میں ایک انجینیئر کی حیثیت سے کام کی پیشکش کی جو نیاہ نے شوق سے قبول کر لی۔

تاہم نیاہ کی نظریں اس سے کہیں آگے کی طرف تھیں۔ انھیں اندازہ تھا کہ وہ ایک پروڈیوسر سے زیادہ ایک مینیجر کے طور پر کام کریں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔ وہ پوری طرح سے مشرقی لندن میں ہونے والی موسیقی کی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے جن میں پوپ، جاز، آر اینڈ بی وغیرہ جیسی موسیقی کی اقسام بھی تھیں۔

جب بھی انھیں شفٹوں کے درمیان وقت ملتا وہ لائیو میوزک سیشن میں جاتے۔ اس وقت وہ جن فنکاروں رابطے میں تھے ان میں ایک نوجوان گلوکارہ اور ریپر سٹیفنی وکٹوریہ ایلن تھیں جو سٹیفلون ڈان کی حیثیت میں پرفارم کرتی تھیں۔

وہ اور نیاہ ایک ساتھ بہت عرصہ رہے تھے، وہ نیاہ کے ایک بہترین دوست کی پارٹنر تھیں اور نیاہ اور ان کی سابقہ پارٹنر نے سٹوڈیو اور فوٹو شوٹس بک کرنے میں ان کی بہت مدد کی تھی۔


جب یہ واضح ہو گیا کہ وہ ایک بڑی سٹار بننے والی ہیں اور ایک بڑی ریکارڈ کمپنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط کریں گی تو وہ ایک زیادہ مستحکم ٹیم میں چلی گئیں لیکن وہ کبھی نہیں بھولیں کہ نیاہ نے ان کی کیسے مدد کی تھی۔ جب انھوں نے یونیورسل ریکارڈ کے ساتھ معائدے پر دستخط کیے تو انھوں نے نیاہ کو اپنے لیے نئے فنکار تلاش کرنے کا کہا۔

یہ ایک ایسا موقع تھا جسے نیاہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ حال ہی میں پہلی بار باپ بنے تھے اور اب یہ صرف اپنے شوق کو سمجھنے کی بات نہیں تھی بلکہ اپنی بیٹی کے لیے بہترین زندگی فراہم کرنا بھی تھی۔


انھوں نے سٹیف اور دیگر دو فنکاروں کے ساتھ مشرقی لندن میں ایک کلب نائٹ کا اہتمام کیا۔ انھوں نے سکیورٹی اور پروموشن سمیت اس تقریب کی ہر چیز کی ذمہ داری خود اٹھائی۔ پنڈال فروخت ہو گیا اور نیاہ نے اپنا آڈیشن پاس کر لیا۔ نومبر 2018 میں سٹیف نے نیاہ کو آرٹسٹ اور میوزک ایگزیکٹو کی حیثیت سے ایک کردار کی پیشکش کی، جس میں ان کی ذمہ داری نئے ٹیلنٹ کو ڈھونڈنا اور تیار کرنا تھا۔

28 برس کے بہت سے نوجوانوں کے لیے ایسا کسی خواب کے سچ ہونے جیسا ہو گا اور ایک ایسے نوجوان کے لیے جس نے چار برس سے زیادہ کا عرصہ جیل میں گزارا، یہ واقعی قابل ذکر ہے۔

نیاہ کہتے ہیں ’میں وہ چار برس اور نو مہینے واپس حاصل نہیں کر سکتا۔ میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔‘

وہ جانتے تھے کہ وہ اپنا ماضی تبدیل نہیں کر سکتے لیکن انھیں امید تھی کہ دوسرے لوگ ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

’ایسے تمام لوگ جو اس پوزیشن میں ہیں، جس میں کبھی میں تھا، ان کے لیے ہمیشہ امید ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp