آرمی پبلک سکول حملہ: ’اس روز پیش آئے واقعات ذہن پر نقش ہیں جو آج بھی پریشان کر دیتے ہیں‘


نرس
شبانہ رحمان ’اس روز پیش آئے چند ایک واقعات تو ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں جو اکثر انھیں پریشان بھی کر دیتے ہیں‘
’میں اس بچے کو شاید کبھی نہیں بھول سکوں گی جس کے سر اور جسم کے مختف حصوں پر شدید زخم تھے، اسے گولیاں لگی تھیں، خون اس کے جسم سے بہہ رہا تھا اور وہ مسلسل کلام کی تلاوت کر رہا تھا، اس بچے کا حوصلہ بہت بلند تھا۔‘

شبانہ رحمان گذشتہ 20 برسوں سے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں اور جس روز پشاور کے آرمی پبلک سکول کے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو یہاں لایا گیا تو وہ ڈیوٹی پر تھیں۔

وہ ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں تعینات تھیں اورانھوں نے بہت سے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی تھی۔

شبانہ رحمان کو وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے اور انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس روز پیش آئے چند ایک واقعات تو ان کے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئے ہیں جو اکثر انھیں پریشان بھی کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کے بعد وہ اور ان کے بچے اکثر خوفزدہ رہنے لگ گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

تعلیمی اداروں میں سکیورٹی پالیسی ناکام

’وہ منظر لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا‘

’مجھے چہرے پر چھ گولیاں لگیں، مگر میں بچ گیا‘

’مائیں آج بھی یہ سوچتی ہیں کہ آخر بچوں پر کیا گزری ہوگی‘

’اس بچے کو آج بھی نہیں بھول پائی

انھوں نے کچھ زخمیوں کا ذکر کیا جن میں ایک بارہ، تیرہ سال کا بچہ بھی شامل تھا جو حافظ قران تھا۔ ’اُس بچے کو بیڈ پر لٹایا گیا تو اس کے سر، جسم اور ٹانگوں پر گولیوں کے زخم تھے۔ اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور حالت بہت خراب تھی لیکن حوصلہ پہاڑ جیسا تھا اور وہ بچہ مسلسل قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔‘

شبانہ رحمان نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر اور سٹاف اس بچے کا علاج کر رہے تھے لیکن وہ خاموشی سے صرف تلاوت کرتا رہا یہاں تک کہ اس کا دم نکل گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بچے کو آج بھی نہیں بھول پائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی زندگی میں یہ ایسا پہلا واقعہ تھا جس میں ایک مرتے ہوئے بچے نے اتنی بہادری کا مظاہرہ کیا ہو۔

آرمی پبلک سکول

نرس شبانہ رحمان کے لیے وہ دن کیسا تھا آئیے ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔

وہ صبح اگرچہ ایک معمول کی صبح ہی تھی اور ہم سب سٹاف ممبر ٹراما سینٹر میں موجود تھے جب اچانک اطلاع آئی کہ آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا ہے اور زخمیوں کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔ ہم نے اس کے لیے تیاریاں شروع کر دیں اور مطلوبہ سامان سٹور سے لے آئے۔

جب پہلا زخمی آیا تو ہم نے فوری طور پر کام شروع کر دیا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ شاید چند ہی زخمی ہوں۔۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں زخمی آنا شروع ہو گئے۔

میں گذشتہ 20 برسوں سے ایک نرس کے طور پر کام کر رہی ہوں اور زیادہ وقت میں نے ٹراما سینٹر میں کام کیا ہے۔ اس دوران میں نے بہت سے دھماکوں کے زخمیوں کا علاج کیا۔ شروع کے دنوں میں ذرا خوف ہوتا تھا اور پریشانی بڑھ جاتی تھی لیکن پھر مسلسل دھماکوں کی وجہ سے عادی ہو گئی۔

لیکن آرمی پبلک سکول کا واقعہ بہت مختلف تھا اس میں بہت زیادہ زخمی تھے جو سب کم عمر بچے تھے۔ اسی وجہ سے سٹاف کے ارکان زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔

نرس

میں بہت دباؤ کا شکار تھی کیونکہ میں خود بھی ایک ماں تھی اور وہ وقت میرے لیے بہت مشکل وقت تھا۔ جب میں ان بچوں کو طبی امداد فراہم کر رہی تھی تو خود مجھے اپنے بچے یاد آ رہے تھے۔۔۔ وہ بھی سکول گئے ہوئے تھے لیکن اس وقت میں نے اپنی ڈیوٹی پر بھرپور توجہ دی تھی۔

زخمیوں میں ایک بچہ ایسا بھی تھا جو بہت زخمی تھا لیکن بالکل نہیں رو رہا تھا۔ میں حیران تھی کہ یہ بچہ بالکل خاموش ہے حالانکہ اسے گولیاں لگی تھیں اور وہ بہت ضبط کیے ہوئے تھا۔ لیکن جب اس بچے کے والدین ٹراما سینٹر میں داخل ہوئے اور بچے نے جیسے ہی انھیں دیکھا اس نے رونا شروع کر دیا تھا اور پھر بہت رویا۔

اس دن کا ماحول ایسا تھا کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرنا ہے۔ ہر طرف رونے اور چلانے کی آوازیں تھیں، بڑی تعداد میں زخمی اور لاشیں پہنچ چکی تھیں۔

میں اور میرے ساتھ دیگر سٹاف کے ارکان اور ڈاکٹر سب اس وقت سخت ذہنی دباؤ میں تھے کیونکہ وہ زخمی بھی کوئی عام زخمی نہیں تھے بلکہ بچے تھے اور اکثر بچوں کو بہت زیادہ زخم آئے تھے۔۔۔ انھیں دیکھ کر خود رونا آتا تھا کیونکہ میں خود بھی تو ایک ماں ہوں۔

اس سے پہلے جتنے دھماکے ہوئے تھے ان میں زیادہ تر بازاروں یا مساجد میں ہوتے تھے اور ان کے زخمی بڑی عمر کے افراد ہوتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ مینا بازار والے دھماکے کے بعد بھی وہ ٹراما سینٹر میں ہی تھیں اور اس دھماکے میں بہت زیادہ بچے اور خواتین زِخمی ہوئی تھیں۔

نرس

اس دھماکے کے بعد کیا ہوا

اگرچہ پشاور اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بڑی تعداد میں دھماکے اور حملے ہوئے تھے اور ایسے دن بھی تھے جن میں دو یا تین دھماکے ہوئے ہوں اور ان تمام زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے اس ٹراما سینٹر میں ہی لایا جاتا تھا۔

یہ ٹراما سینٹر اس سے پہلے محدود تھا لیکن اے پی ایس واقعے کے بعد اس کو وسعت دی گئی اور اس میں مزید بستر اور سہولیات بڑھا دی گئی تھیں۔

اس ہسپتال میں تعینات عملے کے افراد نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد سٹاف کی نفسیاتی کونسلنگ کی جاتی ہے اور انھیں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

آرمی پبلک سکول پر حملے کو چھ سال مکمل ہو گئے

آج سے چھ سال پہلے یعنی 16 دسمبر کو یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ اس حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی اپنے بچوں کو یاد کرتے ہیں۔ ان والدین نے مل کر اپنا ہی ایک حلقہ احباب بنا لیا ہے اور یہ خاندان ایک دوسرے کی خوشیوں اور غموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ان والدین نے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بنایا ہے جس میں اپنے بچوں کی یادوں پر مبنی ویڈیوز اور باتیں شیئر کرتے ہیں۔

آرمی پبلک سکول حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں اور سٹاف کے والدین اور رشتہ دار آج بھی قانونی جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک انصاف نہیں ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp