ابراہم لنکن اور جوزف بائیڈن کا مشکلات بھرا سفر



امریکہ کے 16 ویں صدر ابراھام لنکن ( 1809۔ 65 ) اور 46 ویں صدر میں بعض مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔

ابراھام لنکن کو زندگی میں جن صدموں، ناکامیوں اور تلخیوں سے دوچار ہو نا پڑا اس کی مختصر روداد یہاں پیش کی جاتی ہے۔ ابراھام لنکن کی پیدائش غریب والدین کے یہاں لاگ کیبن میں ہوئی تھی۔ لنکن جب صرف نو سال کا تھا تو اس کی والدہ نینسی راہی ملک عدم ہو گئی۔ جب وہ انیس سال کا تھا تو اس کی بہن سارہ بچے کی ولادت کے دوران فوت ہو گئی۔ والدہ کی وفات کے بعد سارہ نے گھر سنبھالا ہوا تھا۔ ابراھام نے خود کتابیں پڑھ کر تعلیم حاصل کی اور وکیل بن گیا۔

1862 میں اس کی شادی میری ٹاڈMary Todd سے ہوئی۔ ابراھام لنکن ایک شفیق اور مہربان خاوند تھا۔ شادی کے موقع پر جو انگوٹھی بیوی کو دی اس پر لکھا ہوا تھا: Love is Eternal اس کے یہاں چار بیٹے پیدا ہوئے۔ پہلا بیٹا رابرٹ لنکن تھا جس کی پیدائش 1863 میں ہوئی او 82 سال کی عمر میں 1926 میں وفات پائی۔ ایڈورڈ کی پیدائش 1846 میں ہوئی اور چار سال کی عمر 1850 میں وفات پا گیا۔ ولی لنکن Willie Lincolnکی پیدائش دسمبر 1850 میں ہوئی اور فروری 1862 کو وائٹ ہاؤس میں وفات پا گیا۔ سب سے چھوٹے بیٹے ٹامس کی پیدائش 1853 میں ہوئی اور اٹھارہ سال کی عمر میں جولائی 1871 میں وفات پا گیا۔

مارچ 1832 میں ہوئی ابراھام نے پہلا الیکشن لڑا تو شکست سے دوچار ہوا۔ 1834 میں وہ الیکشن جیت گیا اور چار دفعہ ایلی نائیس ریاستی اسمبلی کا ممبر رہا۔ 1843 میں اس نے کانگریس کے لئے الیکشن لڑا مگر شکست کھا گیا۔ 1846 میں اس نے الیکشن جیت لیا اور 1847۔ 49 کانگر یس کا ممبر رہا۔ 1860 میں اس نے صدر امریکہ کے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب رہا۔ چار سال بعد وہ دوبارہ صدر منتخب ہوامگر اس کے بعد صرف ایک سال زندہ رہا۔ سیاہ فاموں کی غلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر اس کو کسی سفاک نے 1865 میں گولی نشانہ بنا دیا جب فورڈ تھیٹر واشنگٹن میں تھا۔

جوزف بائیڈن

جب بائیڈن زندگی کے 29 زینوں پر قدم رکھ چکا تو اس وقت وہ امریکہ کی سینیٹ میں کم عمر ترین سینیٹر ڈیلاوئیر ریاست سے نومبر 1972 میں منتخب ہوا تھا۔ اس سال ہی امریکی صدر نکسن نے دوسری بار الیکشن جیتا تھا۔ یہ الیکشن بائیڈن نے صرف تین ہزار ووٹ سے جیتا تھا۔ اس کے ایک ماہ بعد دسمبر 1972 میں بائیڈن اپنی بہن ویلری کے ساتھ واشنگٹن گیا تا اپنے دفتر کے ملازمین کا انتخاب کر سکے۔ اس دوران اس کی بیوی اور تین بچے (ناعومی عمر ایک سال، بو عمر چار سال اور ہنٹر عمر دو سال) گھر پر رہے۔

18 دسمبر 1972 کو اس کی بیوی نیلیا Neiliaاپنے بچوں کے ساتھ گھر سے ایک میل دور کرسمس شاپنگ کے لئے جا رہی تھی کہ ایک ٹریکٹر ٹریلر نے اس کی کار کو پیچھے سے ٹکر ماردی۔ نیلیا اور ناعومیNaomi اس حادثے میں مو ت کا شکار ہو گئیں جب کہ دوبیٹوں کو ہسپتال میں داخل کرا یا گیا جو شدید زخمی ہوئے تھے۔ بائیڈن اور اس کی بہن فوراً اطلاع ملتے ہی ڈلاوئیر واپس آ گئے۔ اس انددہ ناک حادثے کے بعد بائیڈن کے دل میں خودکشی کا خیال آیا تھا۔ بطور سینیٹر کے اس نے حلف ہسپتال میں بچوں کے بیڈ کے پاس اٹھا یا تھا۔

زندگی کے اس ناگہانی موڑ پر سینیٹر بائیڈن نے سوچنا شروع کیا کہ آیا اس کو سینیٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے کیونکہ ملک ایک اور سینیٹر تو حاصل کر لے گا مگر اس کے دو چھوٹے راج دلارے آنکھوں کے تارے، ننے منے بچوں کو باپ کی ضرورت تھی۔ امریکی سینیٹ میں اس کے دونوں پارٹیوں ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ممبران اس کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ ماہ کے بعد فیصلہ کرے۔ ری پبلکن پارٹی کے ممبران نے اس کو تسلی دی کہ اگر وہ کسی وقت سینیٹ سے غیر حاضر ہوا تو وہ ووٹنگ نہیں کریں گے اگر کسی ایمر جنسی میں اس کو بچوں کے پاس گھر واپس جانا پڑا جو مہلک حادثے کے اثرات سے بری طرح متاثر تھے۔ اس لئے بائیڈن سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے سینیٹرز کا ہمیشہ ممنون احسان رہا۔

بائیڈن ایک با عمل خدا پرست اور پا رسا کیتھو لک ہے جو اکثر جیب میں رکھی تسبیح پر ورد کرتا رہتا ہے۔ حادثے کے بعد بائیڈن اکثر اس معمے کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ آخر کار اس نے کون سا گناہ کیا ہے کہ جس کی اس کو سزا ملی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ سینیٹ کا اجلاس جاری ہوتا تھا تو وہ ہرشام کو ٹرین Amtrack لے کر واشنگٹن سے ڈلا وئیر بچوں کی نگہداشت کے لئے آجا تا تھا۔ اس آنے جانے میں اس کو تین گھنٹے لگ جاتے تھے۔ اس سفر کے دوران مسافراس سے قدر مانوس ہو گئے تھے کہ وہ اس کی پہچان Amtrack Biden کے نام سے کرنے لگ گئے تھے۔

بعض اوقات وہ اس قدر مایوس ہو جاتا کہ ڈپریشن کی حالت میں اس کا جی کرتا کہ وہ چلتی ٹرین سے کود جائے۔ مگر پھر یک لخت اس کو بچوں کا خیال آ جاتا جو گھر پر اس کے انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ ٹرین کا یہ سفر اس کی زندگی کا حصہ بن گیا حتکہ 1988 میں جب اس نے پہلی بار صدر امریکہ کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو یہ اعلان اس نے ٹرین سٹیشن سے کیا تھا۔

خوش قسمتی سے اس کی ملاقات انگلش ٹیچر جل سٹیون سن Jill Stevenson سے ہو گئی اور جلد ہی 1977 میں ان کی شادی ہو گئی۔ جل بائیڈن ابھی تک نارتھرن ورجینیا کمیونٹی کالج میں انگلش کی ٹیچر ہے اور جب جوزف بائیڈن جنوری 2121 میں صدر امریکہ کا حلف اٹھائے گا تو بھی اس کا ارادہ ہے کہ وہ ٹیچنگ کرتی رہے گی۔ جب اس کا شوہر باراک اوبامہ کا وائس پریزیڈنٹ تھا تو اس وقت بھی سیکرٹ سروس اس کی حفاظت پر معمور تھی۔ ڈاکٹرجل بائیڈن چار ڈگریوں اور ایک ڈاکٹریٹ کی حامل ہے جو اس نے خود اپنی محنت لیاقت اور استعداد سے حاصل کی تھیں۔

جوزف بائیڈن کواپنے بیٹے بو بائیڈن Beau Biden پر فخر حاصل تھا جو امریکی ریاست ڈیلا وئیر کا اٹارنی جنرل منتخب ہوا تھا۔ جب وہ اٹارنی جنرل تھا تو اس نے ایک سال امریکی فوج کے ساتھ ایک سال عراق میں جنگ کے دوران گزارا تھا۔ جرات اور دلیری کی بنا ء پر اس کو برونز میڈل سے نوازا گیا تھا۔ عراق سے واپس آنے کے بعدبھی اٹارنی جنرل رہا اور اس کا ارادہ تھا کہ ڈلاوئیر ریاست کے گورنر کا الیکشن لڑے۔

بو بائیڈن نے یہ بات صاف کردی تھی کہ سیاست میں خود راستہ بنائے گا جس کے لئے اس کو اپنے والد کے معروف نام، شہرت اور مدد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مگر قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔ اس کو برین کینسر ہو گیا۔ کچھ مہینے تو یوں لگتا تھا کہ کینسر ری میشن میں چلا گیا ہے مگر واپس آ گیا اور 30 مئی 2015 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ بیٹے نے باپ سے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی: He looked into my eyes and kept saying، ”Promise me Dad that you will be ok“

بو بائیڈن چا ہتا تھا کہ اس کا باپ صدر کا الیکشن لڑے۔ بیٹے کی وفات کے بعد جوزف بائیڈن نفسیاتی طور پر چکنا چور ہو گیا تھا۔ ادھر ہلری کلنٹن صدر کے الیکشن کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتر آئی۔ جب 2016 میں ٹرمپ جیت گیا تو بائیڈن اپنی اہلیہ کے ساتھ ڈلا وئرDelaware اپنے گھر واپس لو ٹ آیا۔

بائیڈن نے ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کے لئے دو دفعہ (1988 & 2008) کوشش کی مگر دونوں دفعہ ناکام رہا۔

اور پھر کیا ہوا کہ شارلٹس ول (ورجینیا) میں فسادات ہوئے جس میں سفید فام نیو نازیز supremacists نے احتجاج کر نے والوں پر حملہ کر دیا جو چاہتے تھے کہ کنفڈریٹ جنرل رابرٹ لیLee کا مجسمہ گرا دیا جائے۔ جب ایک سفید فام تشدد پسند نے لوگوں کے ہجوم پر کار دوڑا دی تو 12 اگست 2017 کو ایک 32 سالہ لڑکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی اور 19 زخمی ہو گئے۔ بائیڈن کو اس اندوہ ناک واقعہ سے سخت رنج ہوا۔ ملال اور رنجیدگی کی بات یہ نہیں تھی کہ سفید فام تشدد پسند ایسے نعرے لگا رہے تھے کہ Jews will not replace usبلکہ اس ہبیت ناک واقعہ پر ڈانلڈ ٹرمپ کا قابل مذمت رد عمل تھا جب اس نے ٹیلی ویژن پر کہا تھا there are fine people on both sides۔

بائیڈن نے صدر امریکہ کا یہ رد عمل دیکھا تو عین اس وقت، اسی لمحہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ 2020 میں ہونے والی صدراتی الیکشن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امید وار کے طور پر مقابلہ کر ے گا۔ اس امید پر کہ وہ نہ صرف اپنے مرحوم بیٹے کی خواہش کو پورا کر سکے گا بلکہ امریکی عوام کو قریب لانے اور ان کو متحد کر نے کی تن من دھن سے پوری کوشش کر ے گا۔ مسٹر ٹرمپ شاید اب سوچتا ہوگا کہ کاش اس نے یہ الفاظ نہ کہے ہوتے جو بائیڈن کو اس کے مقابل پر لے آئے اوراس کی شکست فاش پر منتج ہوئے۔ یاد رہے کہwords have consequences

امریکہ کے نئے منتخب صدر جوزف بائیڈن نے اپنی کتاب ( 2017 ) Promise me، Dadمیں انکشاف کیا تھا کہ جب اس کے بیٹے Biden Beauکو کینسر لاحق ہو گیا تھا تو وہ اس کے علاج کے لئے پیسے پیسے کا محتاج ہو گیا تھا۔ فرزند دلبند کے علاج کے لئے اس نے اپنے واحد اثاثے چار ہزار سکوئیر فٹ گھر کو اونے پونے داموں پر فروخت کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ چونکہ بینک سے قرض لینے کی شرائط بہت سخت تھیں اس لئے قرض لینا مناسب نہیں سمجھا۔ پھر اس پر طرفہ یہ کہ اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی وہ قرض کی قسطیں ادا کر سکے۔ گھر کی فروخت کا معاہدہ قریب قریب تیار تھا کہ کسی طرح صدر اوبامہ کو اس امر کی اطلاع ہو گئی۔ انہوں نے بائیڈن کو اپنی طرف سے مدد کی رقم دے کر گھر کو فروخت ہونے بچا لیا۔

ابراھام لنکن کا سب سے اہم ذاتی وصف empathy تھا۔ یعنی gift of putting himself in place of others to see what they feel۔ بچپن میں بھی وہ بہت شفیق و نرم دل انسان تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ وہ پیدل کہیں جا رہا تھاتو اس نے ایک جانور دلدل میں پھنسا دیکھا مگر بے توجہی کے عالم میں وہاں سے گزر گیا۔ جب وہ آدھا میل جا چکا تو واپس آیا اور جانور کو دلدل سے باہر نکالا۔ اس نے جانور کو باہر اس لئے نکالا تا وہ اس کے درد اور تکلیف کو اپنے ذہن سے نکال پھینکے۔

جوزف بائیڈن کے اوصاف میں سے سب سے بڑی اخلاقی قوت empathy ہے۔ وہ سیاست میں spirit of bipartisanship سے کام لیتا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ ”وہ (یعنی ری پبلکن) ہمارے مد مقابل ہیں نہ کہ ہمارے دشمن“ ۔ اوبامہ کے دور حکومت میں جب ڈیموکریٹ کا کنٹرول کانگریس پر ختم ہو گیا تو بائیڈن نے اپنے مد مقابل جان میک کین اور مچ میک نال کے تعاون سے کئی ایک قوانین پاس کروائے تھے۔ ویت نام جنگ کے ہیروہ جان میک کین کی 30 اگست 2018 کو وفات پر بائیڈن نے کہا تھا : ”میرا نام جو بائیڈن ہے۔ میں ایک ڈیمو کریٹ ہوں اور میں جان میک کین سے بے پناہ محبت کرتا ہوں“ ۔ یہ بیان صدر ٹرمپ کے بیان سے ہزار گنا مختلف تھا جس نے کہا تھا I dont cosnider John McCain a war hero because he had not been killed but captured۔

یہ بات تعجب کی نہیں کہ جان میک کین کی وائف سنڈی میک کینCindy McCain نے 2020 الیکشن کے دوران بائیڈن کی پر زورتائید کی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).