حکومت نواز شریف کی گرفتاری چاہتی ہے یا یہ نورا کشتی ہے؟


برطانوی اخبار دی سن نے منگل کو ایک خبر شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ برطانیہ نے چالیس غیر قانونی پاکستانی افراد کو ڈی پورٹ کرنے کے لئے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے پاکستان بھیجنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت نے چارٹرڈ پرواز کے لئے تین لاکھ پاؤنڈ بھی ادا کیے تھے۔ پاکستان نے پرواز کی کلیرنس دینے سے انکار کیا۔ برطانوی اخبار کے ذرائع کے مطابق پاکستان نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی کے معاملے پر پرواز مسترد کی۔

پاکستان اور برطانیہ کے درمیان نواز شریف کی واپسی کا معاملہ کی وجہ سے اس پرواز کو پاکستانی حکام نے وصول کرنے سے انکار کیا۔ جس کے بعد ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد کو واپس ڈیٹینشن سنٹرز منتقل کر دیا گیا۔ برطانوی اخبار کے اس خبر کو لے کر پاکستانی میڈیا جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں نے اس خبر کو ایک اہم خبر کے طور پر نشر کیا۔ اس حوالے سے جب برطانیہ میں صحافی دوستوں سے رابطہ کیا گیا اور اس خبر کے حوالے سے تفصیلات مانگی گئی۔

تو معلوم ہوا کہ یہ خبر تو ٹھیک ہے کہ برطانوی چارٹرڈ پرواز کے ذریعے 40 غیر قانونی پاکستانی افراد کو پاکستان نے وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن یہ خبر آج کی نہیں ہے۔ یہ خصوصی پرواز 20 اکتوبر کو گئی تھی۔ سوال یہ اٹھتا ہے دو مہینے بعد اس خبر کو بین الاقوامی اور بعد میں ملکی میڈیا میں چلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اب اس خبر سے متعلق مزید کچھ تفصیلات میں جاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے 5 اکتوبر کو برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کو خط لکھا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف ملک میں کرپشن کے ذمہ دار ہیں اور امید ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ کرپشن کے ذمہ داروں کی ملک واپسی کے لئے پاکستانی حکومت کی کوششوں میں تعاون کریں گی۔ خط میں برطانوی وزیر داخلہ سے نواز شریف کو واپس بھیجنے کے لئے اپنے وسیع اختیارات کا استعمال کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ خط کے ذریعے حکومت پاکستان نے برطانوی حکام سے نواز شریف کے وزٹ ویزا کو منسوخ کرنے پر غور کرنے کو کہا جس نے انہیں طبی بنیادوں پر نومبر سے لندن میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

اس خط میں 1974 کے برطانیہ کے اپنے امیگریشن قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اگر چار سال سے زیادہ کی قید کی سزا سنائی جائے تو اسے برطانیہ سے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ خط نواز شریف کے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس (ایم پی سی) میں کی گئی تقریر کے تین ہفتوں بعد برطانوی سفارت کار کے حوالے کیا گیا جہاں مذکورہ تقریر میں انہوں نے سیاست میں اس کے مبینہ کردار پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

جس کے جواب میں 5 نومبر کو پریتی پٹیل وزیر داخلہ برطانیہ نے بھی پاکستان کو خط لکھا تھا۔ پریتی پٹیل کا کہنا ہے ہمیں ڈی پورٹ کرنے کے لئے جن شواہد اور حقائق کی ضرورت ہوتی ہے وہ پورے کیے جائیں تو حکومت اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ اس سے پہلے برطانوی حکومت اسحاق ڈار کو واپس بھیجنے اور ڈی پورٹ کرنے پر بھی انکار کر چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کے لئے برطانیہ جانا پڑا تو خود جاؤں گا اور ضرورت پڑی تو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے بات کروں گا۔

گوجرانوالہ میں مسلم لیگ (ن) کے جلسے کے ایک دن بعد وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹائیگر فورس کے کنونشن سے خطاب کیا اور اعلان کیا کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ اور بھی سخت رویہ اپنائیں گے اور انہوں نے نواز شریف کو واپس لانے اور سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے ہر ممکن کوششوں کا عزم ظاہر کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو واپس لاؤں اور آپ کو وی آئی پی کے بجائے ایک عام جیل میں رکھا جائے۔

اس حوالے سے جب جرمنی میں مقیم پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک سینئر صحافی سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت مریم نواز حکومت کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اگر موجودہ حالات میں نواز شریف وطن واپس آتے ہیں تو حکومت کے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ ملکی سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھ جائے گا۔ اور آنے والے دنوں میں اس کا پارہ مزید اوپر جانے کا امکان ہے۔ حکومت کسی بھی طور نواز شریف کی واپسی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسوں سے حکومت پریشان ہے۔ حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے بری طرح ناکام ہوئے جبکہ اپوزیشن کے نزدیک جلسوں نے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اس طرح کی خبریں پھیلانے کا مقصد نواز شریف اور اس کی سیاسی جماعت پر نفسیاتی طور پر پریشر ڈھالنے کا ایک حربہ تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صرف نورا کشتی ہو رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).