وادی سواں سے لاہور تک پنجاب کا مزاج



مورخین اور دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیاء میں پنجاب دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان وادی سواں سے شروع ہوا اور پھلتا پھولتا اتنا بڑا ہو گیا کہ جغرافیائی لحاظ سے اس کی جنوبی ایشیاء کے نقشے میں اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے وقت بھی موجودہ پنجاب میں آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ اگرچہ اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہیں مگر آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ پنجاب میں آبادی ہزاروں سال قبل مسیح سے موجود رہی ہے۔

ویدی ادوار میں سپتا سندھو یعنی سات دریاوں کی سر زمین کے نام سے مشہور پنجاب علم و ترقی کا مرکز تھا جہاں کئی درسگاہیں بھی موجود تھیں۔ جن میں تکش شیلا کا ذکر برصغیر کی سب سے پرانی کتاب ویداس میں بھی ملتا ہے یہ درسگاہ 18 علوم سکھاتی تھی۔ عزت نفس اور قوموں کی غیرت پہ مہابھارت بھی پنجاب میں لڑی گئی کئی لڑائیوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ جس میں پانڈؤں کی کوروں سے لڑائی کا ذکر ملتا ہے۔

سکندر اعظم نے پرشئین تخت کو شکست دینے کے بعد جب مشرق کا رخ کیا تو اس نے پنجاب کے لوگوں کو خود مختیار اور غیرت مند پایا پنجاب کے محدود عسکری ذرائع وسائل ہونے کے باوجود سکندر اعظم کو پنجاب میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ برصغیر کے بادشاہ پورس کی فوج کا دریائے جہلم پر سکندر اعظم کی ناقابل شکست فوج کو نا صرف روکنا بلکہ انہیں دوستی کے لیے مجبور کرنا پنجاب کے لوگوں کی مزاحمت تھی۔ سکندر اعظم کی فوج کو پنجاب کے لوگوں نے پورس کی قیادت میں مونگ (منڈی بہاؤالدین، پاکستان) کے مقام پر محدود عسکری وسائل ہونے کے باوجود بھرپور مزاحمت دکھائی۔ اس کے بعد موریا، گپتا اور دیگر سامراجوں کی داستانیں بھی تاریخ نے رقم کی جہاں پنجاب کی پگڑی عزت و ناموس کے آگے سرخرو نظر آتی ہے۔

دہلی کے تخت تک مغرب سے آئے ہرعرب، ترک و افغانی حملہ آور کو پنجاب کی سرزمین سے گزر کر جانا پڑتا تھا اور تاریخ گواہ ہے پنجاب کی دھرتی کے سپوتوں نے حملہ آوروں کی دہلی تک پہنچنے میں کبھی سہولت کاری نہیں کی بلکہ بھرپور مزاحمت کی، سر کٹائے مگر غلامی قبول نہیں کی۔ محمد بن قاسم کا مسلمانوں کے لیے رتبہ اپنی جگہ مگر پنجاب کی دھرتی نے عرب النسل سترہ سالہ لڑکے کے حملے کے آگے خاموشی اختیار نہیں کی بلکہ تاریخ ہمیں راجہ داہر کی مزاحمت بارے بہت کچھ آج بھی واشگاف الفاظ میں بتاتی ہے۔

گجرات میں موجود سومنات کے مندر تک رسائی حاصل کرنے میں ترک حکمران محمود غزنوی نے سترہ حملے کیے جن میں سولہویں حملہ میں اس نے سومنات کا مندر تباہ کیا اور جواہرات نکالے اور مفتوح علاقے پر حکومت کیے بغیر واپس چلا گیا۔ سولہویں حملہ میں غزنوی کی کامیابی درحقیقت پہلے پندرہ حملوں میں ناکامی کا پتہ دیتی ہے اور ہمیں بتاتی ہے کہ پنجاب کے بہادر لوگوں نے کس قدر حملہ آوروں سے نمٹا۔

غزنوی کے بعد شہاب الدین غوری کو بھی پنجاب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے ہی غوری کے بعد قطب الدین ایبک، خیلجیوں اور تغلقوں کو بھی پنجاب کے لوگوں نے حاکم قبول نہیں کیا۔ صدیاں گزریں افغانیوں کا اثر و رسوخ بڑھا اور پنجاب دہلی سلطنت کے زیر سایہ ضرور آیا مگر اپنا انفرادی تشخص ہمیشہ برقرار رکھا۔ مغلوں نے پنجاب کو اور پنجاب نے مغلوں کو محبت کے رشتہ میں باندھا اور دہلی کے بعد لاہور مغلیہ حکومت کا دوسرا اہم شہر تھا۔

وقت گزرا صدیاں بدلیں اور نئی صدیوں کے نئے تقاضوں اور نئے دشمنوں کو حکمران سمجھ نہیں پائے اور مغلیہ سلطنت دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی یہانتکہ دو وقت کی روٹی کے لیے انگریز کی محتاج ہوئی۔ افغان النسل مغلوں کے زوال کے بعد پنجاب نے انگریز کی حاکمیت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس دھرتی سے شیر پنجاب کہلایا جانے والا رنجیت سنگھ ہمیں تاریخ کے ورقوں میں بیرونی حملہ آوروں کے آگے ایک مزاحمتی قوت کے طور پر نظر آتا ہے۔ اس کی خالصا فوج جس میں مسلمان، ہندو اور سکھ شامل تھے رنگ نسل سے بالاتر ہو کر خالص پنجاب کے جوانوں پر مشتمل فوج تھی۔

پنجاب نے صرف افغانیوں کو ہی نہیں بلکہ انگریز کو بھی چین کی نیند نہیں سونے دیا۔ آزادی کی جنگ میں انقلابی تحریکوں کا مرکز پنجاب رہا ہے۔ پنجاب کے دانشوروں، شاعروں اور فلاسفروں نے برصغیر کے عام آدمی کے دل میں آزادی کی ایسی چاہ پیدا کر دی جس سے انگریز کے پاؤں اکھڑنا شروع ہوئے۔ پنجاب کے جوانوں نے پہلی جنگ عظیم میں شہادتیں اور گھاو کھائے۔ پنجاب کے لوگ سیاسی طور پر باشعور رہے ہیں اور انہوں نے کبھی بیرونی حملہ آور خاص طور پر افغانی حملہ آوروں کی حاکمیت قبول نہیں کی۔ تقسیم ہند میں اور پاکستان بننے میں بنگال اور پنجاب کے لوگوں نے اہم کردار ادا کیا۔ باقی پاکستان میں تو لوگوں کو پاکستان بننے کے کئی مہینوں تک پتہ ہی نہیں تھا کہ کیا ہوا مگر پنجاب نے نا صرف مہاجرین کو دل کھول کر قبول کیا بلکہ نئی ریاست کی معیشت کو بھی اپنے کمزور کندھوں پر اٹھا لیا۔

پنجاب کو پاکستان کے باقی صوبوں کا بڑا بھائی کہا جاتا ہے۔ اور پنجاب نے ہر بار بڑا بھائی بن کر بھی دکھایا ہے۔ کسی فرد واحد کا پنجاب کے لوگوں کو ان کی عزت و نفس اور غیرت پر طعنہ مارنا یقیناً تاریخ سے لاعلمی کا عملی ثبوت ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس رہی ہے۔ دہشتگردی کی جنگ میں پنجاب لہو لوہان بھی ہوا تو بھی افغانی دہشتگرد تنظیم کو موردالزام ٹھہرایا۔ پنجاب نے کبھی پشتون یا بلوچ بھائیوں کو لسانیات کی بنا پر طعنہ نہیں مارا۔

پاکستان کا دل بہت بڑا ہے کیونکہ پنجاب کو پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ سویت یونین کے بعد دربدر افغانیوں کو پاکستان نے پناہ دی اور جذبہ محب وطنی سے ہر وقت سرشار پنجاب نے افغانیوں کے لیے اپنی بانہیں کھول دیں۔ چالیس سال سے زیادہ وقت ہونے کو آیا ہے اور افغانی پنجاب کا نمک کھا رہے ہیں مگر پنجاب نے کوئی طعنہ مارا نہ طنز کیا۔

پنجاب کے لوگ محبت، غیرت اور بہادری کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے وسائل کی قلت تھی یا فراوانی پنجاب کے لوگوں نے اپنی حرمت، عزت، غیرت اور خودمختیاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ پنجاب نے سکندر اعظم، عرب، ترک و افغانیوں کے حملوں کو بھرپور انداز میں جواب دیا اور انگریز کے بھی پاؤں زیادہ دیر نہیں ٹکنے دیے۔ یہانتکہ اکیسویں صدی کی خطے میں القاعدہ اور طالبان کی دہشتگردی کو ختم کرنے میں بھی پنجاب نے کلیدی کردار ادا کیا۔

جنگ ہار جانا ایک مختلف چیز ہے۔ جنگ کے ہارنے میں بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں مگر ہارنے والے کی مزاحمت کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی اور پنجاب سے ایسی مزاحمتیں ہر دور میں ہمیں تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں لکھی نظر آتی ہیں۔ چند نام نہاد افغانیوں کے حامی سیاستدانوں کو تاریخ مسخ کرنے کی بجائے تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پاکستان کا دل پنجاب اپنے سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی اور اردو بولنے والے بھائیوں کے لیے ہر وقت دھڑکتا ہے۔

پنجاب کے کھیت کھلیانوں سے کاشت کی گئی گندم سے چالیس سال سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کا پیٹ بھرتا ہے۔ اور پنجاب نے کبھی سوال نہیں کیا۔ اور نا پنجاب نے کبھی اپنی سرزمین پر کسی افغانی کو کاروبار کرنے سے روکا ہے۔ کیونکہ پنجاب کا دل بہت بڑا ہے جو اس کے خلاف بولنے والے چھوٹے دماغوں کو نظر نہیں آتا۔

لسانیت کی بنیاد پر وطن عزیز میں سیاست کئی بار ہوئی ہے۔ چند نام نہاد سیاست دانوں کا دل پاکستان سے زیادہ افغانیوں کے لیے دھڑکتا ہے۔ اس مزاج کی حوصلہ شکنی ہر فورم پر ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے اور یہاں رہنے والے سب اس وطن کے شہری ہیں۔ پاکستان کسی لسانی اور مذہبی منافرت کا متحمل نہیں ہو سکتا اس لیے منبر پر آئے روز نفرت پھیلانے والوں کو سمجھانا پڑے گا اور بتانا پڑے گا کہ آپ کی سمت غلط ہے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں جو اصل سٹیک ہولڈر ہیں انہیں اس بات پر غور و فکر کرنا پڑے گا کہ تعصب پر مبنی آواز کہیں منبر سے بلند ہوتے ہوئے کوئی نئی شرانگیزی کی طرف نا چل پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).