بھارتی اشتعال انگیزیاں خطۂ امن کے لئے خطرہ!


بھارت نے ایک عرصے سے ایل او سی پر جنگی ماحول پیدا کر رکھا ہے، بھارتی فوج آئے روز سرحدوں پر گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے، پاکستانی ا فواج بھارتی اشتعال انگیزیوں کا بھرپور جواب دے رہے ہیں۔ بھارت پاکستان دشمنی میں سازشی اور تخریبی حربے استعمال کر رہا ہے۔ مودی سر کار نے پا کستان میں دہشت گردی کروا نے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم، مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر زمین تنگ کر دینے اور آئے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں سمیت مظالم کی انتہا کررکھی ہے۔

اس تشویشناک صورتحال سے جنوبی ایشیاء کا امن داؤ پر لگا ہے، دنیا پر لازم ہے کہ اس پر فوری توجہ دیتے ہوئے بھارت کا ظالمانہ ہاتھ روک کر خطے میں امن کابیج بو دے، اس سے قبل کہ کوئی شعلہ بھڑک کر جنوبی ایشیا سمیت پورے دنیا کا امن خاکستر کر دے، اس قیام امن کے دشمن کے خلاف متحد ہو کر عبرت ناک شکست سے دوچار کر نا ہے۔

بھارت میں بھارتی سر کار کی ظالمانہ پا لیسیوں کے باعث تمام اقلتیں سراپہ احتجاج ہیں، جبکہ مودی انتہا پسند حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے پاکستان مخالفت کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ اگراس کی جانب سے اپنے اندرونی خلفشار سے توجہ ہٹانے کے لیے پا کستان مخالف کسی کارروائی کا سہارا لیا گیا تو پاکستان کے پاس منہ توڑجواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کے جواب میں ہمیشہ محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، تاکہ سرحد پر پیدا ہونے والی کشیدگی خطے کی دو جوہری طاقتوں کو میدان جنگ میں اترنے پر مجبور نہ کر دے۔ پاکستان نے دو طرفہ اور کثیر الفریقی سطح پر بھارت کے ساتھ تنازعات کو ہمیشہ بات چیت سے حل کرنے کی بات کی ہے۔ اقوام متحدہ ’یورپی یونین‘ بین الاقوامی عدالت انصاف ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ سارک اور دولت مشترکہ کے اجلاسوں میں پاکستان اپنے اس موقف کو دہراتا رہا ہے، اس کا مقصد عالمی برادری کو باور کروانا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و امان کا خواہاں ہے، بھارت جب بھی کوئی شرارت کرتا ہے تو پاکستان عالمی برادری کی توجہ اس کی حرکات کی جانب مبذول کرواتا ہے، جس کا مقصد خطے کے حالات کو معمول پر رکھنا ہوتا ہے۔

اس بنا پر پاکستان کی جانب سے پرامن طریقے سے تنازعات کا حل تلاش کرنے کا موقف اخلاقی اور اصولی طور پر دنیا میں پذیرائی پا چکا ہے، اس کے باوجودبھارتی اشتعال انگیزیوں پر عالمی قوتوں کی خاموشی ناقابل فہم ہے، امریکہ خود افغانستان میں قیام امن اور پرامن انخلا کے ضمن میں پاکستانی پالیسی سے فائدہ اٹھا رہا ہے، لیکن پاک بھارت تنازع پر حقیقی ثالثی سے گریزاں ہے۔

امریکہ اور بھارت کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں، خطے میں بدلتی صورت حال کے پیش نظر بھارت کو امریکہ کی پشت پناہی حاسل ہے، امریکہ ایک طرف افغانستان میں مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تو دوسری جانب بھارت کو علاقائی تھانیدار بنانے کی پالیسی برقرار ہے، امریکی شہ پر ہی بھارت کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر میں جارحیت بڑھانے کے اقدامات اٹھارہا ہے، امریکہ کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ بھارتی جارحانہ عزائم اور اشتعال انگیزیوں سے صرف پاکستان اور اس خطے کی سلامتی کو ہی خطرہ لاحق نہیں، بلکہ اس کی جنونیت عالمی ایٹمی جنگ کی نوبت لا کر پوری دنیا کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے، اگر امریکہ حقیقت بھانپ کر بھی بھارتی اشتعال انگیزیوں سے صرف نظر کر رہا ہے تو یہ اس کی مجرمانہ بے نیازی سے زیادہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارتی عزائم کی سرپرستی نظر آتی

ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کو بجا طور پر ملک کی سلامتی کے تحفظ کے تقاضوں کے مطابق اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے مکمل یکجہت ہونا اور اس ناتے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا بہت ضروری ہے۔

اس وقت ملک اندورنی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہے، بھارت بیرونی محاذ پر اشتعال انگیزی کرہاً ہے، جبکہ ملک کے اندر سیاسی محاذآرائی انتہا تک جاپہنچی ہے، اس سیاسی محاذ آرائی میں قومی ریاستی اداروں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جا رہیں جو دشمن کو ملک کی سلامتی کے خلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے، اگر بھارت ہم پر سرجیکل سٹرائیکس کی علانیہ منصوبہ بندی کیے بیٹھا ہے تو اس کا ٹھوس جواب قومی اتحاد کے بل بوتے پر دینا ہے، نہ کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں تک لے جا کر اپنے دشمن کو قومی انتشار کی جھلک دکھائیں اور اسے ملک کی سلامتی پر اس کے منصوبے کے مطابق وار کرنے کا نادر موقع فراہم کریں۔

ہمیں اپنی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہے جو قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا میں ہی ممکن ہے، اس لئے قومی سیاسی قیادتیں باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے، باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لئے عساکر پاکستان کے ہاتھ مضبوط بنائیں، سیاسی قیادت کو سیاسی دکانداریاں چمکانے سے زیادہ ملک کا دفاع یقینی بنانا ہوگا، کیو نکہ ملک ہوگا تو سیاست کے بازار میں بھی رونق لگی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).