متاع وقت کا احساس دلانے والا چل بسا!


مجھے یقین ہے ان کا کمرہ اب بھی کتابوں کی خوشبو سے مہک رہا ہوگا، ان کی نشست کا ایک حصہ اب بھی کتابوں سے لدا ہوا ہوگا، سائڈ میں پڑے ڈسک پر بکھرے سفید کاغذ، اخبارات اور کئی رسائل اب بھی کمرے کی زینت بنے ہوئے ہوں گے ، قرآن وحدیث، فقہ، ادب، فسلفہ، تاریخ، اور شاعری پر لکھی گئی کتابیں شاید اب بھی ترتیب سے بک شیلف میں نظر آ رہی ہوں گی ں، اور موٹے شیشے والی نظر کی عینک جو وہ پہنا کرتے تھے ممکن ہے اب بھی اسی کمرے کا حصہ ہو لیکن صد افسوس کہ استاد محترم مولانا مسعود باللہ قلمی نام (ابن الحسن عباسی) صاحب خود نہیں رہے۔

آپ حالا جامعہ تراث الاسلام کراچی کے بانی اور جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی کے سابق استاد تھے۔ ’ماہنامہ وفاق المدارس‘ ایک طویل عرصہ تک ان ہی کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے جبکہ اس وقت آپ معروف علمی و تحقیقی ماہنامہ رسالے ”النخیل“ کے ایڈیٹر تھے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی اس رسالہ کا مطالعہ نمبر پاکستان و ہندوستان دونوں ملکوں سے بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوا تھا جس کی بڑی پذیرائی ہوئی تھی۔

فن تدریس میں آپ کی مہارت کا عالم یہ تھا کہ درس نظامی میں رائج مشکل کتابوں کے مغلق اور پیچیدہ مقامات کو بڑے سہل اسلوب میں حل فرماتے تھے، انہیں بجا طور پر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کے میدان کا اہم ستون کہا جاسکتا تھا، عربی اور اردو ادب پر ان کو یکساں عبور حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی بعض عربی کتب کی شروحات کو علماء اور طلباء میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے۔ ان کا تعلق کالا ڈھاکہ ضلع تورغر سے اور مادری زبان پشتو تھی لیکن اردو میں بات کرتے ہوئے آپ سے ناواقف شخص یہ نہیں جان سکتا تھا کہ آپ کی مادری زبان پشتو ہے۔

آپ ایک کہنہ مشق مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب، بہترین مصنف اور یگانہ روز گار کالم نگار بھی تھے اور اردو تذکرہ نگاری و خاکہ نویسی میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے چنانچہ ہند وپاک میں ان کی کتابوں اور مضامین کو ایسی غیر معمولی مقبولیت ملی جو شاید ہی کسی اور معاصر کی قسمت میں آئی ہو۔ وہ تصنع سے مبرا، تکلف سے کوسوں دور، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی دنیا کے مرد میدان تھے۔ جذبات کے تابع ہوئے اور نہ کبھی ہوش پر جوش کو غالب آنے دیا، انہوں نے کسی مخصوص جماعت کا حصہ بننے کے بجائے تا دم مرگ فقط علمی دنیا سے وابستہ رہنے کو تر جیح دی، وہ اپنی ذات میں ایک قلندر صفت انسان مگر بحر آگہی کے شناور تھے، ان کا فیضان علم سب کے لیے عام اور ان کی ذات خیر کا مصدر تھی، وہ شہرت ومناصب سے بے نیاز مگر صبح و شام ان کی بزم ادب سے نور فشاں تھیں اور علماء کے حلقہ میں ان کا اچھا تعارف، شہرت اور مقام تھا، ان کو علم سے اس قدر لگاؤ تھا کہ ہر وقت کتابوں کی درسگاہ میں تشریف فرما ہوتے، ان کو شاذ ونادر ہی ہم نے اپنے زمانہ طالب علمی میں کتاب کے بغیر دیکھا۔

اللہ جانے انہوں نے کتب بینی سے کتب سازی تک کا سفر اتنی جلدی کیسے طے کیا! بندہ کو ان سے جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی کراچی میں کئی کتابیں پڑھنے کا اور ان کی ایک کتاب ”کرنیں“ کے چند صفحات کی پروف ریڈنگ کا شرف حاصل ہے۔ یوں تو شاگرد کو اپنے ہر استاد سے محبت ہوتی ہے لیکن مجھ ناچیز کو ان سے کچھہ زیادہ ہی محبت تھی۔ کچھ عرصہ پہلے کسی نے خبر دی تھی کہ حضرت امارات بھی آتے جاتے ہیں، میسنجر پر دعاء سلام کے بعد بندہ پر امید تھا کہ اس بار ان کے امارات آنے پر خدمت کا موقع ضرور ملے گا۔ لیکن افسوس۔ کہ یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ اب تو بس یوں ہی کہا جاسکتا ہے کہ ”آسمان تیری لحد پہ شبنم آفشانی کرے۔”

تصنیف وتالیف کے نام پر بعض نام نہاد اہل قلم نے رطب ویابس کے کیسے کیسے انبار نہیں لگادییے ہیں، مگر مصنف مرحوم کی ہر تصنیف کا ہر مضمون اردو ادب کا ایک شہ پارہ ہے، ان کی ایک درجن سے زیادہ تصانیف ہیں اور ہر کتاب کا انداز نرالا ہے، یہ ساری کتب علم و ادب کے شائقین میں بے پناہ مقبول ہیں۔ التجائے مسافر، کتابوں کی درسگاہ میں، داستاں کہتے کہتے، کرنیں اور عربی ادب کی کتاب مقامات کی شرح وغیرہ لیکن ایک کتاب ”متاع وقت اورکاروان علم“ کی شان ہی کچھ الگ ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان کے گلہائے رنگارنگ میں یہ کتاب گل گلاب کی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب میں مصنف مرحوم نے جس ادبی اور علمی انداز میں وقت کی قدر و قیمت کو سمجھایا ہے اور جس عاشقانہ اسلوب میں چند اساطین علم کا تذکرہ فرمایا ہے شاید ہی اس موضوع پر اردو زبان کی کسی اور کتاب میں یہ جامعیت پائی جاتی ہو، یہ کتاب بار خاطر بن جانے والے طول اور مقصود سے قاصر رہ جانے والے اختصار دونوں سے پاک متوسط درجے کی ضخامت میں مرتب کی گئی ہے۔

اسی طرح ان کی عربی ادب کی کتاب ’مقامات حریری‘ کی شرح ’درس مقامات‘ سے کون سا استاد اور شاگرد واقف نہیں ہوگا؟ بظاہر تو یہ ایک عربی کتاب کا ترجمہ وتشریح ہے لیکن حقیقت میں یہ بجائے خود مستقل اور طبع زاد تصنیف بن چکی ہے جو گویا عربی اردو ادب دونوں کا مجموعہ ہے۔ افسوس کہ وہ متاع وقت کا احساس دلاتے دلاتے خود آج رفتہ کاروان علم میں شامل ہوچکے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ ان کے بہار آفرین قلم سے اب علم و ادب کی دنیا میں نت نئے جواہر پارے وجود میں نہیں آئیں گے مگر ان کے لکھے ہوئے انمول خزانوں سے خلق خدا مستفید ہوتی رہے گی اور ہاتھ دعا کے لیے ان کے حق میں ہمیشہ اٹھتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).