لیکن اگر یہ کپتان کا پہلا میچ نہ ہوتا۔۔۔


نیوزی لینڈ
کیویز ہوں، پروٹیز ہوں کہ کینگروز ہوں، ان کنڈیشنز میں پاکستان کے دورے عموماً ایسے ہی شروع ہوا کرتے ہیں جیسے آج ایڈن پارک میں یہ دورہ شروع ہوا۔ ٹور کے پہلے میچ میں جس قدر ڈرامے کی توقع تھی، ہمیں اس سے کہیں زیادہ دیکھنے کو ملا۔

ایسے مشکل دوروں پہ اگر کپتان بھی نیا ہو تو مشکلیں سوا ہو جاتی ہیں۔ اور شاداب خان کا المیہ یہ کہ وہ نئے کپتان نہیں بلکہ ‘اچانک’ کپتان تھے جنھیں حالات نے اتنی جلدی قیادت کرنے پہ مجبور کر دیا۔ ایسے حالات میں غلطیاں سرزد ہونا ناگزیر ہے۔ گو مچل سینٹنر کے حالات بھی شاداب خان سے ہی تھے مگر انھیں ہوم کنڈیشنز کی واضح ترین برتری بھی میسر تھی۔

پہلے پہل تو شاداب خان کا یہ فیصلہ ہی ناقابلِ فہم تھا کہ ان نامانوس کنڈیشنز میں پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔

ٹی ٹونٹی کپتان عموماً پہلے بیٹنگ کا فیصلہ تب کرتے ہیں جب وکٹ سست ہو اور دوسری اننگز میں رن ریٹ گرنے کی توقع ہو یا پھر بولنگ لائن میں اتنی طاقت نہ ہو کہ اسے پہلے اٹیک کا موقع دینا افورڈ کیا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے

’نیوزی لینڈ کے بولرز اب ہمارے خوابوں میں آئیں گے‘

بابراعظم نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل سیریز سے باہر

پاکستان سے ٹی ٹوئنٹی کی پہلی رینکنگ چھن گئی

ویسے بھی ایک طویل مدت کے بعد یہ بابر اعظم کے بغیر پاکستان کا پہلا ٹی ٹونٹی میچ تھا۔

بابر کی عدم موجودگی کا براہِ راست مطلب یہ تھا کہ پاکستانی ٹاپ آرڈر دباؤ کا شکار ہو گا۔ ایسے میں دورے کے عین اوائل میں ہی اپنی بیٹنگ کو یوں ایکسپوز کر دینا کسی بھی لحاظ سے دانشمندی کا مظاہرہ نہیں تھا۔

ممکن ہے شاداب خان نے یہ فیصلہ خود نہ کیا ہو، مصباح الحق یا یونس خان نے کیا ہو مگر جس کسی نے بھی کیا، وہ اس حقیقت سے تو یقیناً شناسا تھا کہ بابر اعظم کی عدم موجودگی میں اس ٹیم کی بولنگ لائن بہرحال بیٹنگ لائن سے کہیں زیادہ مضبوط تھی۔

میچ کے ابتدائی دس اوورز میں اس وکٹ نے جو رویہ دکھایا، اگر وہ غیر متوقع باؤنس اور پھرتی شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کو ملتی تو میچ کی چال تو شاید ایسی ہی رہتی مگر نتیجہ بالکل برعکس ہوتا۔

جس ذہانت سے ڈفی نے پاورپلے میں نئے گیند کو استعمال کیا، ڈیبیو پہ ایسی پرفارمنسز خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بہت کم پیسرز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بلے باز کا ذہن پڑھ کے اپنی لائن اور لینتھ طے کریں۔ ڈفی نے جس طرح محمد رضوان کو جال میں پھنسایا، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ اگلے برسوں میں نیوزی لینڈ کے لیے کئی سوالوں کا جواب ثابت ہوں گے۔

شاداب

اس وکٹ پہ نئے گیند سے کھیلنا بہت دشوار تھا۔

یہ پہلو ہمیں دونوں اننگز کے پاور پلے میں دیکھنے کو ملا۔ شاہین آفریدی اور حارث رؤف نے کیوی جارحیت کو پورا پورا جواب دیا۔ مگر نجانے اچانک کیوں شاداب خان نے وہاب ریاض کو پاور پلے میں آزمانے کا فیصلہ کیا۔

کرکٹ کے سبھی ماہرینِ شماریات اس بات پہ متفق ہیں کہ وہاب ریاض کبھی بھی نئے گیند کے بولر نہیں رہے۔ ٹی ٹونٹی میں تو ان کا خاصہ ہی ڈیتھ اوورز کا سٹرائیک ریٹ اور اکانومی ریٹ ہے۔ ان کا بولنگ سٹائل مطابقت ہی پرانے گیند سے رکھتا ہے۔

لیکن شاداب غالباً کیویز کو سرپرائز دینا چاہ رہے تھے اور نیا گیند وہاب ریاض کو تھما دیا۔ مگر کیویز کا جوابی سرپرائز شاداب خان کے حوصلے پست کرنے کو کافی تھا اور پاور پلے ختم ہوتے ہی جب شاداب خود بولنگ کے لئے آئے تو پہلے گیند نے ہی کافی کچھ کہہ دیا۔

شاہین

مگر پاکستان کے لیے مثبت پہلو بھی خیر کم نہیں۔

ٹاپ آرڈر کے بحران کے بعد جس طرح شاداب خان اننگز کو لے کر چلے، وہ فقیدالمثال ہے۔ بالخصوص فہیم اشرف نے جس جارحیت کا مظاہرہ کیا، وہ پاکستان کے ڈریسنگ روم کا مائنڈ سیٹ اور مورال واضح کرنے کو کافی تھا۔

پہلے دس اوورز میں بالکل گر جانے کے بعد جس طرح ٹیم دوبارہ اٹھی اور بھرپور جذبے سے لڑی، یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کہیں نہ کہیں اب معاملات درست سمت کی جانب بڑھنا شروع ہوئے ہیں۔ اور اس امید کی گنجائش بھی بڑھ گئی ہے کہ اگلے دو میچز میں مزید کانٹے دار مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp