وہ سحر جو اندھیر تھی!


سانحہ پشاور کو 6 سال گزر گئے ہیں مگر خون ابھی تک تازہ ہے۔ بارود کی بو فضا میں آج بھی موجود ہے۔ خون کے دھبے دھل چکیں ہیں مگر خون کے نشان نقش ہو گئے ہیں۔

علم کی شمع اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جل تو رہی ہے مگر شمع کو جلانے کے لئے جس خون کا استعمال ہوا ہے اس کی مہک فضا میں اداسی پھیلارہی ہے۔

مائیں آج تک دروازوں کو تک رہی ہیں۔ کبھی دیوار پر ٹنگیں خون آلود یونیفارم کو تکتی ہیں تو کبھی بچوں کی ہنستی تصویروں سے روتی ہوئی ہم کلامی کرتی ہیں۔

بہنیں اب بھائی سے اپنی چاکلیٹس چھپاتی نہیں ہیں بلکہ اپنے حصے کی بھی اپنے بھائی کے لئے بچالیتی ہیں۔ اور جب بھائی خود نہیں لینے آتا تو قبر پر رکھ دیتی ہیں۔

بڑا بھائی اب جب بھی شاپنگ کرتا ہے تو چھوٹے بھائی کے لئے بھی شرٹ خریدتا ہے مگر چھوٹا بھائی تو اب نہیں موجود۔ وہ اپنی الماری میں ہی سجادیتا ہے۔

اب چھوٹا بھائی ڈرائنگ کرتا ہے تو بڑے بھائی کی شکل کو عجیب سا بناتا ہے کہ بھائی کو چھیڑوں گا مگر اب بڑا بھائی موجود نہیں ہے جس کو چھیڑا جائے، پھر خود اس تصویر کو قلم کی نب سے مٹا دیتا ہے۔

وہ دل گرفتہ باپ جو سب کو حوصلہ دیتا ہے مگر چھپ چھپ کر گریہ و زاری کرتا ہے۔ اورآج بھی سب کو ہمت دینے کے بعد رات کوخاموش گریہ کرتا ہے۔

دادی آج بھی عید کے دن عیدی تکیہ کے نیچے دبا کر رکھتی ہیں کہ ابھی میرے بچے آئیں گے اور مجھ سے گلے لگ کر عیدی مانگے گے مگر دادی کا انتظار طویل ہو گیا اور بچے ابھی تک عیدی لینے نہیں آئے۔

محلے کے سخت گیر بابا اب بہت سی گیندیں بالکونی میں لے کر کھڑے ہوتے ہیں کہ اب بچے جب بھی بال مانگنے آئیں گے تو انھیں ڈانٹوں گا نہیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر کر کٹ کھیلوں گا۔

اسکول کا چوکیدار اب بچوں کو ڈانٹتا نہیں ہے آخری بار چوکیدار نے ایک کلاس کے چند بچوں کو ڈانٹا تھا، پھر وہ بچے پلٹ کر اسکول کے دروازے سے نہ گزرے۔

اسکول کا پی ٹی ٹیچر اب بچوں کو سزا نہیں دیتا، بڑے بالوں پر ڈانٹتا بھی نہیں ہے کیونکہ ایک ٹھنڈی صبح اس نے بہت سی اجڑی ہوئی زلفیں دیکھی تھی۔

اب اسکول کی ٹیچر بچوں کے نامکمل ہوم ورک پر برہم نہیں ہوتی ہیں۔ ایک بار برہم ہو کر بچوں کو سزا کے طور پر کلاس سے باہر نکالا تھا مگر پھر وہ بچے پلٹ کر اندر نہ آئے۔

مکئی بیچنے والے انکل کچھ بچوں کے انتظا ر میں رہتے ہیں جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ انکل کل چھٹی کے بعد آپ سے گرم گرم مکئی لینے آئیں گے۔

اسٹیشنری کی دکان والے انکل نے دو بھائیوں کی فرمائش پر ڈالر پین منگوا کر رکھے ہیں لیکن پین اب تک رکھے ہوئے ہیں اور انکل کی نظریں بچوں کی تلاش میں ہے۔

بہت سے لوگ اب معصوم بچوں کے انتطار میں ہیں لیکن انتظار اب بہت طویل ہے ایسا انتظارہے جو اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔ شدید ٹھنڈی سحر میں پھیلی تاریکی صدیوں تک پھیل گئی ہے۔

ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتے جھڑے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).