بے وقوف بنانے والے لوٹے اور جوکر


تاش کی گڈی میں 52 پتے ہوتے ہیں لیکن ان 2 اضافی جوکر بھی ہوتے ہیں، جب کوئی پتہ گم ہوجاتا ہے تو ان کی جگہ پر کسی جوکر کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ملک کی سیاست میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہاں تاش کے پتوں سے زیادہ جوکروں سے کام نکالا جا رہا ہے۔ ہمارے ملکی سیاست میں بادشاہ اور ملکہ سے بھی اہم جوکروں کی حیثیت ہے۔ ان جوکروں سے ملکی سیاست میں بڑے بڑے کام لئے جاتے ہیں۔ ان جوکروں سے بڑے بڑے حکومتیں گرائی جاتی ہے۔

الیکشن کے موسم میں پرندوں کے غول کی صورت میں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ بادشاہ بھی ان کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اور وزیر بھی ان جوکروں کے اگے بے بس۔ ان جوکروں کو پس پردہ قوتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ان ہی قوتوں کے کہنے پر یہ سیاسی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ ان کے بقول یہ ملکی مفاد کے تحت کر رہے ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے لئے ملکی مفاد مقدم ہوتا ہے۔ ملکی مفاد کا مطلب ان کی ڈکشنری میں ان کا اپنا ذاتی مفاد ہی ہوتا ہے۔

عام انتخابات قریب آنے کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے۔ سیاسی رہنما اور کارکنان مختلف علاقوں میں حالات کا رخ بلکہ ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں چھوڑنے اور دوسری جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنے لگ جاتے ہیں بلکہ ان کو غیر جمہوری قوتوں کی طرف سے باقاعدہ کہا جاتا ہے کہ وہ کس پارٹی میں شمولیت اختیار کرے۔ جمہوری ملکوں میں سیاسی جماعت بدلنے کے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور اگر کبھی ایسا ہو بھی تو کسی سیاستداں کے پورے سیاسی کیریئر میں شاید ایک آدھ مرتبہ اور وہ بھی انتہائی سوچ و بچار کے بعد ۔

مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہ جوکر بار بار پارٹیاں بدلتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کا نام پر سیاست کرنی والی سیاسی جماعتیں بھی ان کو خوش آمدید کہتی ہیں کیوں کہ ان کو نظریاتی لوگوں کے بجائے ”نظر آتی“ لوگوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہر وقت اقتدار میں رہتے ہیں حکومت میں رہتے ہیں۔ یہی جمہوری جماعتیں جب برسر اقتدار آتی ہیں تو ان جوکروں کو نوازتی ہیں۔ اگر یہ الیکشن میں ہار بھی جائیں تو اس کے باوجود بھی یہ اہم عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں۔

فیصلہ سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ان جوکروں کی اہمیت اتنی ہے کہ ان کے بغیر کوئی بھی حکومت نہیں بن سکتی۔ ان جوکروں کے لئے ایک اور نام ”لوٹا“ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لوٹا برصغیر میں کافی کام کی چیز ہے، تاریخ گواہ ہے اس کے جینوئن استعمال کے علاوہ بھی اس کے بہت سے استعمال رہے ہیں مثلاً اس سے پرانے وقتوں میں وضو کیا جاتا تھا اور اس سے پانی بھی پیا جاتا تھا، آج بھی برصغیر میں لوٹے کی اہمیت سے انکار نہیں۔

جبکہ لوٹوں کی دوسری قسم سیاسی لوٹوں کی اہمیت اور افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ دونوں لوٹوں کے کام ایک دوسرے سے متضاد ہے پہلے قسم کا لوٹا صفائی کے کام آتا ہے تو دوسری قسم ملک میں سیاسی گند پھیلانے کا کام سرانجام دے رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی سیاست کو انہی لوٹوں نے ہر دور میں ہائی جیک کیے رکھا ہے۔ ان لوٹوں کے ذہانت کی داد دینا پڑتی ہے کہ یہ پاکستان کے تاریخ میں ہر آمر اور غیر جمہوری لوگوں کا ساتھ دیتی آئی ہے اور جمہوری حکومتوں میں بھی ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔

میاں مٹھو ”طوطا“ اور لوٹوں میں ایک قدر مشترک ہے وہ سب کچھ وہی بولتے ہیں جو ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ بولو۔ بالکل ویسے جیسے میاں مٹھو کو جو بولا جاتا ہے وہی دہراتا ہے۔ یہ اپنی تعریف کے لئے بھی کسی کے محتاج نہیں ہوتے یہ اپنی تعریف خود ہی اپنے منہ سے کر لیتے ہیں۔ میڈیا بھی رینکنگ بڑھانے کے لئے ان لوٹوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیتی ہے۔ جیسی ڈیمانڈ ہوگی۔ ویسی دکانیں کھلتی جائیں گی۔ ان کا چورن بکتا ہے۔ کیوں کہ ایک تو یہ ٹی وی سکرین پر چٹکلے چھوڑنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

دوسرا یہ لوٹے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کو ہر اندر کی بات کا پتہ ہوتا۔ سب سے اہم بات ہماری قوم کا مزاج ہے ہمیں تماش بینی پسند ہے۔ اس لیے ان لوٹوں کو ٹی وی سکرین پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ایک لطیفہ یاد آیا۔ روس میں ایک بچے نے اپنی کلاس ٹیچر کو بتایا کہ ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں، وہ سب کے سب کمیونسٹ ہیں۔ ٹیچر نے خوب شاباش دی۔ ہفتہ بھر بعد جب اسکول انسپکٹر معائنے کے لیے آئے تو ٹیچر نے بچے سے کہا کہ بلی والی بات پھر سے کہیے، بچے نے کہا ہماری بلی نے چار بچے دیے ہیں وہ سب کے سب جمہوریت پسند ہیں۔ ٹیچر نے بوکھلا کر کہا ہفتہ بھر پہلے تو تم نے اس طرح بات نہیں کی تھی، بچہ بولا جی ہاں مگر اب بلی کے بچوں کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔

یہ لوٹے بھی جو پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں سابقہ پارٹی میں اس طرح کیڑے نکالتے ہیں جیسے پارٹی بدلتے ہی ان کی آنکھیں کھلی ہیں۔ اور یہ پارٹیاں بار بار بدلتے ہیں اور بار بار ان کی آنکھیں کھل جاتی ہے۔ نہیں کھلتی تو صرف عوام کی آنکھیں نہیں کھلتی۔ محکمہ زراعت پہلے نمبر پر جبکہ دوسرے نمبر پر فیئر اینڈ لولی کریم کے بعد قوم کو سب سے زیادہ بیوقوف ان لوٹوں نے ہی بنایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).