منفرد شاعر و صحافی، قاضی عبدالحئی قائل کی حیات و خدمات پر لکھی سندھی کتاب


16 دسمبر 2020 ء کا دن، سندھ کے منفرد شاعر، ادیب، صحافی، عظیم مدرس، تعلیم دان و سماجی کارکن، قاضی عبدالحئی ”قائل“ سرشاری کے 103 رے یوم پیدائش کے حیثیت سے ان کی یاد ساتھ لایا، جو ایک سو تین برس قبل، 16 دسمبر 1917 ء کو لاڑکانے ضلع کی زرخیز زمین کے رتو دیرو نامی قصبے سے متعلق، اس دور کے سندھی، عربی اور فارسی کے معروف شاعر، قاضی عبدالحق ”عبد“ کے گھر (والد کی ان دنوں سندھ کے ضلع جیکب آباد کے ”ٹھل“ نامی شہر میں تعیناتی کے باعث) ٹھل میں پیدا ہوئے، اور 23 جولائی 1989 ء کو مکۂ معظمہ میں، حج ادا کرنے کے بعد ، اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور وہیں ”جنت المعلیٰ“ کے شہر خموشاں میں سپرد خاک ہوئے۔

انہوں نے اپنی 72 سالہ زندگی میں بحیثیت سندھ کے روایتی دور کے ممتاز و نمائندہ شاعر، نثر نویس، معلم و تعلیم دان (کیونکہ پیشے کے لحاظ سے وہ مصوری کے استاد تھے ) ، صحافی اور سماجی کارکن، جو نمایاں خدمات انجام دیں، ان کو ویسے تو سندھ کے علمی، ادبی، صحافتی خواہ سماجی حلقے ہمیشہ یاد رکھیں گے، مگر ان کی ان خدمات کو قلمی حوالے سے مستقبل کے محققین و ناقدین کے لئے محفوظ کرنے کا اہم کام، انہی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے، قاضی منظر حیات نے انجام دیا، جو جب جامعہ شاہ عبداللطیف خیرپور سے سال 1989۔

90 ء کے دوران ماسٹرز کر رہے تھے، اور اپنی ڈگری کے سال آخر کے لئے مقالہ لکھنے کے لئے موضوع کی تلاش میں تھے، تو ان کے استاد، ملک ندیم مرحوم (جو بذات خود، سندھی تجریدی نظم کے ایک اہم و نمائندہ شاعر گزرے ہیں۔ ) نے انہیں نہ صرف مشورہ دیا، بلکہ یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے والد قاضی عبدالحئی ”قائل“ سرشاری کی ادبی و علمی خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھیں، کیونکہ (بقول ان کے ) یہ کام ان کے گھر کے کسی فرد سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔

چونکہ ان دنوں حال ہی میں قاضی ”قائل“ نے وفات پائی تھی، اور ان کا بیشتر ادبی کام کسی مجموعے کی صورت میں منظرعام پر نہیں آیا تھا، لہاذا اسی بہانے ملک ندیم یہ چاہتے تھے کہ اپنے طالب العلم سے سندھی ادب کے اس انتہائی اہم شاعر و نثر نویس کے اس کام کی تحقیق و ترتیب کا کام لیں، جن کی نگارشات، دم تحریر سے کم و بیش آدھی صدی پہلے تک کے سندھی اخبارات و جرائد و رسائل میں بکھری پڑی تھیں، جس کی ترتیب، وقت کی اشد ضرورت تھی۔

چونکہ یہ موضوع بننے والی ادبی شخصیت، قاضی منظر حیات کے لئے صرف ایک عام شاعر، ادیب، استاد و صحافی کی حیثیت نہیں رکھتی تھی، بلکہ ان کے اپنے والد اور ادبی رہنما کی تھی، اس لئے یہ تحقیقی مقالہ لکھنے میں انہوں نے اپنے ذاتی عشق اور لگن کو شامل کر کے، جس عرق ریزی سے یہ منفرد کار ہائے تحقیق و ترتیب انجام دیا، اس نے اس ادبی کام کو چار چاند لگا دیے۔ انہوں نے ”ہک شخصیت، ہک ادارو۔ قاضی عبدالحئی“ قائل ”سرشاری“ ( ”ایک شخصیت، ایک ادارہ۔ قاضی عبدالحئی“ قائل ”سرشاری“ ) کے عنوان کے تحت اپنا یہ مقالہ (ریسرچ تھیسز) 1989 ء میں جامعہ شاہ عبداللطیف خیرپور کے شعبہ سندھی میں جمع کرایا، جس پر بالخصوص اور ان کے مجموعی پرچوں کے معیار کے تحت بالعموم، انہوں نے فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ سندھی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

چند برس بعد ، رتودیرو کے اشاعتی ادارے ”سندھڑی کتابی سلسلو“ نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے، کہ سندھ کے اس اہم شاعر و نثر نگار و صحافی کی نہ صرف اس نوشت، بلکہ اس مقالے میں شامل ان کے قلمی کارناموں کی کچھ مثالوں اور ان کی قلمی خدمات کے حوالے سے ان کے معاصرین کی رائے جیسے قیمتی قلمی خزانے پر مشتمل اس تحقیقی کام کو شایع کروا کر، عام قاری تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے، لہاذا آج سے 28 برس قبل، 1992 ء میں قاضی منظر حیات کے اس تحقیقی مقالے ”ہک شخصیت، ہک ادارو۔ قاضی عبدالحئی“ قائل ”سرشاری“ کو ”ہکڑو پیارو مانہڑو“ (ترجمہ: ایک پیارا انسان) کے نام سے کراچی سے چھپوا کر رتودیرو سے شایع کیا گیا۔ کتاب کا عنوان، سندھی کے معروف شاعر استاد بخاری کے اس شعر کے ردیف سے لیا گیا:

پیارو پیارو سور ڈئی ویو، ہکڑو پیارو مانہڑو
سینے میں تصویر رکھی ویو، ہکڑو پیارو مانہڑو

(ترجمہ: ایک پیارا انسان داغ مفارقت دے کر، درد بھی اپنے جیسا پیارا ہی دے گیا ہے۔ اور میرے سینے میں اپنا نقش اور اپنی تصویر چھوڑ گیا ہے۔ )

اس کتاب کا خوبصورت سرورق، ملک کے نامور مصور، فتاح ہالیپوٹو (شرجیل) نے ڈیزائن کیا ہے۔ جبکہ کتاب میں اندر شامل مختلف شخصیات کے اسکیچز (بشمول قاضی عبدالحئی ”قائل“ کے متعدد اسکیچز کے ) ، قاضی اختر حیات نے تخلیق کیے تھے، جن کی تعداد کم و بیش 30 ہوگی۔ جو اس کتاب کی تزئین میں نمایاں طور پر کارفرما ہیں۔ آج سے کم و بیش تین عشرے قبل کے سکہ رائج الوقت کے مطابق، اس کتاب کی قیمت 50 روپے رکھی گئی تھی۔

اس کتاب کا انتساب، کسی فرد کے نام کرنے کے بجائے، اس تعلیمی ادارے کے نام گیا، جہاں قاضی عبدالحئی ”قائل“ نے مسلسل تین دہائیاں، علم کی شمعیں روشن کر کے نسلوں کو، علم کی لو سے روشن کیا اور روشناس کرایا۔ جو ادارہ ہے ”گورنمنٹ ہائی اسکول رتودیرو، ضلع لاڑکانو“ ۔

ناشر کی حیثیت سے اس کتاب کا پبلشر نوٹ ”پہنجے پاراں“ (منجانب خود) کے عنوان سے سندھڑی کتابی سلسلو رتودیرو کے اس وقت کے روح رواں، اور سندھ کے معروف شاعر، مقصود گل نے تحریر کیا، جبکہ پیش لفظ ”منڑیادار مانہڑوں“ (خوبیوں کا خزانہ انسان) کے عنوان کے تحت حال ہی میں ہم سے بچھڑ جانے والے سندھی کے معروف افسانہ نویس، حمید سندھی نے تحریر کیے، جن کی ایک نسبت تو قاضی عبدالحئی ”قائل“ کے ہمعصر قلمکار کی تھی، جبکہ دوسری حیثیت اور حوالہ یہ بھی تھا، کہ وہ اس وقت شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے وائس چانسلر تھے، جب اس مقالے پر قاضی منظر حیات نے ڈگری حاصل کی اور جب مذکورہ کتاب شائع ہوئی۔ جس کے بعد کے 4 صفحات پر، محقق و مصنف نے ”اندر۔ اور“ (دل کی بات) کے عنوان کے تحت اس تحقیق کے تصور سے لے کر اسے عملی جامعہ پہنانے تک کے تمام مراحل کا مختصراً ذکر کیا ہے۔

اس کتاب میں قاضی عبدالحئی ”قائل“ کی شخصیت و ادبی خدمات کا احوال 19 ابواب کے ذریعے کیا گیا ہے، جن میں ( 1 ) آبائی احوال ( 2 ) پیدائش، تعلیم، پرورش ( 3 ) روزی اور روزگار ( 4 ) ”اخلاق اجار عظیم استاد“ [اعلیٰ اخلاقی اوصاف پیدا کرنے والے عظیم اساتذہ] ( 5 ) ”مکھ مشغولیوں“ [اہم مشاغل] ( 6 ) شاعری ( 7 ) منتخب شاعری ( 8 ) ”سنگیت“ [موسیقی کے ساتھ ان کا شغف] ( 9 ) نثر نویسی ( 10 ) منتخب نثر ( 11 ) صحافت ( 12 ) ”ساہتی سونہاں“ [ادب کے میدان میں اساتذہ] ( 13 ) ”نقش، عکس، اولڑا“ [اولاد اور اولاد اولاد۔

مختصر تعارف] ( 14 ) ”سکائتا ساہتی ساتھی“ [ادبی رفقاء] ( 15 ) ”کجھ پریم بھریا پتر“ [قاضی ”قائل“ کو اہم شخصیات کے تحریر کردہ منتخب خطوط (بشمول خطوط قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو) ] ( 16 ) ”موٹی ماگ نہ آئیا“ [سفر آخرت] ( 17 ) ”جھورانڑاں ائیں جھیر“ [بعد از وفات، ان کی فرقت پر لکھے گئے منتخب تعزیتی خطوط و تاثرات و منظوم خراج عقیدت] ( 18 ) ”یاد جھروکا“ (ان کی منتخب تصاویر کا البم) اور ( 19 ) ”گلڑا گلڑا گلدستو“ (ببلیوگرافی) کے چیپٹرز شامل ہیں۔

اب، جبکہ سندھ کے اس اہم شاعر، ادیب، صحافی، عظیم مدرس، تعلیم دان و سماجی کارکن، قاضی عبدالحئی ”قائل“ سرشاری کی مفارقت کو 31 برس بیت چکے ہیں، اور ان کے حوالے سے اس اہم کتاب کی اشاعت کو بھی کم و بیش 28 برس کا عرصہ گزر چکا ہے، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم ادبی و صحافتی شخصیت کی حیات و خدمات کے حوالے سے اس دوران جوان ہونے والی نسلوں کو آگاہ کرنے کے لئے اس کتاب کی دوبارہ اشاعت ہو، تاکہ ادارہ نما اور ادارہ ساز اس شخصیت کی خدمات کی ضو، مزید آنے والے برسوں کو آگہی سے روشن کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).