کاروبار کرنا چاہیے یا نوکری؟


خاندانی کاروباری افراد کہتے ہیں کہ نوکری میں کچھ نہیں رکھا کاروبار کرو۔ اپنے بچوں کو میٹرک ایف اے تک پڑھاؤ اور اپنی چوکی پر بٹھا دو۔ پھر اپنا تعلیم کا شوق پورا کر لو اور جتنا جی چاہے اتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو اپنا ملازم رکھ لو۔ دوسری طرف خاندانی ملازم لوگ کہتے ہیں کہ کاروبار نرا گھاٹے کا سودا ہے، کوئی پتہ نہیں کب آسمان پر جگمگانے والا تارا ایک سودے میں ہی سڑک پر آ جائے۔ کاروباری افراد ہر روز نیا کنواں کھودتے ہیں تاکہ اس دن کے پانی کا بندوبست ہو جبکہ نوکری کرو تو نری بے فکری ہے، پکی ماہانہ آمدنی لگ جاتی ہے۔

دونوں اقسام کے خاندانی مشورے اپنی اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں لیکن ہماری رائے میں افراط و تفریط سے گریز کرنا چاہیے۔ کسی ایک انتہا کا اسیر ہونا بری بات ہوتی ہے۔ اس لیے دونوں کام ساتھ ساتھ کیے جائیں تو مفید ہوتا ہے۔ یعنی بندہ نوکری بھی کر لے اور کاروبار بھی۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جوں جوں نوکری میں بندے کا عہدہ بڑھتا ہے توں توں کاروبار میں ترقی ہوتی جاتی ہے۔

ہاں اگر سرکار نے بلاوجہ کا کوئی پاکھنڈ ڈالا ہو کہ سرکاری ملازم کوئی کام دھندا نہیں کر سکتا تو اس صورت میں اپنے کسی عزیز یا عزیزہ کے نام سے کاروبار کر لینا چاہیے۔ بقول پطرس ”یوں بھی مفید ہوتا ہے“ ۔ اہلیہ، ہمشیرہ، بال بچے، بھائی، سسرالی ہر کوئی یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوتا ہے کہ ایسا کاروبار اس کے نام پر کر لیا جائے جس میں چھوٹا سا یونٹ بھی کروڑوں اربوں روپے کا منافع دے دے۔

لیکن خیال رہے کہ منتخب بندہ یا بندی اعتباری ہو اور معمولی سا دباؤ پڑنے یا خبر لیک ہونے پر بدحواس ہو کر کوئی الٹا سیدھا بیان نہ دے دے۔ بھرپور اعتماد سے یہ حقیقت بیان کر سکتا ہو کہ نیت نیک ہو تو چورن بیچنے سے شروع کیا جانے والا معمولی کاروبار ایک بڑی فارما سوٹیکل کمپنی میں تبدیل ہو سکتا ہے، سلائی کڑھائی کا چند سو روپوں سے شروع کیا جانے والا کام پانچ دس برس میں بڑے بڑے برانڈز کی آمدنی کو پچھاڑ سکتا ہے، سڑکوں پر مٹی کی بھرائی کا ٹھیکہ کھرب پتی بنانے پر قادر ہے وغیرہ وغیرہ۔ نیز کوئی افسر یا صحافی تنگ کرے تو انگلیاں حسب ضرورت ٹیڑھی بھی ہو جاتی ہیں۔

نیز یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کاروبار اسی شعبے سے متعلقہ ہونا چاہیے جس میں آپ کا تجربہ ہے۔ ورنہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ بندہ کسی سے شراکت میں سرمایہ کاری کرے تو جس شریک کے پاس تجربہ ہوتا ہے، پیسہ اس کے پاس چلا جاتا ہے اور جس نے سرمایہ لگایا ہو، تجربہ اس کے حصے میں آتا ہے۔ تجربہ ہمیشہ دوسرے کے خرچے پر حاصل کرنا چاہیے۔ اس لیے عزیزوں کے نام پر شروع کیا جانے والا کاروبار اسی محکمے سے تعلق رکھے جس میں بندہ ملازم ہے تو پھر ہی برکت پڑتی ہے اور نوکری بھِی کاروبار بن جاتی ہے ورنہ بندہ لٹ پٹ جاتا ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ بعض محکموں کے افسران کو تعلیم سے لے کر نظم و نسق تک آسمان تلے پائے جانے والے ہر شعبے کی مہارت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر قسم کا کاروبار کامیابی سے کر لیتے ہیں جبکہ بعض صرف ایک شعبے میں ہی مہارت حاصل کر پاتے ہیں۔ بندہ کانفلیکٹ آف انٹریسٹ یا اس طرح کے گھسے پٹے سالخوردہ نظریات کے چکر میں پڑ جائے تو کہیں کا نہیں رہتا، سب کچھ گنوا بیٹھتا ہے۔ زمانہ شاہد ہے کہ جن افراد نے فلسفے کی بجائے عملیات کی راہ اختیار کی، وہی کامیاب رہے۔

ایسے کاروبار میں بس نیت نیک ہو، محنت پوری ہو تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ پاؤلو کوئلو نے یہ کائناتی فلسفہ بیان کیا ہے کہ ”جب آپ کسی چیز کے خواہش مند ہوں تو تمام کائنات اس شے کے حصول کی خاطر آپ کی مدد کے لیے سازشیں کرنے پر اتر آتی ہے“ ۔ غالباً پاؤلو کوئلو کے زمانے میں تفتیشی صحافی نہیں ہوتے تھے جو ان افلاکی رازوں کو عام کرنے پر اتر آتے ہیں اور افسر بس حیران ہوا پھرتا ہے کہ

تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں!

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar