لٹل ماسٹر حنیف محمد اور ان کے بھائی جنھوں نے پاکستانی کرکٹ پر راج کیا


یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ جونا گڑھ ریاست کے لیڈیز کلب کی ایک خاتون ممبر ایک دن گھر میں داخل ہوئیں تو ان کے ہاتھوں میں دو چمکتی ٹرافیاں تھیں جو انھوں نے کیرم بورڈ اور بیڈمنٹن کے مقابلوں میں جیت کر حاصل کی تھیں۔

یہ خاتون دونوں ٹرافیاں اپنے بیٹوں کو دکھاتے ہوئے بڑے فخر سے بولیں ʹایک عورت ہوتے ہوئے میں نے یہ ٹرافیاں جیتی ہیں، اب آپ لوگوں کی باری ہے۔‘

اپنے بیٹوں کی ہمت بڑھانے کا اس سے زیادہ مناسب انداز کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ خاتون امیر بی تھیں اور ان کی بات توجہ سے سننے والے بیٹے آنے والے برسوں میں کرکٹ کی دنیا کے مشہور محمد برادران کے طور پر پہچانے گئے۔

دراصل محمد برادران کو کھیلوں سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ والدہ امیر بی خود دو کھیلوں کی چیمپئین تھیں جبکہ والد شیخ اسماعیل بھی بہت اچھے کلب کرکٹر تھے۔

محمد برادران کی زندگی میں ان کی والدہ کی تربیت کا گہرا اثر رہا جنھوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

پاکستان بننے کے بعد جب یہ خاندان جونا گڑھ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر کراچی پہنچا تو اسے ابتدائی چند برسوں تک ایک مندر کے ہال میں قیام کرنا پڑا تھا۔

یہ اس خاندان کے لیے بڑے کٹھن دن تھے۔ خاندان کی مالی حالت اُس وقت بہتر ہونا شروع ہوئی جب وزیر محمد اور رئیس محمد کو بینک میں ملازمت مل گئی۔

یہ بھی پڑھیے

’والدہ سٹیڈیم آئیں لیکن تینوں بھائی صفر پر آؤٹ‘

وہ بلے باز جنھیں چھکا مارنا کبھی پسند نہ تھا

‘پاکستان میں کرکٹ حنیف محمد کے دم سے ہے’

کرکٹ پر راج کرنے والا خاندان

21 دسمبر 1934 کو جونا گڑھ میں پیدا ہونے والے حنیف محمد پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے لیکن ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے معاملے میں وہ اپنے بھائیوں پر بازی لے گئے۔

سب سے بڑے بھائی وزیر محمد بھی ان کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں آئے۔ دو چھوٹے بھائیوں، مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی البتہ دوسرے نمبر کے بھائی رئیس محمد ٹیسٹ نہ کھیل سکے۔

اس خاندان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی دوسری اور تیسری نسل بھی کرکٹ کے میدانوں میں نظر آئی۔

حنیف محمد کے بیٹے شعیب محمد نے انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 45 ٹیسٹ اور 63 ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلے ہیں۔ شعیب محمد کے بیٹے یعنی حنیف محمد کے پوتے شہزر محمد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں۔

رئیس محمد کے تین بیٹے شاہد محمد، آصف محمد اور طارق محمد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے جبکہ صادق محمد کے بیٹے عمران محمد نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی ہے۔

اس خاندان کے گیارہ کرکٹرز میں سے دس کرکٹرز نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں سنچریاں سکور کر رکھی ہیں۔ صرف شاہد محمد وہ واحد کرکٹر ہیں جو سنچری نہیں بنا سکے۔

لٹل ماسٹر کا خطاب

پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ رکنیت ملنے کے بعد انڈیا کے خلاف فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں اپنی تاریخ کے اولین ٹیسٹ میچ میں مد مقابل تھی۔

پہلی اننگز میں سترہ سالہ حنیف محمد نے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی نصف سنچری سکور کی۔ یہ منظر دیکھنے والوں میں انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی موجود تھے۔

کمنٹری باکس میں اس میچ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والے طالیار خان اور مہاراج کمار آف وزیانگرم نوجوان حنیف محمد کے پر اعتماد کھیل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کی زبان سے بے ساختہ نکلا لٹل ماسٹر۔

یہ بین الاقوامی کرکٹ میں حنیف محمد کو ملنے والا پہلا خراج تحسین تھا اور پھر اگلے سترہ برسوں تک دنیا انھیں اپنے دور کے سب سے نڈر اور ذہین بلے باز کے طور پر دیکھتی رہی جو ہر مشکل گھڑی میں پاکستانی بیٹنگ کو سنبھالا دیتے رہے۔

ڈینس کامپٹن کے جہاز کی ہنگامی لینڈنگ

یہ 1951 کی بات ہے جب پی ڈبلیو ڈی کے چیف انجنیئر کفیل الدین نے حنیف محمد کو اپنے ادارے میں ملازمت کی پیشکش کی جس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ یکسوئی کے ساتھ کرکٹ کھیل سکیں۔ حنیف محمد کی پہلی تقرری روڈ انسپکٹر کے طور پر ہوئی۔

اس دوران کفیل الدین نے حنیف محمد کو بتایا کہ انگلینڈ کے مشہور بیٹسمین ڈینس کامپٹن آسٹریلیا جاتے ہوئے کچھ دیر کراچی میں رکیں گے۔ حنیف محمد اور ان کے بھائیوں کا ان سے ملنے کا اشتیاق بڑھ گیا اور وہ سب ان سے ملنے کے لیے ایئرپورٹ پہنچ گئے۔

ڈینس کامپٹن کے جہاز کو فنی خرابی کی وجہ سے ہنگامی لینڈنگ کرنی پڑی تھی۔ پتہ چلا کہ پرزے آنے تک یہ جہاز آسٹریلیا روانہ نہیں ہو سکے گا اس طرح کامپٹن کو چند روز کراچی میں قیام کا موقع مل گیا۔

کفیل الدین نے ڈینس کامپٹن کو ایک ہوٹل میں ٹھہرایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے نیٹ پر آئیں تاکہ مقامی نوجوان کرکٹرز کو ان سے کچھ سیکھنے کا موقع مل سکے۔ کامپٹن نے یہ درخواست قبول کر لی۔

حنیف محمد بتاتے تھے کہ ʹہمیں ڈینس کامپٹن کے کراچی میں ہونے کا بہت فائدہ ہوا کیونکہ انھوں نے نیٹ میں بیٹنگ کر کے ہمیں کئی باتیں سمجھائیں۔‘

رنز کرو تو کبھی گھمنڈ نہ کرنا

کلب اور سکول کرکٹ میں حنیف محمد کی غیر معمولی کارکردگی کے چرچے غیر سرکاری ٹیسٹ میچز کھیلنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان میاں محمد سعید تک پہنچ گئے جنھوں نے حنیف محمد سے ملنے کی خواہش ظاہر کر دی۔

اس ملاقات کے بارے میں حنیف محمد نے اپنی کتاب پلیئنگ فار پاکستان میں لکھا ہے ʹفاسٹ بولر یاور سعید میری بیٹنگ سے اتنے متاثر ہوئے کہ گھر جا کر اپنے والد میاں محمد سعید کو میرے متعلق بتایا۔ میاں محمد سعید سے ملتے وقت میں بہت گھبرایا ہوا تھا اور حیران بھی تھا کہ وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے میری بیٹنگ کے بارے میں کافی باتیں کیں لیکن ان کی ایک نصیحت میں کبھی نہیں بھول سکتا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میاں محمد سعید نے کہا جب تم رنز کر رہے ہو تو کبھی گھمنڈ نہیں کرنا۔ کبھی اپنے کالر اوپر مت کرنا۔ لوگوں کی عزت کرنا۔ انکساری دکھانا اور اس طرح رہو کہ جیسے یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ میں جب بھی بیٹنگ کے لیے جاتا ان کے یہ الفاظ میرے کانوں میں ہمیشہ گونجتے رہتے تھے۔‘

مزید پڑھیے

لٹل ماسٹر، کرکٹ کے مہمان

حنیف محمد کی خواہش

بلے بازوں کو آپریشن تھیٹر پہنچا دینے والے بے رحم ویسٹ انڈین فاسٹ بولرز

ساتھی کھلاڑیوں کا میری تصویریں پھاڑنا

سنہ 1952 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے دورہ انڈیا کے دوران جہاں ایک جانب انڈین کھلاڑی اور اخبارات حنیف محمد کی صلاحیتوں کی تعریف میں مصروف تھے وہی پاکستانی ٹیم کے کچھ کھلاڑیوں کی جانب سے ان کے لیے حسد کے جذبات سامنے آئے۔

حنیف محمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ʹبمبئی ٹیسٹ کے بعد میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرے اپنے کچھ ساتھی کھلاڑیوں نے اخبارات میں شائع ہونے والی میری تصویریں پھاڑ کر کچرے کی ٹوکری میں پھینک دی تھیں۔ میں چونکہ ایک نوجوان کھلاڑی کے طور پر ٹیم میں بالکل نیا تھا لہذا سمجھ نہیں پایا کہ ایسا کیوں کیا ہے؟ میرے بڑے بھائی وزیر محمد نے میری پریشانی دیکھ کر کہا کہ تم ان باتوں پر دھیان مت دو صرف اپنے کھیل پر توجہ دو، بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ کھلاڑی میری کامیابی پر حسد کر رہے تھے۔‘

چاروں بھائیوں کا ایک ساتھ کھیلنا

حنیف محمد

پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں محمد فیملی کے تین بھائیوں کا ایک ساتھ کھیلنا معمول کی بات تھی البتہ چار فرسٹ کلاس میچز ایسے ہیں جن میں چاروں بھائی ایک ساتھ کھیلے۔

1960 میں حیدرآباد چیف کمشنر الیون اور فضل محمود الیون کے درمیان حیدرآباد میں کھیلے گئے میچ میں صادق محمد نے اپنے فرسٹ کلاس کریئر کا آغاز کیا تھا۔

وہ رئیس محمد اور مشتاق محمد کے ساتھ فضل محمود الیون میں شامل تھے جبکہ حنیف محمد کمشنر الیون کے کپتان تھے۔

1961 میں وزیر محمد کراچی بلیوز میں تھے جبکہ حنیف محمد، رئیس محمد اور مشتاق محمد کراچی وائٹس کی ٹیم میں شامل تھے۔

1962 میں وزیر محمد مشرقی پاکستان کی ٹیم کے کپتان تھے جبکہ حنیف محمد، مشتاق محمد اور رئیس محمد پی آئی اے کی ٹیم میں تھے۔

1963 میں قائداعظم ٹرافی کے فائنل میں وزیر محمد نے کراچی کی قیادت کی جبکہ پی ائی اے کی ٹیم میں حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد شامل تھے۔

1954 میں وزیر محمد، رئیس محمد اور حنیف محمد نے کراچی کی طرف سے کمبائنڈ سروسز کے خلاف قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میں سنچریاں بنائی تھیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ تین بھائیوں نے ایک ہی اننگز میں سنچریاں سکور کیں۔

1969 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں تین بھائی حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد ایک ساتھ کھیلے تھے۔ یہ صادق محمد کا اولین لیکن حنیف محمد کا آخری ٹیسٹ تھا۔

تمام بھائی موسیقی کے دلدادہ

حنیف محمد

حنیف محمد اور ان کے تمام بھائیوں کی فنون لطیفہ خاص طور پر موسیقی سے دلچسپی رہی ہے۔ مشتاق محمد نے اپنی کتاب انسائیڈ آؤٹ میں حنیف محمد اور ان سے لتا منگیشکر کی ملاقات کا تفصیل کا ذکر کیا ہے۔

مشتاق محمد لکھتے ہیں کہ ʹپاکستانی ٹیم کے دورہ انڈیا کے دوران لتا منگیشکر خاص طور پر حنیف محمد سے ملنے آئی تھیں جس کے بعد انھوں نے ہماری والدہ اور ماموں کو جو انڈیا کے دورے میں ہمارے ساتھ تھے فلم سٹوڈیو آنے کی دعوت دی تھی۔‘

مشتاق محمد لکھتے ہیں کہ ʹجب ٹیم کے کچھ کھلاڑی اور میری والدہ سٹوڈیو پہنچے تو لتا جی خود مرکزی دروازے پر آئیں اور والدہ کو ہار پہنایا اوراپنی رسم کے مطابق والدہ کے قدموں میں ناریل توڑا اور ہمیں سٹوڈیو کے اندر لے گئیں جہاں ان کی محمد رفیع کے ساتھ ایک گانے کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔‘

مشتاق محمد نے اپنی کتاب میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور مہدی حسن سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے تاہم سب سے دلچسپ واقعہ استاد نزاکت علی خان اور استاد سلامت علی خان سے متعلق ہے۔

مشتاق محمد کہتے ہیں کہ ʹجب بھی لاہور میں ٹیسٹ میچ ہو رہا ہوتا یہ دونوں بھائی موسیقی کے ساز لے کر ہوٹل آ جاتے اور ہم ان کی گائیکی سے لطف اندوز ہوتے۔ جب میں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 124 رنز کی اننگز کھیلی تو نزاکت علی خان اور سلامت علی خان سٹیڈیم میں موجود تھے اور جیسے ہی میچ ختم ہوا یہ دونوں مجھے مبارک باد دینے ہوٹل آ گئے اور پھر اپنی گائیکی سے پورے دن کی تھکن دور کر دی۔‘

رئیس محمد جو بدقسمتی سے ٹیسٹ نہ کھیل سکے غزلیں سننے کے شوقین ہیں اور مصوری بھی کرتے رہے ہیں۔

رئیس محمد کا پسندیدہ مشغلہ حنیف محمد کے ساتھ کیرم کھیلنا تھا۔ حنیف محمد کے گھر پر دونوں کے درمیان ہر ہفتے کیرم کے مقابلے باقاعدگی سے ہوا کرتے تھے۔

تمام بھائیوں کو اس بات کا ہمیشہ دکھ رہا کہ رئیس محمد سٹائلش بیٹسمین اور لیگ بریک گگلی بولر ہونے کے باوجود ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp