قوت و رہنمائی کا سر چشمہ!


سیاسی عدم استحکام، آئین سے انحراف معاشی انحطاط کے تشویش انگیز عہد میں جبکہ سماجی خلفشار اتھل، پتھل اور تما معاشرتی اقدار زوال پذیر ہیں۔ تو پاکستان کے سیاسی پسی منظر پر غور کرتے ہوئے معروف دانشور رولومے کے الفاظ میں سوال اٹھایا جاسکتا ہے۔

”آیا قوت اور رہنمائی کا کوئی ایسا سرچشمہ یا وسیلہ ہو سکتا ہے جسے ہم نظر اندا ز کرتے رہے ہیں“

سوال کے ابتدائیہ میں جن دو نکات کی نشاندہی کی گئی, خوش قسمتی سے پاکستان میں اسی بارے ابہام کا امکان نہیں۔ فوری اور معقول جواب سادہ الفاظ میں یوں دیا جاسکتا ہے کہ نظر انداز کیے گے سرچشمے یا وسائل میں عوامی طاقت اور آئین پاکستان، ملکی رہنمائی کا غیر مبہم ذریعہ ہیں اور درپیش بحرانی کیفیت جو تشویش کے نازک مراحل میں آگے کی سمت بڑھ رہی ہے کا اصل سبب قوت ورہنمائی کے انہی سر چشموں کو مسلسل نظر انداز کرنے میں پوشیدہ ہے تشویش جو خوف سے ماورا ہو کر معاملات اور خامیوں کے اسباب کا جائزہ لینے پر آمادہ کرنے والا وقت کا مختصر دورانیہ ہوتا ہے۔ جس دوران اگر بروقت درست فیصلے نہ ہوپائیں تو قوتوں کو صدیوں کے پچھتاوے اور خمیازے کی صورت اس کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کیا ہم تشویش کی موجود لہر کی موجودگی میں بھی بروقت اور درست فیصلے کرنے کی اہلیت کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ و تیار ہیں؟ سردست اس سوال کے مثبت جواب کا امکان تو نہیں پھر چند امور کی جانب توجہ دلانے میں کیا حرج ہے

جنوب ایشیائی منطقے اور وسط ایشیائی سنگم پر واقع گوادر کی گہرے پانی کی قدرتی بندرگاہ کو جو اب سی پیک جسے عظیم منصوبے کے تحت خطے کی جیوپولیٹکل واقتصادی صورتحال میں گیم چینجر بننے جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ اور شہر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۔ ماضی میں بالخصوص زار شاہی روسی توسیع پسندی کے مقابل برطانوی استعمار کے معروف ڈاکٹرائن میں روس کو گرم سمندر تک رسائی سے روکنا اہم عسکری حکمت عملی کا حصہ تھا برطانوی ہند میں اس پالیسی پر بھر پور عمل ہوا روس کو دریائے آمو کے اس پار روکنے کے لئے بلوچستان کے وسیع رقبے کو جہاں انسانی آبادی کم تھی۔ اقتصادی ترقی کے بنیادی ڈھانچے سے محروم رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ فرسودہ قبائلی نیم قبائلی سماجی تنظم برقرار رکھنے اور خطے میں آمدورفت مواصلاتی روابط کے لیے شاہرات و تجارتی واقتصادی انفراسٹریکچر کی تعمیر سے شعوری پالیسی کے مطابق گریز کیا گیا تھا۔ البتہ دفاعی نقطہ نظر کے تحت ریل اور مخصوص سڑکیں بنائی گئی تھیں خطے کو پسماندہ رکھنے کا بنیادی مقصد روسی کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنا تھا اور ذرائع مواصلات کی عدم موجود برطانوی استمار کی دفاعی حکمت کا ایک اہم ستون ٹھہری تھی۔

اب جب کہ سی پیک کا بنیادی منبع یعنی گوادر بندرگاہ فعالیت کی جانب بڑھ رہی ہے تو گوادر شہر اور اس کے باسیوں کے لئے اپنے ہی آبائی شہر وع لاقے میں رہائش آمدورفت ورسائی ناممکن بنانے کا آغاز ہو گیا ہے۔ سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کی تکمیل سے قبل جس نوعیت کے علاقائی عالمی سطح کی مشاورت و تعاون نما اتفاق رائے کی ضرورت تھی اس سے کئی گناہ زیادہ مقامی آبادی اور وفاقی سیاسی اکائی کو اعتماد میں لینا اشد ضروری تھا ایسا کر کے منصوبے پر محفوظ وپرامن انداز میں عملی پیشرفت ممکن بنائی جا سکتی تھی مگر عوامی قوت کے اس سر چشمے سے استعفادے اور رہنمائی سے گریز کیا گیا تو نتیجہ اس توانائی سے محرومی کی صورت برآمد ہوا جس نے برگشتہ احساسات و عوامی تحفظات کو بدامنی جنم دینے والے احتجاج اور سیکورٹی مسائل کی صورت دے دی۔ کوئی شبہ نہیں کہ داخلی سطح پر پیدا ہوئے احساس بیگانگی کے متذکرہ غیر اطمینان بخش اظہار جسے ناراضی سے موسوم کیا گیا۔ کو بڑھاوا دینے کے لئے علاقائی اور عالی مخالفین نے ایندھن مہیا کیا ہوگا، تو حکومت کے بے چینی اضطراب خوف اور تشویش کے بڑتے سایوں کو ختم کر نے میں مفاہمانہ جمہوری و سیاسی (آئینی) کوششوں سے انحراف نے مملکت کو اس رہنمائی سے محروم رکھا ہے جو آئین پاکستان مہیا کر سکتا ہے

بدامنی پر قابو پانے کے لئے اب تک جو کچھ ہوا اس پر رائے دینے کا یہ موقع ہے نا محل۔ البتہ گوادر شہر کے داخلی وخارجی راستوں کو محدود کرنے۔ شہر کے ارد گرد آہنی باڑ لگانے سے یہ ثابت ہوتا کہ بدامنی کے خاتمے کے لئے جو قیمت ادا کی گئی وہ مکمل طور پر فوائد مہیا نہیں کرپائی اسی لیے اب سی پیک کے اس مرکزی مقام کو آہنی باڑ نما دیوار کے پیچھے دھکیلنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ کیا مذکورہ اقدام گوادر، اس کے شہریوں اور خود سی پی کو عدم تحفظ کی اس تشویش سے رہائی دلاسکے گا جو ایک ہموار متواتر محفوظ اور پائیدار اقتصادی ترقی کے لئے در کارہوتی ہے؟ ایک قلعہ بند شہر میں جہاں صدیوں سے آباد اس کے اصلی مالک /باشندے اجنبی ٹھہرائے جائیں گے۔ کیا وہاں باہر سے آنے والے سرمایہ کار دلکشی دلچسپی یا اطمینان قلبی کے ساتھ کام کر سکیں گے؟ جب مکران کے شہریوں کو گوادر میں داخل ہوتے وقت شہر میں جانے کے مقاصد سے متعلق حکام کو مطمئن کرنا پڑے گا تو ایسے شہر میں آنے والے اجنبی کیونکر خود کو یہاں محفوظ سمجھتے ہوئے مقامی آبادی کے ساتھ دوستانہ راہ ورسم اور معاشی سماجی روابط قائم کرنا پسند کریں گے؟

نیز اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جانے والے۔ باہر سے آنے والوں کے ساتھ کیونکر خوش دلانہ معاونت اور اپنائیت کا مظاہرہ کریں گے؟ گوادر کے ارد گرد باڑ لگانے سے شاید چین اور اس کے اتحادیوں کے مقاصد اور سرمایہ محفوظ ہو جائے لیکن گوادر ایک قلعہ بند جزیرہ بن کر کبھی بھی آسودہ حالی کے عہد میں داخل نہیں ہو پائے گا محض ایک راہداری نہ گیم چینجر ثابت ہوگی نہ پائیدار استحکام وترقی کا زینہ اور نہ امن و سلامتی کا گہوارہ۔

اور یہ ظلم ہی نہیں، تاریخ کا وہ جبر بھی ہوگا جو نوآبادیاتی دور میں افریقہ وایشیائی خطوں میں قائم ہوا تو اس کے خلاف مقامی مزاحمتوں نے قوم پرستی کی مضبوط مزاحمتی لہر کو وہ قوت بخشی تھی جو بالآخر نو آبادیات کے بت کو پاش پاش کر گئی۔ مجھے تشویش ہے کہ اگر ہم نے عوام، جمہور اور آئین سے قوت و رہنمائی پانے سے گریز مسلسل کی ناقص پالیسی جاری رکھی تو آنے والے دنوں میں ہمارے حالات سنگین تر ہوسکتے ہیں۔ سوچئے کیا ہم سنگین کے ساتھ سنگینی کے آرزو مند ہیں یا مکالمے کے ذریعے باہمی اعتماد ہم آہنگ کرنے والی سنگت کے ساتھ درپش خطرات سے محفوظ رہ کے ترقی وخوشحالی کی امیدوں کے ساتھ سی پیک کو فی الواقع خطے میں مثبت گیم چینجر بنانے پر یقین رکھتے ہیں؟ سوچئے۔

سی پیک کے تحفظ کے نام پر گوادر کو جس طرح آہنی بارڈر میں محبوس کیا جا رہا ہے۔ لازم ہے کہ اس پس منظر میں خنجراب تک جانے والی سی پیک کو مکمل طور پر ہر طرف سے آہنی بارڈر لگا کر مفوظ بنایا جائے۔ بصورت دیگر گوادر میں مذکورہ اقدام سے منفی رویوں ناروا اور امتیازی سلوک کی بدترین مثال قائم ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).