بانو قدسیہ کے ناول راجہ گدھ کا جائزہ


یوں تو بے شمار قلم کاروں نے اس کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہو گا جن کا اردو ادب میں ایک بلند مقام ہے۔ میں تو اس میدان میں نو آموز ہوں۔ میرا ان سے ہر گز کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں نے تو اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جو محسوس کیا اور جو سمجھا ان خیالات کو اپنے سادہ سے الفاظ میں آپ تک پہنچا نے کی ادنٰی سی کوشش کی ہے۔ پڑھ کر آپ بتائیے گا کہ میں اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہوں۔ شکریہ۔

بانو قدسیہ اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔ وہ 28 نومبر، 1928 میں فیروز پور (ہندوستان) میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور منتقل ہو گئیں۔ کنیئرڈ کالج سے بی۔ اے کیا اور جی۔ سی یونیورسٹی سے اردو لٹریچر میں ایم۔ اے کیا۔ انہوں نے پانچویں جماعت سے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں۔ مگر وہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے ادب لکھنا اشفاق احمد صاحب سے سیکھا۔ اشفاق احمد کی زوجہ ہونے اور ان کی سنگت میں رہنے کی وجہ سے ان کے صوفیانہ مزاج کا اثر بانو قدسیہ پر بھی ہوا۔ وہ 4 فروری 2017 کو لاہور میں فوت ہوئیں۔

ان کے چند مشہور ناول، راجہ گدھ، ایک دن، حاصل گھاٹ، شہر لازوال اور آباد ویرانے ہیں۔ انہوں نے بے شمار مختصر کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ ً راہ رواں ً اور ًمرد ابریشم ً ان کی تحریر کردہ سوانح ہیں۔ انہوں نے ستارۂ امتیاز، ہلال امتیاز، کمال فن ایوارڈ اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کیے ۔ ڈاکٹر اجمل، نفسیات دان اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل نے یہ ناول (راجہ گدھ) سی۔ ایس۔ ایس کے امتحان میں بطور نصاب لگوایا۔

سیمی شاہ، قیوم، آفتاب اور پروفیسر سہیل اس ناول کے اہم کردار ہیں۔ پروفیسر سہیل، سوشیالوجی کی کلاس کو پڑھاتا ہے۔ سیمی، قیوم اور آفتاب کلاس فیلوز ہیں۔ سیمی شاہ ایک ماڈرن لڑکی ہے۔ قیوم سیمی سے عشق کرتا ہے مگر سیمی آفتاب پر مرتی ہے آفتاب کشمیری خاندان اور بزنس کلاس کا لڑکا ہے۔ جو اپنے ماں باپ کے دباؤ میں آ کر ان کی پسند کی شادی کر کے بیوی کے ہمراہ انگلینڈ روانہ ہو جاتا ہے۔ سیمی عشق میں ناکام ہو کر ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس دوران قیوم کو سیمی کے قریب ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس کو بظاہر سیمی کا قرب تو حاصل ہو جاتا ہے مگر ذہنی طور پر وہ قیوم سے کوسوں دور تھی۔ مصنفہ کے نزدیک اصل عشق ًعشق حقیقی ً ہے۔ اس لئے اپنی زندگی کا محور اسی کو بنانا چاہیے۔

زیر نظر کتاب میں مصنفہ نے ایک عورت ہوتے ہوئے مردوں کی نفسیات کا تجزیہ کیا ہے۔ اور انسان کو کرگس یعنی گدھ سے تشبیہ دی ہے۔ کبھی کبھی انسان اپنے اندر گدھ کے اوصاف پیدا کر لیتا ہے۔ جس طرح گدھ مردار (مرے ہوئے بے بس جانور) کو کھاتا ہے، نوچتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات انسان اپنے سے کمزور انسانوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس لحاظ سے انسان زیادہ بڑا یعنی راجہ گدھ ہے۔ یہ بہت کڑوی حقیقت ہے کہ اس ضمن میں مصنفہ کا اشارہ بالخصوص مرد ذات کی جانب ہے۔

اس کے علاوہ محترمہ بانو قدسیہ نے ہماری زندگیوں پرحرام اور حلال رزق سے مرتب ہونے والے اثرات کے تصور کی وضاحت بہت عمدہ طریقے سے کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ حرام اور حلال کا تصور انسانی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے حلال اور حرام کی حد بہشت میں حضرت آدمؑ اور اماں حوا پر لگائی تھی۔ اس پابندی میں Genes Mutation کا گہرا بھید چھپا ہوا ہے۔ ہمارا دین ہمارے لئے یہ حدیں مقرر کرتا ہے۔ حلال اور حرام میں اچھے یا برے کا سوال نہیں ہے۔

بس ہر وہ چیز یا فعل حرام ہے جس سے اللہ تعالٰی منع فرما دیتا ہے۔ جس وقت حرام رزق ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے، وہ انسانی Genes کو متاثر کرتا ہے اور ایک خاص قسم کی Mutation پیدا ہوتی ہے۔ رزق حرام سے آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے۔ اور جن قوموں میں من حیث القوم حرام رزق کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے وہ من حیث القوم دیوانی ہو جاتی ہیں۔ جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں وہ بدن میں جا کر ہمارے لہو کی ساخت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس سے ہماری بلڈ کیمسٹری متاثر ہوتی ہے جورزق حلال ہم کھاتے ہیں اس کا ہمارے لہو پر مثبت اثر ہوتا ہے اور رزق حرام ہمارے جسم میں داخل ہوتا ہے اس کا ہمارے لہو پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔

ایک اور قسم کا رزق بھی ہوتا ہے، حلال اور حرام سے پرے، جو شہیدوں کو ملتا ہے، جو پیغمبروں کو حاصل ہوتا ہے، بی بی مریم کے پاس آتا تھا (یعنی من و سلوٰی) ۔ اس رزق سے آگاہی پیدا ہوتی ہے، عرفان جنم لیتا ہے، روحانیت کی منازل طے ہو جاتی ہیں۔ اسلام نے انسان کو محنت کر کے رزق حاصل کرنے کی تلقین کی ہے۔ جب انسان محنت کیے بغیر رزق حاصل کر لیتا ہے تو وہ اسے حرام بنا لیتا ہے۔ ایسے رزق کو کھانے سے انسان کے جسم اور خون میں فساد برپا ہوتا ہے جو آگے چل کر دیوانگی کی شکل اختیا ر کر جاتا ہے۔

مصنفہ کے بقول پاگل پن بھی دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جس سے روح، قلب اور دماغ سب کمزور ہوتے ہیں۔ دوسرا پاگل پن وہ ہے جس سے روح میں توانائی آتی ہے۔ وہ ایک ہی جست میں کئی کئی منزلیں طے کر جاتی ہے اور قلب کی آنکھ پر سے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔ ایہ اللہ کے کرم سے ہی ہوتا ہے۔ اور اللہ کا یہ کرم اللہ کے ان بندوں پر ہوتا ہے جو اس کی طرف سچے دل سے رجوع کرتے ہیں۔ اس کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں، اس پر توکل کرتے ہیں، اس پر یقین کامل رکھتے ہیں۔

اگر انسان اپنی پالتو مرغیوں کو خاص قسم کی خوراک دے کر انڈے دینے والی مرغیاں بنا سکتا ہے اور شہد کی مکھی اپنے بچوں کو Royal Jelly کھلا کر رانی مکھی بنا سکتی ہے تو یقیناً اللہ تعالٰی بھی اس بات پر قادر ہے کہ وہ خاص رزق کھلا کر عام بندوں میں سے پیغمبر بنا سکے، ولی اور قطب ڈھال سے، ان کو عرفان عنایت کر سکے۔

میری رائے میں مصنفہ بانو قدسیہ نے اپنے ناول ً راجہ گدھ ً میں معاشرے کے منفی رویوں پر روشنی ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ اس نفسا نفسی کے دور میں ہر انسان اپنی زندگی میں Short Cuts ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے اور محنت سے دور بھاگتا ہے۔ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت اور اس سے خریدا ہوا رزق، حرام ہو جاتا ہے۔ ہم وہی رزق کھا رہے ہیں۔ ہم پر اور ہماری آنے والی نسلوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ہماری اولادیں نافرمان ہو رہی ہیں، معاشرے میں بے حیائی اور بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہم رزق حرام کے تصور اور اس کے منفی اثرات کو سمجھ لیں اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل بھروسا کرنا سیکھ لیں تو ہم اچھے مسلمان اور معاشرے کے اچھے فرد بن کر ایک پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔ محترمہ بانو قدسیہ نے ہماری آنکھیں کھولنے کی پوری کوشش کی ہے۔ آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور بے راہ روی، خود غرضی، حرص و ہوس اور بے شمار دوسرے منفی رویوں کی جانب ہماری توجی دلائی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ اور روش کو بدلنے کی بہت ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).