اسلام آباد میں اساتذہ کے احترام کے بینرز سے آنسو گیس تک


دو ماہ قبل، پانچ اکتوبر کے دن کے اسلام آباد کی سڑکوں پر اساتذہ کو سلام پیش کیا جا رہا تھا۔ بڑے بڑے پوسٹرز کے ذریعے اساتذہ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔ ان کے احترام کے قصیدے پڑھے گئے۔ پھر پنجاب میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر جن اساتذہ کی عزت و تکریم، احترام، اور خراج تحسین و عقیدت کے جھنڈے گاڑے گئے تھے، ان پر انہی سڑکوں پر لاٹھی چارج سے نوازا گیا، آنسو گیس پھینکی گئی اور تو اور انھیں اپنے حق کی آواز بلند کرنے پر گرفتار کیا گیا۔

کئی خواتین اساتذہ بے ہوش ہوئیں لیکن حکمرانوں کو ہوش نا آیا۔ پھر ڈی سی اسلام آباد نے اساتذہ کو منانے کی ٹھانی۔ کیوں کہ سڑک خالی کرنے پر راضی کرنا تھا۔ ڈی سی اسلام نے کہا ہم آپ کی عزت کرتے ہیں شہریوں کو تنگ نہ کریں۔ وہ بھی سب کے سب استاد تھے مان گئے اور شہریوں کی مفاد میں سڑک کے کنارے اپنا کیمپ ڈال دیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق کمشنر راولپنڈی سے مذاکرات ہوئے اور یقین دہانی کروائی گئیں کہ پیر کے روز صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت سے مذاکرات ہوں گے۔

اور ہمارے سوہنے من موہنے، سر سبز و شاداب پنجاب کے اساتذہ ریاست مدینہ کی سڑکوں پر شدید سردی اور روڈ کی سختیاں جھیلتے رہیں گے۔ واہ کیا احترام ہے۔ کیا عزت و تکریم ہے اور کیا اعلی اعزازات ہیں۔

ایک بار خواجہ آصف نے اسمبلی میں کہا تھا ”کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے“ آج ایسی بات کی توثیق کرنی ہے۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ وہ قومیں اپنا مستقبل برباد سمجھیں جو اساتذہ کا احترام نہ کر سکیں۔ اسلام آباد پولیس کے حوصلے کو بھی سلام پیش کرنا ہیں جنہوں نے اپنے استادوں سے اساتذہ پر تشدد کرنا سیکھا ہے۔ اسی اسلام آباد پولیس کی ایک ڈی ایس پی تھیں میڈم خدیجہ، جنہوں نے محض اپنے عقائد اور احترام کی وجہ سے طاہر قادری کے پہلے جلسے کے دوران استعفیٰ دیا تھا کہ وہ اپنے اساتذہ اور معصوم شہریوں پر تشدد نہیں کر سکتیں۔

میری سمجھ سے بلا تر ہے کہ ان پولیس والوں میں اتنا گھمنڈ کیسے آیا کہ اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا۔

وہ اگر وزیراعظم ہاؤس پہنچ بھی جاتے اور دھرنا دے بھی دیتے تو کیا ہوتا؟ کیا وہ وزیراعظم کے گھر ہر قبضہ کر لیتے۔ ہمیشہ سنا تھا، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔ خان صاحب، کہیں تو آپ کی ذمہ داریاں ہیں آخر آپ پاکستان میں ریاست مدینہ کی داغ بیل ڈال رہیں ہے۔ سب کچھ آئی ایم ایف کی ہی مانے گے یا کچھ اپنے دل کی بھی سنیں گے۔ خدا کے ایک کمیٹی اور نہ بنائیے گا جو پنجاب میں اساتذہ کی نوکریاں پر ریفارم کریں۔ پھر سے اپنا معیار جانچیں۔

آج پاکستان کا معیار متعین کر لیں کہ کن کو نوکریاں دینی ہے کن کو نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کاش آپ ایک لفظ تو کہتے مذمت کرتے کوئی نوٹس لے لیتے کہ ان اساتذہ کی توہین کیوں کی؟ اپوزیشن جماعتوں کے لیڈرز ایک بیانیہ جاری کر دیتے کہ ہم اساتذہ کی توہین برداشت نہیں کرے گے۔ پی ڈی ایم کہہ دے کہ جب تک اساتذہ کو حق نہیں مل جاتا ہم۔ سکون سے نہیں بیٹھے گے، ہم پاکستان کے اداروں میں استادوں کی آواز نہیں دبنے دیں گے۔ اب کہیں نا کہ ہم استاد کی عزت کے لیے لانگ مارچ کریں گے۔

آہ میرے پاکستان کے معصوم حکمران، بڑے بڑے زیرک سیاست دان، اعلی حکام اور مستعد باوردی افسران، اس ریاست کا مستقبل سوچیں جس کے اساتذہ سڑکوں پر خوار ہیں، بے روزگار ہیں۔ ریاست ماں جیسی ہے، اور میری ماں لاوارث ہے کیوں کہ کبھی اسے اچھے استاد نہیں ملے، وہ لاچار ہے کیوں کی آرٹیکل پچیس۔ اے اس کے بس میں نہیں ہے، وہ در در اپنا حق مانگ رہی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے اسے لاغر کر دیا ہے۔

آہ میری ریاست مدینہ! یہاں کوئی علی نہیں جو ایک پڑھانے والے کا غلام بن جائے۔ کوئی ہارون الرشید نہیں جو استاد کے جوتے اٹھائے اور کوئی جاپانی قانون نہیں جہاں استاد کے لیے سگنل بند ہو جائے اور ٹریفک رک جائے۔

ہمیں اساتذہ کی اہمیت قدر و منزلت بتانے کے لیے ”یوم اساتذہ“ جیسے دنوں کی ہر روز ضرورت ہے تا کہ استاد سڑک پہ نہ آئے۔ بے روزگار نہ ہو اور نہ ہی پرائیویٹ سکول مافیا کہ ہاتھوں بلیک میل۔ نہ ہی ریاستی پالیسی اتنی کمزور کہ اساتذہ آئے روز سراپا احتجاج ہوں اور حسب معمول جب تک بدامنی پر مبنی غیر معمولی ہنگامہ نہ بپا کیا جائے، میڈیا اور حکومت کسی کے کان پر جوں نہیں تک نہ رینگے۔

اسلامی تاریخ تو بادشاہ کے بچوں کی اساتذہ کے جوتے اٹھا کر پہنانے جیسی درخشندہ روایات سے بھری پڑی ہے۔ انہی سے کچھ سبق حاصل کر لیں۔ اب تو اہل مغرب نے بھی عظمت استاد کو پہچان لیا اور ترقی کے عروج پر فائز ہونے کی وجہ اپنے استادوں کے سر دی ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر ونسٹن چرچل وزیراعظم برطانیہ نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے اساتذہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہی کی وجہ سے قوم مشکل حالات سے مقابلہ کے لئے تیار ہوئی۔

باتیں کرنے والی قوم منزلیں نہیں پا سکتی۔ ترقی اور کامیابی کے لیے اساتذہ کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں جائیں تو کم ہے۔ زندگی میں جو سیکھا سب پر اساتذہ کا مشکور رہیں اور پاکستان کو پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ نہ کہ اساتذہ کی توہین کر کے تاریک دنوں میں اضافہ کریں۔ اور ریاست مدینہ کے بانی عمران خان صاحب آپ کی ناک کے نیچے اپنا حق مانگنے کے لئے آئے ہوئے اساتذہ پر پولیس کا وحشیانہ تشدد، آنسو گیس کی شیلنگ، خواتین اساتذہ کی بے ہوشی کا نوٹس لیں۔ یہ نا ہو کہ پھر انہی سڑکوں پر تشدد کا شکار ہونے والوں کے حوالے سے کوئی یہ نا کہہ دے جناب وزیر اعظم سمیت قوم کو شاید اچھے استاد نا مل سکے۔

جن کے کردار سے آتی کو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں۔
شاید ہمیں وہ صادق استاد تو نہ ملے لیکن ایک نامعلوم شاعر کہتے ہیں
تعلیم کو لکھے گے اگر تاج محل ہم
اس پیکر تدریس کو محراب لکھے گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).