ترقی پذیر ممالک اور ذہنی صحت


اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا کہ ترقی پذیر ممالک میں جسمانی اور ذہنی صحت پر ان ممالک کے معاشی حالات کا بہت بڑا اثر ہے۔ مسائل کے حل کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ان کی غیر مساوی تقسیم متاثرہ طبقے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نہ صرف جسمانی صحت اس سے بہت متاثر ہوتی ہے بلکہ ذہنی مسائل کے بارے میں معلومات کا حصول اور اس ضمن میں لوگوں میں آ گاہی کی بھی کمی ہے۔ آ ج کل کے انٹرنیٹ کے جدید دور میں اس مسئلے کا حل ذہنی مسائل کے بارے میں نہ صرف معلومات تک رسائی ممکن ہے بلکہ دیگر افراد کے لئے بھی ایسے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی سہولت کے لئے رہنمائی موجود ہے۔

مگر بدقسمتی سے تعلیم کی کمی اور توہمات اور بعض مذہبی حلقوں میں ذہنی مسائل کے بارے میں بات کرنے کے بجائے دین سے دوری جیسی وجوہات پیش کر کے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں ذہنی مسائل کی بڑی وجہ مختلف رسم و رواج ہیں جن میں صنفی اور طبقاتی تفریق کا اظہار ببانگ دہل کیا جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل معلومات تک رسائی بذریعہ انٹرنیٹ اور ذہنی صحت کے بارے میں ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس پر بہت زیادہ وسائل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ کم وسائل سے بھی ایک منظم طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں افراد کی معاشی و معاشرتی زندگی پہلے سے ہی بہت سارے مسائل میں گھری ہوئی ہے وہاں پر ریاست کسی حد تک لوگوں کے ذہنی صحت پر کوئی پر اثر پالیسی دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس پس منظر میں ہمیں سماجی طور پر ایسے گروہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو کہ معاشرے میں ذہنی صحت کے حوالے سے آ گاہی اور ان مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا منظم پلیٹ فارم مہیا کریں جس سے ایسے افراد کی مدد کی جا سکے جو کہ ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لئے سکولوں میں اس بارے میں آگاہی مہم اور طلباء کی جذباتی تربیت سازی کے ساتھ ساتھ بنیادی صحت کے مراکز میں حکومت کو چاہیے کے ذہنی مسائل کے شکار افراد کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے سائکولوجسٹ ایسے مسائل پر رہنمائی فراہم کر سکیں۔ اس میں خاندان کے دیگر افراد جو کے ایسے افراد کی دیکھ بھال کرتے ہیں ان کے لیے بھی رہنمائی موجود ہو۔ اسی تناظر میں سب سے موثر ڈیجیٹل فورم بنایا جائے جس میں مقامی زبانوں میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی اور اس سے نبٹنے کے طریقے متعارف ہو تاکہ عوام کی رہنمائی ممکن ہو سکے۔

ریڈیو کے ذریعے معلومات عامہ کے پروگرام منعقد کیے جائیں اور ذہنی صحت سے جڑے بوسیدہ نظریات کا تدارک کیا جا سکے۔ اور آخر میں سب سے اہم بات ہمیں ان تمام ذہنی بیماریوں اور مسائل کی اپنی مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے جس سے ان عوامل کو لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ کیونکہ انگریزی زبان میں ان مسائل کا ذکر مسئلے کے آغاز میں ہی مریض یا متاثرہ شخص کو اجنبیت کا احساس دلاتا ہے۔ امید ہے کہ ان اسباب اور ڈیجیٹل وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم ذہنی صحت کی طرف مثبت انداز میں پیش قدمی کرتے ہوئے انسان دوست معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).