پہلی حاضری


جدہ ائرپورٹ کی حدود سے نکلے تو سڑک کے نواح میں اور جالی دار جنگلوں میں شاپنگ بیگز اڑے دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان میں ہی ہوں۔ ٹریفک نہ بہت زیادہ تھی نہ بہت کم۔ میں نے مشاہدہ کرنے کو نیند پر ترجیح دی اور جدہ سے مکہ تک کا سارا رستہ بچوں کو ہلکی پھلکی خوراک تھماتے اور نظروں سے سڑکیں ناپتے گزار دیا۔

مکہ میں اپنے ہوٹل پہنچے۔ کمرے میں سامان رکھا اور چند چیدہ چیدہ کام نمٹا کر آرام کی غرض سے لیٹ گئے۔ مجھے نئی جگہ پر فوراً سے نیند نہیں آتی سو موبائل اٹھا کر پاکستان میں موجود اپنی فیملی کو خیریت سے پہنچ جانے کی اطلاع دینے لگی۔

عصر کے قریب ہم پہلی حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔ ہوٹل سے حرم تک شٹل سروس موجود تھی سو اس سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس میں سوار ہو گئے۔ قریب قریب پانچ منٹ کا سفر رہا ہو گا۔ ٹرمینل پر اترے تو کچھ فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔ آہستہ آہستہ منزل کی جناب قدم بڑھانے لگے۔ حرم کے قریب پہنچے تو لوگوں کا ایک جم غفیر نظروں کے سامنے تھا۔ مزید قریب گئے تو باب السلام کو تلاشا۔ باب نمبر پینسٹھ سے باب نمبر چورہتر تک کہیں باب السلام نظر نہ آیا تو باب نمبر بہتر یا باب نمبر چورہتر سے خانہ کعبہ کی عمارت میں داخل ہو گئے۔ سامنے سیڑھیاں تھی، انہی پر چڑھنے لگے۔ اس دوران مغرب کی اذان دی جا چکی تھی۔ ڈھیر ساری سیڑھیاں چڑھ چکے تو جماعت کو کھڑا پایا۔ اس وقت کچھ سمجھ نہ آئی کہ ہم کون سی منزل پر ہیں۔ بس جماعت میں جا ملے۔

نماز پڑھتے پڑھتے التحیات کا وقت آیا تو بھول گیا کہ التحیات میں کیا پڑھتے ہیں۔ پتا نہیں اجلت میں جماعت میں شامل ہونے کا اثر تھا یا پہلی حاضری کی بوکھلاہٹ۔ بہت یاد کرنے پر بھی ذہن کی سلیٹ خالی کی خالی ہی رہی۔ جیسے تیسے فرض سے فارغ ہو کر خجالت سے امی سے پوچھا اور سنت پڑھی۔

نماز سے فراغت کے بعد اولین عمرہ کی ادائیگی کے لیے خانہ کعبہ کے مرکزی صحن کی طرف قدم بڑھا دیے۔ جا بجا لگے سائن بورڈز نے درست سمت کی جانب رہنمائی کی۔ اپنی کوئی نیکی، کوئی عمل ایسا نظر نہ آیا جو بلاوے کا باعث بنا ہو۔ یہ بلاوا خالصتاً رب رحیم کی بے کراں رحمت اور محبت کا کمال تھا۔ اس بے انت محبت کا خیال آنکھیں نم کرنے لگا۔ پلکیں جھپک جھپک کر آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا۔ خانہ کعبہ پر پڑی پہلی نظر کے ساتھ مانگے جانے والی دعاؤں کی بابت سن اور پڑھ رکھا تھا۔ ”لیکن میں کیا مانگوں؟! اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ہر نعمت سے نواز رکھا ہے، اب اپنے گھر بھی بلا لیا۔ اس کے علاوہ کس چیز کی تمنا کی جا سکتی ہے؟ پھر کیا مانگوں؟! دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی، ہدایت۔ یہ مانگنی چاہئیں۔“ جتنی قرآنی دعائیں ذہن میں آئیں کر ڈالیں۔

پہلا عمرہ

عمرہ کے مناسک شروع کیے۔ بیت اللہ کے گرد سات چکروں کی گنتی یاد رکھنے کو ہر چکر میں ایک مخصوص تسبیح پڑھنے سے زیادہ سہل طریقہ کیا ہو سکتا تھا۔ سو اس طریق پر خانہ خدا کا طواف کرنے لگے۔ عمرہ سے متعلق ہدایات کے کتابچے میں کہا گیا تھا کہ مطاف میں خانہ کعبہ کے گرد کچھ کچھ فاصلے پر دائرے کی شکل میں طواف کرنے والوں کی سہولت کی خاطر کالے رنگ کی پٹی لگائی گئی ہے تا کہ وہ اس پٹی کی مدد سے اپنے اپنے دائرے میں رہ کر اپنا چکر مکمل کر سکیں۔

باوجود تلاش بسیار کے کالے رنگ کی پٹی مل کر نہ دی۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اب وہاں لگی پٹی کا رنگ کالا نہیں، غالباً ہلکا بھورا ہے۔ پہلے پہلے تجربے میں گروہ ہی شکل میں چلنے والے لوگوں کے بیچ میں آ جانے کے سبب ایک مخصوص لائن میں چلتے رہنے میں کچھ مشکل پیش آئی۔ آنے والے دنوں میں اس مشکل پر قابو پانا سیکھ گئے۔

طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت نفل پڑھنے ہوتے ہیں۔ سوئے اتفاق، تقریباً مقام ابراہیم کے سامنے ہی جگہ مل گئی۔ اتنے لوگوں کی موجودگی میں تسلی سے بیٹھ کر اس منظر کو آنکھوں میں سمونے کا وقت اور موقع کیونکر ہو سکتا تھا سو چند ثانیے ٹھہر کر مقام ابراہیم کو اور اس کے پیچھے نظر آتے بیت اللہ کو دیکھا اور نفل نماز کی نیت باندھ لی۔ نماز کا سلام پھیر کر دعا کو ہاتھ اٹھائے۔ جن چند لوگوں کو اپنے سفر سے آگاہ کیا تھا، انہوں نے کچھ دعاؤں کی فہرست بھی بھیجی تھی۔ اس وقت فہرست نکالنے کی فرصت کہاں میسر تھی۔ سو ذہن میں جس جس کا خیال، نام اور دعا آئی وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دی۔

اتنے میں عشاء کی اذان ہو گئی۔ نماز پہلی منزل پر ادا کی۔ تھوڑی دیر سستایا اور پھر سعی کی خاطر صفاء و مروہ کا رخ کیا۔ یہاں لوگوں کی تعداد مطاف میں طواف کرتے لوگوں سے کم تھی۔ سات چکر۔ کم و بیش نو دس ہزار قدم پر مشتمل تھے۔ ایک ٹھنڈی اور ہموار سطح پر سات چکر لگانے کا ٹارگٹ شروع میں بہت آسان لگا تھا لیکن ٹارگٹ کی تکمیل پر پتا لگا کہ کم از کم اتنا آسان بھی نہیں تھا جتنا میں سمجھی تھی۔ سعی کے بعد عمرہ کے اختتامی مناسک ادا کیے اور حرم سے واپسی کا سفر شروع کیا۔

جاتے ہوئے ٹرمینل سے حرم تک کا فاصلہ چند منٹوں سے زائد کا نہ محسوس ہوا تھا، واپسی پر یہ راستہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ ڈھیر سارا چلنے کے بعد سوچا کیب سے ٹرمینل تک کا سفر طے کیا جائے لیکن معلوم ہوا کہ اب ٹرمینل پہنچ آئے ہیں۔

پہلا عمرہ بخیر و عافیت تکمیل سے ہمکنار ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).