سویت یونین سے بیلاروس تک: آمریت کا بحران


بیلا روس مشرقی یورپ کا ملک ہے جس کی آبادی لگ بھگ ایک کروڑ ہے مگر روس اور یورپی یونین کے درمیان واقع ہونے کے باعث اس کی اہمیت یورپ کی سیاست میں اچھی خاصی ہے۔ پھر یہ ملک تین عشرے پہلے تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس لیے اس کی سماجی و معاشی حالت پر اب بھی سوشلسٹ نظام کے گہرے اثرات باقی ہیں۔ بیلا روس کے موجودہ سیاسی بحران پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے بیلا روس کے ماضی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ بیلا روس کا مطلب ہے سفید روس۔ قدیم روسی نسل کے لوگ جن علاقوں میں آباد تھے ان پر آج تین ممالک قائم ہیں۔ یعنی روس، بیلا روس اور یوکرائن۔ کہا جاتا ہے کہ ان پرانے روسی لوگوں میں جو سب سے زیادہ گورے تھے وہ سفید روسی کہلائے۔

بیلا روس کا علاقہ بھی روسی سلطنت کے زیر اثر کبھی پولینڈ کے قبضے میں اور کبھی جرمنی کے ماتحت رہا ہے۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل کوئی سو ڈیڑھ سو برس تک بیلا روس سلطنت روس کا حصہ رہا، مگر پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی نے بیلا روس پر قبضہ کر لیا۔ جب 1918ء میں پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی تو بیلا روس نے جرمنی سے اعلان آزادی کر دیا، کیوں کہ جرمنی کو اتحادی افواج سے شکست ہو چکی تھی مگر پھر پولینڈ اور سوویت روس کی جنگ شروع ہو گئی کیونکہ 1917ء میں روس میں سوویت انقلاب کے بعد سوویت افواج اپنی فتوحات کا دائرہ بڑھا رہی تھیں۔ سوویت روس کے بعد سوویت یوکرائن بھی قائم ہو چکا تھا اور یہ دونوں مل کر پولینڈ سے لڑ رہے تھے، جس کو مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی، تاکہ سوویت اقتدار کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس جنگ میں دو سال لڑائی کے بعد 1921ء میں ایک معاہدے کے تحت مغربی بیلا روس کو سوویت روس کے حوالے کر دیا گیا۔

بیلا روس کے کمیونسٹ 1919ء میں ہی بیلا روس سوویت حکومت کے قیام کا اعلان کرچکے تھے اور 1921ء میں پولینڈ سے جنگ کے خاتمے کے بعد بیلا روس ان چار ابتدائی ریاستوں میں سے ایک تھی جس نے 1922ء میں سوویت یونین کے رہ نما ولادیمیر لینن کے سوویت یونین تشکیل دینے کے منصوبے کا ساتھ دیا۔ اس طرح بیلا روس، سوویت حکومت نے روسی، یوکرائنی، اور ماورائے کوہ قاف یا قفقاض کی سوویت حکومتوں کے ساتھ مل کر سوویت یونین کو تشکیل دیا۔

دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر نازی جرمنی اور سوویت یونین نے ایک معاہدے کے تحت پولینڈ میں فوجیں داخل کردیں۔ مغربی بیلا روس کا علاقہ جو بیس سال قبل پولینڈ کو ملا تھا اسے واپس بیلا روس میں شامل کر کے سوویت یونین کا حصہ بنا دیا گیا۔ 1941ء میں جب ہٹلر نے اسٹالن کے ساتھ معاہدہ توڑ کر سوویت یونین پر حملہ کیا تو بیلا روس سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ سوویت افواج پسپا ہوئیں تو بیلا روس مکمل طور پر نازی جرمنی کے قبضے میں آ گیا۔ اس جنگ کے دوران بیلا روس کے تقریباً تین سو چھوٹے بڑے شہروں میں سے دو سو شہر بری طرح تباہ ہوئے اور دس لاکھ سے زیادہ عمارات زمین بوس اور تقریباً نوے فیصد صنعتیں بالکل تباہ ہو گئیں۔ اندازوں کے مطابق دوسری عالمی جنگ میں بیلا روس پر جرمنی کے قبضے کے دوران تقریباً پچیس لاکھ بیلا روس کے شہری ہلاک ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1990ء تک یعنی ٹھیک پینتالیس سال بیلا روس سوویت کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر رہا۔ مگر جب 1990ء میں واضح ہونے لگا کہ اب سوویت یونین کا برقرار رہنا مشکل ہے تو جولائی 1990ء میں بیلا روس نے بھی خودمختاری کا اعلان کیا، لیکن ایک سال بعد یعنی سوویت یونین کے باقاعدہ خاتمے تک یہ رسمی طور پر سوویت یونین کا حصہ رہا۔ سوویت یونین کے ساتھ تقریباً ستر سالہ وابستگی کے دوران روس، بیلا روس اور یوکرائن وہ تین سوویت ری پبلیکس تھیں جو ایک دوسرے کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔

ایک تو تاریخی طور پر ان تینوں علاقوں کا ارتقا بہت جڑا ہوا تھا۔ تینوں کی زبانیں بھی بہت ملتی جلتی، رہن سہن کے ساتھ مذہب بھی تینوں کا ایک ہی یعنی روسی آرتھو ڈاکس چرچ ہی رہا ہے۔ اس کے علاوہ سوویت اقتدار میں بھی یوکرائن اور بیلا روس کے رہ نما سب سے زیادہ شامل رہے۔ مثلاً دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے طویل عرصہ سوویت وزیر خارجہ رہنے والے، اندرے گرومیکو کا تعلق بیلا روس سے ہی تھا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سوویت اقتدار اور خارجہ پالیسی میں گرومیکو کا کتنا اہم کردار تھا، جو 1957ء سے 1985ء تک یعنی کل اٹھائیس برس سوویت یونین کے وزیر خارجہ رہے اور پھر گورباچوف نے انہیں سوویت یونین کا سربراہ مملکت بھی بنا دیا تھا جو ویسے تو ایک رسمی عہدہ تھا لیکن پھر بھی بیلا روس کے لئے ایک اعزاز کی بات تھی۔ اسی لئے جب 1990ء میں سوویت کے ٹکڑے ہونے کی باتیں ہونے لگیں تو کسی کو بھی یہ امکان نہیں تھا کہ یوکرائن اور بیلا روس بھی الگ ملک بن جائیں گے مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ سوویت یونین ٹوٹنے سے ایک سال قبل جولائی 1990ء میں بیلا روس کی سپریم سوویت یا صوبائی اسمبلی نے سوویت یونین سے خودمختاری کا اعلان کر کے آزادی کے عمل کا آغاز کیا اور اگست 1991ء میں سوویت یونین کی ناکام بغاوت کے بعد مکمل آزادی کا اعلان کیا۔

اس سے قبل جون 1990ء میں سوویت یونین کا سب سے بڑا صوبہ، خود روس بھی باغی رہ نما بورس یلتس کی قیادت میں سوویت یونین سے خودمختاری کا اعلان کرچکا تھا جس کے تحت اہم فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ روس کے قوانین کو سوویت یونین کے قوانین پر بالادستی حاصل ہوگی۔ روس کے اس اعلان نامے نے سوویت یونین کے دیگر صوبوں کے لئے بھی راہ ہم وار کر دی تھی کہ وہ بھی ایسی ہی خودمختاری کا اعلان کریں جو ایک ایک کر کے تمام پندرہ صوبوں نے کر دیا جن میں ایک بیلا روس بھی تھا۔

بیس اگست 1991ء کو سوویت یونین میں کچھ سخت گیر کمیونسٹ رہنماؤں نے گورباچوف کو ہٹا کر پرانا نظام بحال کرنے کی کوشش کی جس کی حمایت بیلا روس میں اس وقت کے کمیونسٹ سربراہ نکولائی دیمن تیئی نے کردی۔ دو دن بعد وہ بغاوت ماسکو میں ناکام ہوئی تو بیلا روس کی کمیونسٹ پارٹی کے فرسٹ سیکرٹری کا عہدہ بھی ختم کر دیا۔

ستمبر 1991ء میں گورباچوف کی بحال شدہ سوویت حکومت نے تین بالٹک ریاستوں کی آزادی کو تسلیم کر لیا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب باقی بارہ صوبے بھی الگ ہوسکتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگست میں ہونے والی ناکام بغاوت کی قیادت سوویت نائب صدر یانائیف، سوویت وزیر دفاع یازوف، سوویت کے جی بی کے سربراہ کریوچ کوف، سوویت وزیراعظم پاؤلوف وغیرہ کر رہے تھے لیکن پھر بھی یہ بغاوت یلتس کی قیادت میں نکلنے والے روسی عوام کا سامنا نہ کرسکی اور پھر فوج نے بھی عوام کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر دیا جس سے بڑی خون ریزی ہو سکتی تھی۔

ستمبر 1991ء میں بالٹک ریاستوں کے الگ ہونے کے بعد باقی ریاستوں کے سربراہوں نے بھی یلتس کی قیادت میں سوویت یونین کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ٹھان لی اور دسمبر 1991ء میں بیلا روس میں ہی بیلا ویژ معاہدے پر دستخط کردیے جس کی رو سے سوویت یونین ختم کر دیا گیا۔ اصل میں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں خود گورباچوف سوویت یونین کو ایک ڈھیلی ڈھالی کنفیڈریشن بنانا چاہ رہے تھے اور اگست کی ناکام سوویت بغاوت اس عمل کو روکنا چاہ رہی تھی مگر بغاوت ناکام ہونے کے بعد گورباچوف اورخود سوویت کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھ سے معاملات نکلتے چلے گئے، کیوں کہ تقریباً تمام صوبے اپنی اسمبلیوں کے ذریعے یہ اعلان کرچکے تھے کہ اب صوبائی اسمبلیاں خودمختار ہیں، سوویت آئین اور قانون کی پابند نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ بیلا روس 1922ء میں سوویت یونین تشکیل دینے والے چار صوبوں میں سے ایک تھا اور اب 1991ء میں بیلا ویژ معاہدے پر ان چار میں تین صوبوں یعنی روس، بیلا روس اور یوکرائن نے سب سے پہلے دستخط کیے ۔ بیلا روس کے نئے سربراہ مملکت کا نام شوشکے وچ تھا جو آزاد بیلا روس کے پہلے سربراہ بنے اور 1994ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

1993ء میں بیلا روس کے افق پر ایک لوکاشینکو نمودار ہوتے ہیں جو بیلاروس کو اینٹی کرپشن کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ بیلا روس کی حکومت کے ستر اعلیٰ ترین رہ نما بڑی کرپشن میں ملوث ہیں، جن میں سربراہ مملکت شوشکے وچ بھی شامل تھے۔ لوکاشینکو کے الزامات کے بعد بیلا روس کی پارلیمان میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی جو شوشکے وچ کی برطرفی پر منتج ہوئی۔ بعد میں ثابت ہوا کہ شوشکے پر لگائے الزامات بے بنیاد تھے۔ دراصل دنیا کے کئی ملکوں میں کرپشن کا ہوا کھڑا کر کے حکومتیں گرائی جاتی ہیں، بعد میں پتا چلتا ہے کہ الزامات من گھڑت تھے اور جو لوگ اس مہم کے بعد اقتدار میں آتے ہیں وہ خود کرپٹ بھی ہوتے ہیں اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے جمہوریت کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں جیسا کہ لوکاشینکو نے کیا۔

اس وقت لوکاشینکو نسبتاً جوان رہنما کے طور پر ابھرے کیوں کہ وہ اس وقت ساٹھ سالہ سربراہ مملکت سوشکے وچ کے مقابلے میں صرف چالیس برس کے تھے۔ اس سے قبل خود لوکاشینکو 1980ء سے 1990ء تک کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہ چکے تھے مگر پھر یلتس کی طرح تائب ہو گئے تھے۔ 1990ء میں وہ بیلا روس اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے آزاد بیلا روس کے سربراہ مملکت سوشکے وچ اور وزیر اعظم کے بیچ (KEBICH) کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، حالانکہ یہی دونوں تھے جنہوں نے بیلا ویژ معاہدے کے متن پر دستخط کر کے سوویت یونین کے خاتمے اور بیلا روس کی حتمی آزادی کا اعلان کیا تھا لیکن جب 1994ء میں بیلا روس کے پہلے صدارتی انتخابات ہوئے تو لوکاشینکو نے مخالف امیدوار کے بیچ کو شکست دی اور بیلا روس کے پہلے منتخب صدر بن گئے اور اب چھبیس سال سے مسلسل بیلا روس کے صدر چلے آرہے ہیں اور بار بار خود کو منتخب کرالیتے ہیں۔

1991ء میں بیلا روس کی آزادی کے بعد ایک آئین ساز کمیشن بنایا گیا تھا جسے تین سال کا عرصہ لگا کر ایک متفقہ آئین 1994ء کے اوائل میں اسمبلی سے منظور کرالیا گیا، جس کے تحت جولائی 1994ء میں انتخابات ہوئے تھے۔ اس آئین کے تحت بیلا روس کو صدارتی جمہوریہ بنایا گیا اور وزیراعظم کا عہدہ بالکل غیر موثر ہو گیا۔

جون 1994ء میں بیلا روس کے پہلے آزادانہ صدارتی انتخاب ہوئے تو ان کے غیر جانبدارانہ ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت برسراقتدار وزیراعظم جو صدارتی امیدوار تھے صرف پندرہ فی صد ووٹ حاصل کرسکے تھے اور لوکاشینکو اسی فی صد سے زیادہ ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے تھے۔

لوکاشینکو کے دور حکومت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے سوویت نظام کی بہت سی چیزوں کو باقی رکھا ہے اور روس کے برعکس بے لگام نج کاری نہیں ہونے دی جس کے نتیجے میں اب بھی بڑی صنعتیں سرکاری ملکیت میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یورپ کے بجائے روس سے قریبی تعلقات کو ترجیح دی ہے۔ اپنے انتخاب کے کچھ دن بعد ہی انہوں نے ماسکو میں روس کے صدر یلتسن کے ساتھ روسی اسمبلی دوما کے اجلاس سے خطاب کیا اور ایک نئی یونین کے قیام پر زور دیا، جس کے بعد 1996ء میں روس اور بیلا روس کی دولت مشترکہ قائم کی گئی اور پھر 1997ء میں یونین کے قیام کا معاہدہ ہوا۔ بالآخر دسمبر 1999ء میں باقاعدہ یونین کے قیام کا معاہدہ ہوا جس کا حتمی مقصد ایک فیڈریشن کا قیام تھا، جس کی کرنسی بھی ایک ہونی تھی مگر اب تک ایسا نہ ہوسکا۔

البتہ یونین کے نتیجے میں دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے ملک بغیر ویزے کے آزادانہ سفر اور کام بھی کر سکتے اور رہ بھی سکتے ہیں۔ دراصل روس اور بیلا روس دونوں میں اب تقریباً ایک جیسے حالات ہیں یعنی دونوں میں حزب مخالف کو کچلا جاتا رہا ہے اور پوٹن کے ساتھ لوکاشینکو دونوں آمریت کے راستے پر چلتے رہے ہیں۔ دونوں نے اپنے مخالفین کو کھل کر سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اخبارات ورسائل پر پابندی لگائی۔ اپنے ہاتھوں میں اقتدار کا ارتکاز کیا اور کسی طرح بھی اقتدار چھوڑنے پر رضامند نہیں ہیں۔

پوٹن اڑسٹھ سال کے ہیں اور بیس سال سے روس پر قابض ہیں۔ لوکاشینکو ان سے دو سال چھوٹے ہیں اور چھبیس برس سے بیلا روس میں اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ دونوں نے اپنے ملکوں کے آئین کو اپنے مفادات کے لئے توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔ لوکاشینکو کو 1999ء میں دوسری بار الیکشن لڑنا تھا مگر انہوں نے 1996ء میں ہی اپنی مقبولیت کے عروج پر رائے شماری یا ریفرنڈم کراکر اپنے اقتدار کی مدت میں دو سال کا اضافہ کر لیا تھا۔ اس طرح دوسرے انتخاب 2001ء میں ہوئے مگر ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے خود کو دوبارہ منتخب کرالیا۔

اصل میں صدارتی نظام کی سب سے بڑی خرابی ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں پارلیمان صدر کو ہٹا نہیں سکتی جب تک کہ اس کا مواخذہ نہ کیا جائے جو خاصا مشکل ہوتا ہے۔ 2001ء اور اس کے بعد ہونے والے تمام انتخابات کو بین الاقوامی مبصر غیر قانونی قرار دیتے رہے ہیں مگر لوکاشینکو اب تک یورپ کے آخری آمر کے طور پر اقتدار پر براجمان ہیں۔ 2006ء میں تیسرے 2010ء میں چوتھے اور 2015ء میں پانچویں بار خود کو صدر منتخب کرانے کے بعد بھی لوکاشینکو کا دل نہیں بھرا اور انہوں نے 2020ء چھٹی بار خود کو الیکشن میں جتا کر صدر رہنے کا اعلان کیا۔

اس کے بعد پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بیلا روس میں مظاہرے جاری ہیں۔ انتخاب میں ان کی مخالف امیدوار سویتلانا کو خاصا مقبول قرار دیا جا رہا تھا مگر انہیں صرف دس فیصد ووٹ دیے گئے اور ایک بار پھر لوکاشینکو نے اسی فی صد ووٹ لینے کا اعلان کیا۔ سویتلانا صرف اڑتیس سال کی ہیں، مگر بیلا روس کے عوام میں خاصی مقبول ہیں، کیوں کہ وہ انسانی حقوق کی ایک بڑی علم بردار کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔ دراصل ان کے شوہر سرگئی تیخا نووسکی کو صدارتی امیدوار ہونا تھا مگر لوکاشینکو نے انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تو سویتلانا میدان میں آ گئیں۔ یہ میاں بیوی روس کے ساتھ اتحاد کے خلاف ہیں اور یورپی یونین کی طرف زیادہ نرم گوشہ رکھتے ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اسی طرح بیلا روس میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا تحفظ ہو سکتا ہے۔

لوکاشینکو نے پچھلی ربع صدی کے عرصے میں بیلا روس میں کسی قسم کی سیاسی جماعتوں کو پنپنے نہیں دیا، جیسا کہ خود روس میں پوٹن نے کیا ہے جو بھی سیاسی رہنما یا جماعت آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسے کچل کر رکھ دیا جاتا ہے اس طرح کی آمرانہ حرکتوں سے بیسویں صدی کے دو عشرے جمہوریت کے لئے بڑے نامساعد حالات کا باعث بنے ہیں۔ چاہے وہ روس کے پوٹن ہوں یا امریکا کے بش جونیئر اور ڈونلڈ ٹرمپ، ترکی کے رجب طیب ارووان ہوں یا بھارت کے نریندر مودی، برازیل کے بولسونارو ہوں یا فلپائن کے دوترتے، سب نے اپنے اپنے ملکوں میں جمہوری روایات اور انسانی حقوق کی شدید پامالی کی ہے لیکن بیلا روس کے لوکاشینکو ان میں سب سے سب آگے ہیں۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ سویتلانا کو دنیا کے دیگر ممالک ایک اہم رہنما اور بیلا روس کی مستقبل کی صدر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ لوکاشینکو کا پورا انحصار روس پر ہوگا کہ وہ بیلا روس میں مظاہروں کے خاتمے کے لئے ان کی مدد کرے۔ یوکرائن میں بھی چند برس پیشتر ایک روس نواز صدر نے انتخاب کے بعد روس سے مدد لینے کی کوشش کی تھی، مگر عوام کے سیلاب کے آگے صدر کی ایک نہ چلی اور انہیں روس بھاگنا پڑا تھا، جس کے بعد روس نے یوکرائن کے علاقے کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا جو اب تک قائم ہے۔

اب بیلا روس میں سویتلانا کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور آٹھ ستمبر کو کونسل اوف یورپ کے پارلیمانی اسمبلی نے سویتلانا کو خطاب کی دعوت دی، اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی انہیں مدعو کرچکی ہے۔ سویتلانا نے لوکاشینکو کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے اور انہیں غیر قانونی صدر قرار دیا ہے۔ دس ستمبر کو پڑوسی ملک لیتھونیا کی پارلیمان نے سویتلانا کو بیلاروس کا منتخب صدر تسلیم کر لیا ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ لوکاشینکو اور سویتلانا دونوں آزاد امیدواروں کے طور پر صدارتی انتخاب لڑ رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کی کام یابی کے لیے منظم اور مضبوط سیاسی جماعتوں کا ہونا کتنا ضروری ہے، گوکہ حزب مخالف نے بیلا روس جمہوری تحریک کے نام سے کام کرنا شروع کیا ہے مگر اسے ایک سیاسی جماعت کہنا خاصا مشکل ہے۔

بیلا روس کے حالات و واقعات سے پاکستان جیسے ممالک کے لیے خاصے اسباق نکلتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ، کرپشن کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے خود اپنے اردگرد ایسے لوگ جمع کرلیتے ہیں جو غیر جمہوری اور غیر سیاسی رویوں کے مالک ہوتے ہیں اور ان کا کام ملک میں بچی کچھی سیاسی اور جمہوری روایات کا بھی خاتمہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ کرپشن کی راگ مالا سے متاثر ہونے کے بجائے ملک میں جمہوری اور سیاسی نظام کے استحکام کی بات کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).