نفرتوں کے درمیان بلونت سنگھ پریوار پر کیا گزری


دور تک دو لائنیں لگی ہوئی تھیں مردوں کی الگ خواتین کی الگ جنہوں نے جیل میں قید اپنے عزیزو اقارب سے ملاقات کرنی تھی لیکن ضابطہ کے مطابق ان قیدیوں کی ملاقات چونکہ پہلے ہو چکی تھی۔ اس لئے ان کی آج ملاقات نہیں ہو سکتی تھی۔ ان میں کچھ لوگ ملاقات کے لیے آئے تھے۔ کچھ رہائیوں کے لیے کچھ قیدیوں کے انگوٹھے لگوانے اور کچھ وکالت ناموں کے سلسلے میں تو اس طرح کے تمام معاملات کے حل کے لئے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوا تھا کہ اس طرح کے تمام لواحقین جن کے ضابطہ کے مطابق کام نہیں ہو سکتے تھے ان کی روزانہ گیارہ بجے لائن لگوا دی جائے تاکہ میں خود جیل کے باہر جا کر ان کی شکایات سنوں اور ان کا ازالہ کر سکوں۔

پاکستان پرزن رولز کے تحت سپرنٹنڈنٹ جیل کو بے پناہ اختیارات ہیں۔ اگر وہ انصاف اور انسانیت کو مد نظر رکھ کر ان اختیارات کو استعمال کرے تو اس سے بڑی نیکی اور انسانیت کی خدمت کوئی نہیں جیل میں بے انتہا غریب، مسکین، بے آسرا لوگ دنیا کے ستائے ہوئے اور اشرافیہ، پولیس اور مختلف اداروں کی زیادتیوں سے آئے ہوئے بے گناہ لوگ بند ہوتے ہیں۔ کم از کم جیل کے اندر اور کسی حد تک باہر ان کے دکھوں کا مداوا کیا جا سکتا ہے۔

چنانچہ میں تمام متعلقہ افسران کے ساتھ باہر آتا اور باری باری ہر ایک ملاقاتی کا مسئلہ سنتا اور ساتھ ساتھ منشی مسائل لکھتا جاتا اور اس تمام کارروائی کے بعد حکم تھا کہ دفتری اوقات ختم ہونے سے قبل ان کے تمام مسائل حل ہونے چاہئیں اور میں باقاعدہ رجسٹر منگوا کر چیک کر لیتا تھا۔

یہ جیل بہاولپور کا واقعہ ہے کہ ایک دن جب میں لائن میں کھڑے لوگوں کے مسائل نوٹ کروا رہا تھا تو لائن کے آخری آدمی پر نظر پڑی تو وہ ایک سکھ نما شخص لگا کیونکہ اب تک کی زندگی میں میں نے کسی سردار جی کو بہ نفس نفیس نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے ہاں ویسے تو اس طرح کے گیٹ اپ والوں کی کمی نہیں اس کے علاوہ فلموں میں بھی آگاہی کے طور پر ایسے کریکٹر دیکھے تھے لیکن ان سے میرا آمنا سامنا پہلی دفعہ ہو رہا تھا۔ اس شخص نے لائن توڑی اور آگے آ گیا۔ اس نے جب بات شروع کی تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو واقعی سردار جی ہیں۔

وہ میرے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا کہ میں نے اپنے بیٹے سرجیت سے ملاقات کرنی ہے۔ اس نے سمجھا کہ شاید میں چند لوگوں کی بات سن کر باقی لائن کو عملے کے سپرد کر کے واپس چلا جاؤں گا۔ میں نے انہیں کہا کہ آپ اپنی جگہ پر ٹھہریں۔ میں آپ تک پہنچتا ہوں۔ آپ سب لوگوں کی بات سن کر اور نوٹ کروا کر جاؤں گا۔ اسے کچھ تسلی ہوئی اور وہ جا کر اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔

جب میں سردار جی کے پاس پہنچا تو اس نے روتے ہوئے کہا۔
آپ میرے بیٹے کی ملاقات کرا دیں۔

میں نے پوچھا۔
آپ کہاں سے آئے ہیں۔ میرا مطلب ہے۔ پاکستان سے یا انڈیا سے آئے ہیں۔

اس نے کہا جناب میں انڈیا سے آیا ہوں۔ میں نے اپنے بیٹے سے ملاقات کرنی ہے۔
میں نے کہا سردار جی اگر آپ انڈین ہیں تو آپ کی ہوم آفس کی اجازت کے بغیر ملاقات نہیں ہو سکتی۔

اس نے کہا جناب میرا بیٹا تین سال سے گم ہو گیا ہے۔ اس کی ماں رو رو کر پاگل ہو گئی ہے۔ ہم نے انڈیا کے تمام شہروں میں اس کو تلاش کیا جہاں جہاں ہمارا کوئی رشتہ دار یا دوست رہتا تھا۔ ہم وہاں گئے لیکن ہمیں کامیابی نہ ہوئی اب ایک قیدی یہاں بہاولپور جیل سے رہا ہو کر انڈیا گیا ہے تو اس نے بتایا کہ اس نام اور علاقے کا نوجوان بہاولپور جیل میں قید ہے۔

میں پریشان ہو گیا کہ غیرملکیوں کی ملاقات اصولاً میں نہیں کرا سکتا تھا جب تک ہوم ڈیپارٹمنٹ سے اجازت نہ مل جائے اور یہ ادمی اتنی توقع رکھ کر کھڑا ہے تو کیا بنے گا جب اس کا خواب کرچی کرچی ہو جائے گا۔ وہ اپنی جگہ روئے جا رہا تھا اور میں اپنی کم بساطگی پر اس کی توقعات ٹوٹنے پر اندر ہی اندر لرز رہا تھا۔

میں نے کہا بابا جی آپ لاہور سے تو گزر کر آئے ہیں۔ وہاں ہوم ڈیپارٹمنٹ سے اجازت لیتے آتے تو اس نے کہا ”سرکار مجھے ان باتوں کا کیا علم میں نے تو جب بارڈر کراس کیا تو پاگلوں کی طرح بہاول پور کی بس پر سوار ہو گیا آپ کو کیا بتاؤں کہ بس اگرچہ پوری رفتار سے بھاگی جا رہی تھی لیکن لگتا تھا۔ معلوم نہیں یہ کب بہاولپور پہنچے گی اور میرا دل کرتا تھا۔ اس سے اتر کر اس سے آگے بھاگوں اور اتنا تیز دوڑوں کہ اس سے پہلے بہاولپور پہنچوں آپ نوجوان اولاد کے غم کو شاید نہ جانتے ہوں۔

میری عمر اس وقت اٹھائیس سال تھی۔ اس لئے اس نے ایسا کہا ہوگا لیکن میں بھی والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کبھی مجھے تکلیف ہو جاتی یا ان کی آنکھوں سے دور ہوجاتا تو والدین کے دکھ کا مجھے اندازہ تھا کہ ان پر کیا گزرتی تھی۔

میں شش و پنج میں پڑ گیا کہ معاملہ بہت نازک ہے۔ یہ دوسرے ملک کا باشندہ ہے۔ اس نے پاسپورٹ بنوایا ہوگا اور مشکل سے اس کو پاکستان کا ویزا ملا ہوگا۔ دشمن ملک کا ویزا ملنا کون سا آسان کام ہے۔ اوپر سے دونوں قوموں کے درمیان نفرتیں اس قدر پیدا کر دی گئی ہیں کہ دوسرے ملک کا ہر باشندہ دشمن اور جاسوس ہی محسوس ہوتا ہے۔ اور اگر یہ لاہور سیکرٹریٹ بھی چلا جاتا تو کون سی انہوں نے اس کی بات سننی تھی۔ وہ پاکستانیوں کے کیس کتنا عرصہ دبا کے بیٹھے رہتے ہیں۔

ابھی میں کچھ سوچ رہا تھا تو اس نے مجھ پر ایک اور کاری ضرب لگائی مجھے شدید جھٹکا لگا۔

سر آپ کے عملے نے کل میرے ساتھ بہت زیادتی کی ہے۔ میں کل دوپہر کو بہاولپور پہنچا اور سائیکل رکشے والے کو کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے جیل پہنچو یہ نہ ہو جیل کا ٹائم ختم ہو جائے ( اس زمانے وہاں آٹو رکشا کی بجائے سائیکل رکشہ چلتا تھا) جب میں یہاں جیل پہنچا تو یہاں آپ کا ایک افسر کھڑا تھا۔ اس نے پولیس کو فون کر دیا کہ جیل کے باہر ایک انڈین جاسوس پھر رہا ہے۔ پولیس آئی اور مجھے پکڑ کر لے گئی رات میں تھانے میں رہا اور ساری رات سوچتا رہا کہ اب کیا بنے گا۔ بیٹے کو ملنے آیا تھا۔ خود قیدی بن گیا ہوں صبح جب مجھے بڑے افسر کے سامنے پیش کیا گیا اور میرے تمام کاغذات کی پڑتال ہوئی تو انہوں نے چھوڑ دینے کا حکم دیا وہاں سے بھوکا پیاسا سیدھا میں یہاں آیا ہوں۔

یہ سن کر میں مزید پریشان ہو گیا لیکن مین ایک عجیب کیفیت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا جوں جوں اس کا دکھ اس کے آنسوؤں میں امڈ رہا تھا۔ اسی قدر میرے اندر فیصلہ کرنے کی شدید قوت پیدا ہو رہی تھی۔

اتنے مین مجھے اس کی آواز سنائی دی ”اگر آپ ملاقات نہیں کرا سکتے تو میری بنتی ہے کہ مجھے دور سے وہ نوجوان دکھا دیں کم از کم میں تسلی تو کر لوں کہ اس نام کا نوجوان میرا بیٹا ہے جس کوئی اور ہے۔“

میں نے اس وقت تک فیصلہ کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اس کی ملاقات کرانی ہے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ دفتر آنے کو کہا اور عملے کو کہا اس کے لئے چائے وغیرہ لے کر آئیں۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ گیا چائے اور بسکٹ بھی اس کے آگے رکھ دیے گئے۔

سپرنٹنڈنٹ جیل کا آفس اس طرح کا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے دو گیٹوں کے درمیان مین گیٹ ہوتا ہے جسے جیل کی زبان مین ڈیوڑھی کہا جاتا ہے۔ اس میں جیل میں داخل ہونے اور باہر جانے والا ہر آدمی کا اندراج ہوتا ہے۔ آفس کے سامنے والی دیوار میں شیشہ لگا ہوتا ہے جس سے آنے جانے والی ٹریفک پر جیلر کی نظر ہوتی ہے اور اس وقت میرے دائیں طرف دیوار میں بڑی کھڑکی تھی جس میں ایک بڑا شیشہ لگا ہوا تھا جس سے جیل کے اندر دور تک نظر جاتی تھی اور جیل کے اندر درمیان میں چیف وارڈن کا سنٹرل آفس ہوتا ہے جس کے چاروں اطراف قیدیوں کی بیرکیں ہوتی ہیں۔

بیرکوں سے آنے اور مین گیٹ سے بیرکوں کو جانے والے تمام قیدیوں کا وہاں اندراج ہوتا ہے اور ان کی چیکنگ ہوتی ہے۔ چنانچہ سنٹرل آفس سے ڈیوڑھی کی طرف آنے جانے والا ہر آدمی میرے آفس میں بیٹھے بلونت سنگھ کو دکھائی دے رہا تھا اگرچہ چائے آ گئی تھی لیکن اس کی نظریں کھڑکی پر جمی تھیں جہاں سے دور سے آنے والا اس کا لڑکا دکھائی دے سکتا تھا۔

میں نے کہا بلونت آپ چائے پی لیں ابھی اس نوجوان کو آنے میں دس پندرہ منٹ لگ جائیں گے۔
سرکار کوئی چیز کھانے کو دل نہیں کر رہا جب تک اس نوجوان کو دیکھ نہ لوں۔

وقت گزرنے پر جب دور سے اسے ایک سپاہی اور ایک آدمی کا ہیولا دکھائی دیا وہ ٹکٹکی باندھ کر انہیں دیکھنے لگ گیا میری نظریں بلونت پر تھیں جوں جوں وہ قریب آ رہے تھے۔ اس کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا کہ معلوم نہیں وہ نوجوان کون نکلتا ہے۔ پریشانی اس کے چہرے سے مترشح تھی جونہی وہ اس کی نظر کی رینج میں آیا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چیخنے لگا یہی میرا بیٹا سرجیت ہے۔ اسے یاد نہ رہا کہ کہاں کھڑا ہے۔

میں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو کہا کہ اس قیدی کو میرے آفس میں بھیج دیں وہ ابھی روئے جا رہا تھا اور اس کا جسم کانپ رہا تھا جونہی سپاہی اس نوجوان کو اندر لایا سردار جی دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا کبھی اس کا ماتھا چومتا کبھی اس کے ہاتھ چومتا پھر اسے گلے لگاتا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا سرکار اس کی ماں رو رو کر پاگل ہو چکی ہے۔ گرو کے صدقے آج ہمیں یہ دوبارہ ملا ہے۔

میں نے سپاہی کو کہا ساتھ والے آفس میں باپ بیٹے دونوں کو لے جا کر بٹھاؤ اور جب تک ان کا دل کرے ان کی ملاقات کراؤ اور جب کئی گھنٹے ملاقات کر کے وہ فارغ ہوا تو شکریہ ادا کرنے میرے آفس میں آیا اور ہاتھ باندھ کر معلوم نہیں کیا کچھ کہتا رہا اور میں اپنی سوچ میں ڈوبا رہا کہ ہم کیسے لوگ ہیں۔ ہم ایک ہی ملک کے باشندے تھے۔ پرکھوں سے ہم اکٹھے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح مل جل کر رہے یہ سب کیا ہو گیا ہے۔ دوستیاں اور تعلق خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ اب حال یہ ہو گیا ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا اگر غلطی سے بارڈر کراس کر جائے تو اس کا یہ حشر ہوتا ہے۔

اس وقت تو بارڈر پر کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی۔ وہ بوڑھا ہو نوجوان ہو غریب چرواہا ہو یا فاتر العقل ہو ہم سمجھتے ہوئے بھی اسے واپس نہیں کرتے اسے پکڑ کر سینکڑوں میل دور اپنی اپنی جیلوں میں بند کر دیتے ہیں۔ جہاں سالہا سال ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا اس طرح ہنستے بستے گھروں کو دکھ کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں اور ماؤں کی گود ویران کر دیتے ہیں۔ نفرتیں ہیں کہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

یورپ صدیوں کی آپس کی جنگوں اور لاکھوں انسانوں کے قتل کے بعد سنبھل کر ایک ملک ہو چکا ہے لیکن یہاں دونوں طرف کے غریب عوام کو ایک ہی بیانیہ سننے کو ملتا ہے۔ ہم دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ بلونت کیا کہ رہا ہے اور اسے معلوم نہیں تھا کہ میں اس وقت کن خیالات کی قید میں ہوں اور کن احساسات کی کٹھنائیوں سے گزر رہا ہوں البتہ جب میں ان سوچوں سے باہر نکلا تو اس سے کہا بلونت اگر آپ کل بھی ملاقات کرنا چاہیں تو آپ آ جائیں۔
جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میں نے دل میں کہا وہ قانون ہی کیا جو دل کی دنیا کو ویران کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).