کیا آپ کی داڑھی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے؟


میں نے دو ہفتے پہلے کینیڈا کے ایک حجام کو ’پھر دوسرے حجام کو اور پھر تیسرے حجام کو فون کیا اور درخواست کی کہ وہ میری حد سے زیادہ بڑھی غیر مہذب داڑھی کو تراش کر مہذب بنا دیں لیکن تینوں باربرز نے انکار کر دیا۔ میں نے ان کی بہت منت سماجت کی کہ مجھے کینیڈا ون ٹی وی کے سٹوڈیو جا کر ڈاکٹر بلند اقبال کے ساتھ۔ دانائی کی تلاش۔ کا ایک پروگرام ریکارڈ کروانا ہے لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے انہیں غیرت بھی دلوائی کہ ایک زمانے میں افغانستان میں طالبان داڑھی تراشنے والے حجاموں کو جیل میں ڈال دیتے تھے لیکن کینیڈین باربر وہ بات سن کر ٹس سے مس نہ ہوئے اور کہنے لگے کہ کرونا کی وبا کے ریڈ زون کی وجہ سے حکومت نے ماسک پہن کر سر کے بال کاٹنے کی تو اجازت دی ہے لیکن داڑھی ترشوانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ سب باربر قانون کی سختی سے پابندی کرنا چاہتے تھے۔

کرونا کی وبا کے دوران داڑھی کے حد سے بڑھنے کی وجہ سے میں نے اپنی داڑھی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔ مجھے یاد آیا کہ میرے بہت سے دوستوں کو جب پتہ چلا تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی شیو نہیں کیا تو وہ بہت حیران ہوئے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نوجوانی میں داڑھی نہ کاٹنے اور شیو نہ کرنے کی وجہ مذہبی نہیں تھی بلکہ میری سستی اور کاہلی تھی۔

میں جب ایک ٹین ایجر تھا اور میرے چہرے پر بے ترتیب اور بے ڈھنگی داڑھی آنی شروع ہوئی تو پہلے تو میں نے سوچا کہ میں ایک ریزر خرید کر شیو بناؤں لیکن پھر میں نے سوچا کہ اگر میں نے ایک دفعہ شیو کر لیا تو مجھے ساری عمر شیو کرنا پڑے گا جو میری سست اور کاہل شخصیت کو پسند نہ تھا۔ میں نے جب حساب لگایا کہ اگر ایک دن شیو کرنے کو بیس منٹ لگتے ہیں تو ہفتے میں سات دن, مہینے میں تیس دن, سال میں تین سو پینسٹھ دن میں شیو کرنے میں پانچ دن اور پچاس سال میں چوبیس ہفتے یعنی چھ ماہ میں شیو کرتا رہوں گا۔ جو قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔ چنانچہ میں نے شیو نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اور انتظار کرنے لگا کہ بے ترتیب داڑھی میں دھیرے دھیرے ترتیب آ جائے گی اور میں مہینے میں ایک دفعہ حجام سے جا کر داڑھی ترشوا لیا کروں گا۔

میرے شیو نہ کرنے کے فیصلے کے برسوں بعد مجھے کیوبا کے فیڈیل کاسٹرو کا وہ انٹرویو پڑھ کر بہت مزہ آیا جس میں انہوں نے بھی شیو نہ کرنے کی وہی وجہ بتائی جو میں نے نوجوانی میں سوچی تھی۔ وہ انٹرویو پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ فیڈیل کاسٹرو کے ساتھ سوشلزم کی روایت کے ساتھ ساتھ میری شیو نہ کرنے کی عادت بھی مشترک ہے۔

شیو نہ کرنے کی عادت میری زندگی میں ایک اور اہمیت کی حامل بھی ہے کیونکہ وہ پہلا موقع تھا جب میری بغاوت نے خاندان کی روایت کو انجانے میں چیلنج کیا تھا۔ میں جب اپنی بے ڈھنگی داڑھی لیے پشاور سے لاہور گیا تو میرے جابر و آمر ماموں نے خاندان کے سب بزرگوں کو ڈنر پر بلایا اور کھانے کے بعد سب کے سامنے مجھے چیلنج کیا۔ کہنے لگے

’ ہم سب کو خالد سہیل پر یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ شیو کر لے۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ ایک مہذب خاندان کا فرد ہے۔ داڑھی رکھنے والے یا مولوی ہوتے ہیں یا ہپی۔‘

ایک آنٹی نے نہ صرف میرے ماموں کی حمایت کی بلکہ مجھ سے کہا ’اگر تم نے داڑھی نہ منڈوائی تو تم سے کوئی بھی شریف خاندان کی لڑکی شادی نہ کرے گی‘ ۔

میں ان بزرگوں کی سب پند و نصائح خاموشی سے سنتا رہا جس سے میرے اندر کے باغی کا ارادہ اور بھی مصمم ہوتا گیا اور میری داڑھی میری بغاوت کا استعارہ بن گئی۔

مجھے پاکستانی لڑکیوں اور عورتوں کے مردانہ وجاہت کے نظریے کا کچھ خاص اندازہ نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ کینیڈین اور امریکی عورتوں کے لیے ہردلعزیز موسیقار کینی روجرز کی سیکسی داڑھی کی طرح کسی بھی مرد کی ترشی ہوئی دیدہ زیب داڑھی اس کی مردانہ وجاہت کی عکاس ہے۔ کینیڈا میں تو پاکستانی آنٹی کی بات غلط ثابت ہوئی ہے۔

تین باربرز سے مایوس ہر کر میں نے اپنی چہیتی بھانجی وردہ میر ’جو میری دوست بھی ہے‘ سے رجوع کیا۔ وہ میرا مسئلہ سن کر فون پر زور زور سے ہنسی اور کہنے لگی ’سہیل ماموں بالکل بے فکر رہیں میں آپ کے لیے کرسمس کا تحفہ خریدتی ہوں‘ چنانچہ اس نے ایک داڑھی کا trimmer آرڈر کیا اور اتوار کی شام کو مجھے اپنے گھر بلا کر بڑی محنت اور محبت اور ٹمر ’قینچی اور کنگھی کی مدد سے میری جنگلی داڑھی کو مہذب بنا دیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگی‘ سہیل ماموں اب آپ ہینڈسم دکھائی دے رہے ہیں اب بہت سی دختران خوش گل آپ پر فریفتہ ہو جائیں گی ’پھر کہنے لگی‘ میں نے داڑھی کی مرمت کرنے سے پہلے تصویر اتاری تھی اب مرمت کے بعد تصویر اتارتی ہوں تا کہ آپ کو میری کاوش کا اندازہ ہو سکے اور آپ کے ساتھ ایک سیلفی بھی اتاروں گی تا کہ کووڈ کی وبا کی یاد تازہ رہے ’

میں نے کہا ’بہت بہت شکریہ۔ مہربانی۔ عنایت۔ دھنے واد۔ تھینک یو۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمہارا ماموں میرے ماموں کی طرح نہیں ہے۔ اب میں بڑے سکون سے بلند اقبال کے ساتھ کینیڈا ون ٹی وی پر۔ دانائی کی تلاش۔ کا پروگرام بغیر کسی ندامت کے ریکارڈ کروا سکوں گا۔ ’

پھر وردہ شرارت سے مسکراتے ہوئے کہنے لگی
’ آپ تو درویش ہیں آپ کو ان سب باتوں سے بے نیاز ہونا چاہیے‘
میں نے کہا ’موڈرن درویش‘ اور ہم دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail