بغداد میں راکٹ حملہ، امریکہ کا ایران پر الزام


بغداد میں امریکی ایمیسی کا درائےدجلہ کے پار سے ایک منظر، فائل فوٹو

امریکہ نے عراق کے دارالحکومت بغداد کے ہائی سیکیورٹی علاقے گرین زون میں اتوار کے روز ہونے والے راکٹ حملے کا الزام ایران کی پشت پناہی والے جنگجوؤں پر لگایا ہے۔

عراقی فوج کا کہنا ہے کہ ایک ’’غیر قانونی گروہ‘‘ نے اتوار کے روز آٹھ راکٹ فائر کیے جن سے ایک عراقی فوجی زخمی اور ایک عمارت اور کار کو نقصان پہنچا۔

بغداد میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ عمارت میں تمام اہل کار محفوظ رہے اور حملے سے عمارت کو معمولی نقصان پہنچا۔

حملے سے بچنے کے لیے سفارت خانے کا میزائل ڈیفنس سسٹم فعال ہو گیا تھا۔

امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اس حملے کی سختی سے مذمت کی ہے۔

انہوں نے حملے کی ذمہ داری ایرانی سرپرستی میں کام کرنے والی ملیشیا پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تمام عراقی شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عراقی حکومت کی ملک کی حاکمیت بحال کرنے، ایسے حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی ملیشیا وں کو ریاست کی عمل داری میں لانے کی کوششوں میں مدد کریں۔‘‘

جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی کوشش کا ردعمل ہو گا

دوسری طرف امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ اگر ایران نے پچھلے سال امریکی حملے میں مارے جانے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے حملے کیے تو واشنگٹن ایسے حملوں کے ردعمل کے لیے تیار ہے۔

یہ بیان مشرق وسطی میں امریکی فورسز کے سربراہ نے اتوار کے روز دیا۔

انہوں نے کہا ’’ہم اپنے اور خطے میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے دفاع کے لیے تیار ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم ردعمل کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی جو اس سال جنوری میں ایک امریکی ڈورن حملے میں مارے گئے تھے۔
ایرانی جنرل قاسم سلیمانی جو اس سال جنوری میں ایک امریکی ڈورن حملے میں مارے گئے تھے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی رواں سال 3 جنوری کے دن بغداد ائیرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

امریکی سینٹ کام کمانڈر جنرل کینتھ مکنزی،جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ایک سال پورے ہونے سے چند ہفتے پہلے خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’میرا اندازہ یہ ہے کہ ہم اس وقت بھرپور پوزیشن میں ہیں اوراگر ایران یا اس کی پراکسیز نے کوئی بھی اقدام اٹھانے کا ارادہ کیا تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ وہ بغداد کا پہلے سے ہی دورہ کر چکے ہیں، جہاں ان کی ملاقات اینٹی جہادی اتحاد کے سربراہ، امریکی جنرل پاؤل کیلویٹ اور عراقی فوج کے سربراہ جنرل عبدالعامر یاراللہ سے ہوئی۔

جنرل مکنزی کا کہنا ہے کہ وہ اردن کی سرحد کے قریب واقع التنف بیس میں تعینات امریکی فورسز سے ملاقات کے لیے پہلے ہی شام کا دورہ کر چکے ہیں۔

ایک طرف جہاں امریکی فوج صدر ٹرمپ کے حکم کے مطابق افغانستان اور عراق میں افواج کی تعداد کم کر کے 2500 تک لا رہی ہے وہیں ایران کی جانب سے کسی بھی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے پنٹاگان عراق میں سخت پوزیشن لے رہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa