غربت میں آسانی ہے


غربت میں آرام ہے، آسانی ہے۔ یہ جملہ آپ کو گراں گزرے گا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ساری تکالیف، پریشانیاں، سوچیں ان کو ہوتی ہیں جن کے پاس پیسہ ہوتا ہے، جو امیر ہوتے ہیں۔ غریب ہونے میں جتنی زیادہ تکلیف ہے اس سے کہیں زیادہ غربت میں آسانی ہے۔ یہ امیر بہت بیچارے قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی حفاظت کے لیے کئی کئی بندے رکھتے ہیں اور پھر بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ کبھی کسی غریب کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے پریشان ہو۔

یہ امیر ہی ہیں جو غریبوں کی طرح منہ اٹھا کر کہیں نہیں جا سکتے، غریبوں کی طرح ہر وقت موت کے منہ میں کھڑے نہیں رہ سکتے۔ اکثر امیروں کی ساری زندگی ڈر کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ انھیں ایک وقت میں بہت سارے خدشات لاحق ہوتے ہیں۔ یہ گھر میں پیسے رکھیں تو ڈاکوؤں کا خوف انھیں سہمائے رکھتا ہے، بینک میں رکھیں تو اس کے ڈیفالٹر ہونے کا اندیشہ لگ جاتا ہے۔ کاروبار میں اتار چڑھاؤ کا روگ جان کو لگا ہے، تو کبھی ٹیکس والوں کے ناروا سلوک کی پریشانی ستاتی ہے۔

کبھی یہ اپنے کپڑوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں تو کبھی شاپنگ کی چھان پھٹک کے بعد خاک اتروانے کے لیے بیوٹی سیلون میں وقت نہ ملنے پر پریشان نظر آتے ہیں۔ کبھی غریبوں کی آہ بھری آوازیں ان کا راستہ روکتی ہیں، تو کبھی ان کی آسمان تک جاتی بددعائیں دل دہلانے کو کافی ہوتی ہیں۔ ائر کنڈیشنڈ کمروں کے باوجود انھیں ٹھیک سے نیند نصیب نہیں ہوتی۔ اکثر اچھی بھرپور نیند کے لیے یہ ڈاکٹر سے رابطہ کرتے ہیں۔ جبکہ غریب کو تو ننگے فرش اور کھلے آسمان تلے بھی گہری سکون کی نیند مفت آجاتی ہے۔

امیر اپنے اثاثوں میں اضافے کے لیے بے چین رہتے ہیں، جبکہ غریب پریشان ہوئے بنا اپنے اثاثے بڑھائی جاتے ہیں۔ ان کے بقول اصل اثاثہ اولاد ہے سو وہ اس کی بڑھوتری کے لیے سکون سے مصروف رہتے ہیں۔ اور اثاثوں میں اضافے کے انتہائی ذاتی معاملے پر یہ کسی امیر تو کیا کسی ڈاکٹر کو بھی بولنے کا حق نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہے جیسے وہ امیروں کی بڑھتی جائیدادیں نہیں روک سکتے اسی طرح کوئی دوسرا بھی ان کی دولت (اولاد) میں اضافے پر خاموش رہے۔

امیروں کو غریبوں کی اس دولت کا اندزہ نہیں ورنہ وہ بھی شاید مالی کی بجائے افرادی دولت بنانے پہ دھیان دیں۔ امیروں پر تو کسی کو رحم بھی نہیں آتا، اس پہ مزید ستم کہ امیر ہونے کی وجہ سے یہ کسی سے رحم کی اپیل بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے حلقہ یاراں میں ایک دوست نئی لگثری گاڑی لے تو باقی سب اس فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ کب اسے خرید سکیں گے۔ جبکہ غریبوں کو اس قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ان کے جاننے والوں میں کوئی نئی چیز لے آئے تو غریب اپنی زندگی یہ سوچ کر حرام نہیں کرتے کہ وہ اسے کیسے خریدیں گے۔

’ہم غریب ہیں، نہیں لے سکتے‘ سوچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ امیروں کی بے چارگی کوئی نہیں سمجھ سکتا، غریب بھی نہیں۔ اکثر غریب برگر کھا کھا کر موٹے ہو جاتے ہیں اور امیر ڈائیٹنگ کے خبط میں مبتلا کھانے سے منہ موڑ کر سوکھ جاتے ہیں۔ غریب لوگوں کو نیکیوں کا خبط ہوتا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ یہ نیکی کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے۔ غریب امیر نہیں ہوتا اس لیے وہ کسی کی مدد نہیں کر سکتا، من چاہی چیزیں نہیں خرید سکتا، کاروبار نہیں کر سکتا، دو وقت کی روٹی نہیں خرید سکتا، کبھی کبھی تو شادی بھی نہیں کر سکتا۔

زیادہ تر غریبوں نے اپنے ایسے کام اکثر امیروں کے مضبوط کندھوں پر ڈال رکھے ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس پیسہ ہے اس لیے امیروں پہ فرض ہے وہ اپنی محنت سے کمائی ہوئی ساری دولت غریبوں پہ دریغ خرچ کریں۔ تاکہ امیروں کی آخرت اور غریبوں کی دنیا سنور سکے۔ البتہ غریبوں کو آخرت سنوارنے کی فکر ہوتی ہے نہ دنیا۔ اصل بات یہ ہے کہ غریبوں کو آگے بڑھنے کا شوق نہیں ہوتا اس لیے وہ آگے بڑھنے کا سوچتے بھی نہیں اور جو سوچتے ہیں اس پر بنا سوچے حرام کی تہمت لگا دیتے ہیں۔

ان کو یقین ہے کہ حرام کمانے سے ہی امیر ہوا جاتا ہے۔ حرام کمانا گناہ ہے اس لیے اکثر وہ زیادہ کمانے سے دور رہتے ہیں۔ وہ ’حرام‘ نہیں کما سکتے، لیکن امیروں کی کمائی حرام دولت سے مدد مانگنے ضرور جاتے ہیں۔ غریب امیروں سے مانگ لیتے ہیں لیکن ان جیسا بننے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔ کئی غریبوں کا خیال ہے کہ امیروں کے پاس جو بھی پیسہ ہے اس پہ پہلا حق صرف غریبوں کا ہے۔ اسی لیے اپنا حق وصول کرنے وہ ٹائم سے پہنچ جاتے ہیں۔

غریبوں کو پتہ ہے حضرت عمر کے دور میں امیروں نے اتنی زکوت دی تھی کہ پورے ملک کے غریب خوشحال ہو گئے تھے۔ لیکن ان غریبوں کی خوشحالی کا اگر بندوبست کر دیا جائے تو مزید خوشحال ہونے کی تمنا انھیں کسی اور امیر کے گھر لے جاتی ہے۔ غریبوں کو یقین ہے کہ امیر ظالم ہیں، جابر ہیں۔ لیکن حقیقت میں اصلی ظالم خود غریب ہوتے ہیں جو محنت نہیں کرتے، آگے نہیں بڑھنا چاہتے۔ لیکن کوئی امیر اگر ان کی مدد کرے، تو یہی غریب اپنے دوسرے ساتھیوں کا حق بھی کھا جاتے ہیں۔

رمضان، عید یا پھر کسی مشکل وقت میں یہ بات کھل کے سامنے آتی ہے، ان کی کوشش ہوتی ہے جو بھی ہے، سب اس اکیلے ہی کو مل جائے، کیونکہ وہ غریب ہے۔ ایسے میں کسی غریب کو کسی دوسرے غریب کا خیال کبھی نہیں آتا۔ یقین نہیں آتا تو نیاز کی ایک دیگ چاولوں کی تقسیم کر کے دیکھ لیں۔ غریب یہ کبھی نہیں سوچے گا کہ وہ دوسروں کا حق ماررہا ہے۔ یہ اپنے ساتھیوں کا حق کھا جاتے ہیں اور بد دعائیں امیروں کو دیتے ہیں کہ ان کے لیے کچھ نہیں کرتے۔

غریبوں کو وہم ہے کہ امیر دعاؤں کے لالچ میں غریبوں کی مدد کرتے ہیں جبکہ بیشتر امیر خالص انسانی ہمدردی کے تحت ان کی مدد کرتے ہیں۔ وہ علاج کے لیے فری ڈسپنسریاں بناتے ہیں، ان کے ماہانہ وظائف لگاتے ہیں، راشن بانٹتے ہیں۔ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق امیر کسی نہ کسی طریقے سے غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر بھی غریبوں کو لگتا ہے کہ امیروں کو غریبوں کا احساس نہیں۔ اسی لیے بیشتر غریب امیروں کو اس وقت صدق دل سے بد دعائیں دیتے ہیں جب ایک ماہ میں پانچویں بار وہ ان کی مدد کرنے سے انکار کردیں۔ بندہ غریب ہو تو آسانی سے بددعائیں دے سکتا ہے جبکہ امیر تو یہ بھی نہیں کر سکتے، وہ دل کے ارمان دماغ میں میں رکھ کر کڑھتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).