ڈینئل پرل قتل کیس: ملزمان کی نظر بندی غیر قانونی قرار، رہا کرنے کا حکم


امریکہ کے اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔ (فائل فوٹو)

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینئل پرل قتل کیس میں گرفتار ملزمان کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تین ملزمان بغیر کسی جرم ثابت ہوئے 18 سال سے جیل میں ہیں جب کہ چوتھے ملزم احمد عمر شیخ اپنی سات سالہ قید کی سزا پہلے ہی پوری کر چکے ہیں۔

عدالت نے جمعرات کو جاری کیے جانے والے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ڈینئل پرل کیس میں نامزد چاروں ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے جائیں تاکہ وہ بیرون ملک نہ جا سکیں۔ اس کے علاوہ ملزمان کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف جاری سماعت میں عدالت کی جانب سے طلبی پر حاضر ہوں گے۔

عدالت نے حکومت کے ذریعے تمام سیکیورٹی اداروں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ ملزمان کو کسی بھی طرح سے ہراساں نہ کیا جائے۔ عدالت نے فورتھ شیڈول کے تحت نظر بندی کے تمام نوٹی فکیشنز کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ملزمان کو مزید نظر بند نہ رکھا جائے۔

دورانِ سماعت سرکاری وکلا نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ملزمان کی نظر بندی کا اختیار صوبائی حکومت کا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے 4 فروری 2020 کو ڈینئل پرل کیس میں سزا پانے والے ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ان ملزمان کو نقضِ امن کے خدشے کے باعث نظر بند کر دیا گیا تھا۔ محکمۂ داخلہ سندھ نے 28 ستمبر کو ملزمان کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 کے تحت نظر بندی کا حکم جاری کیا تھا۔

کیس کا پس منظر کیا ہے؟

امریکہ کے اخبار ‘وال اسٹریٹ جرنل’سے وابستہ صحافی ڈینئل پرل کو کراچی میں جنوری 2002 میں اغوا کیا گیا تھا جن کی لاش مئی 2002 میں برآمد ہوئی تھی۔

اس کیس میں پولیس نے چار ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ان میں سے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

ڈینئل پرل کس اسٹوری پر کام کر رہے تھے؟

چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

تاہم اس کیس میں اپیل پر فیصلہ آنے میں 18 برس کا عرصہ لگ گیا کیوں کہ ملزمان کے وکلا نہ ہونے کی وجہ سے اپیلوں کی سماعت تقریباً 10 برس تک بغیر کارروائی کے ملتوی ہوتی رہی۔

سندھ ہائی کورٹ نے 4 فروری 2020 کو 18 سال بعد اپیل پر فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے مقدمے میں گرفتار تین ملزمان کو بری جب کہ مرکزی ملزم کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔

ملزم احمد عمر شیخ 18 برس سے جیل میں ہی ہے۔

ڈینئل پرل قتل کیس میں سزا پانے والے ملزمان کون تھے؟

اس کیس میں پولیس نے کل چار افراد کو گرفتار کیا تھا۔ جن میں احمد عمر شیخ، فہد نسیم، عادل شیخ اور سلمان ثاقب شامل ہیں۔

ان میں سے احمد عمر شیخ پاکستانی نژاد برطانوی شہری تھے جو لندن اسکول آف بزنس سے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

کشمیر میں آزادی کی تحریک کے دوران 90 کی دہائی میں بھارت میں بعض غیر ملکی سیاح اغوا ہوئے تھے اور اس الزام میں احمد عمر شیخ کو جیل بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ سزا کاٹ رہا تھا۔

ڈینئل پرل کیس: 'تحقیقات میں خامیوں کا فائدہ ملزمان کو ملا'

ایئر انڈیا کے کٹھمنڈو سے دہلی جانے والے طیارے کو 1999 میں اغوا کرکے افغانستان کے شہر قندھار لے جایا گیا اور مغویوں کی رہائی کے بدلے اغوا کاروں کے مطالبے پر جن تین افراد کو بھارت کی جیلوں سے رہائی ملی ان میں احمد عمر شیخ بھی شامل تھے۔

احمد عمر شیخ کا نام ایک بار پھر ڈینئل پرل کے اغوا کے کیس کے بعد سامنے آیا۔ مبینہ طور پر احمد عمر شیخ نے کیس میں نام سامنے آنے اور خاندان کے دباؤ پر لاہور میں خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا۔ لیکن کیس میں پولیس نے ان کی گرفتاری کراچی ایئر پورٹ کے قریب سے ظاہر کی تھی۔

اسی طرح فہد نسیم، سلمان ثاقب اور عادل شیخ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ڈینئل پرل کی وہ تصاویر اپ لوڈ کی تھیں جس میں وہ زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa