میرے گاﺅں کا اعزاز؟


\"\"میرے پیارے نبی کریمؐ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر 12 ربیع الاول ، سنہ عام الفیل، یوم دو شنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ اس وقت نو شیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا۔ ابنِ سعد کی روایت ہے کہ حضرت آمنہؓ نے فرمایا ”جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے۔ ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگورے گر گئے۔ مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا۔ بحیرہ ساوہ خشک ہو گیا اور اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔ آپ فخرِ موجودات کی ولادتِ باسعادت کی خوش خبری آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے پاس بھجوائی گئی تو وہ شاداں وفرحاں تشریف لائے۔ آپ رسول اللہ کو خانہ کعبہ میں لے جا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اور آپ کا نام محمدؐ تجویز کیا، یہ نام اس وقت عرب میں معروف نہ تھا۔ دو روز قبل پوری مسلم دنیا، یہ مبارک دن، جسے اب عید میلاد النبی کے بابرکت نام سے یاد کیا جاتا ہے، منا ر ہی تھی۔

جشنِ عید میلاد النبی، اس ملک کی گلی گلی میں برپا تھا، ہر شہر اس مبارک جشن کی دھوم دھام کی تصویر دکھائی دیتا تھا، حتیٰ کہ میرا گاﺅں بھی جو تقریباً بارہ سو نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے، وہاں یہ جشن اتنی دھوم دھام سے منایا گیا، کہ لوگ دور دور سے دیکھنے کے لئے آئے۔ گاﺅں کی گلیاں، جو ہمیشہ کوڑے اور کیچڑ سے بھری رہتی ہیں، ایک دم سے صاف ستھری دکھائی دینے لگیں۔ ابلتی ہوئی گندی نالیاں، جن کا تعفن سانس روک لیتا ہے، اسے گاﺅں کے بچوں نے مل جل کر دو دن میں صاف کردیا۔ کوڑے کے پرانے ڈھیر، جنہیں گاﺅں والے اروڑی کہتے ہیں، وہ دو دن میں یوں غائب ہو گئے جیسے وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔ مال مویشی جو گلیوں میں اکثر کھلے دکھائی دیتے تھے اور جن کا گوبر لید گزرنے والوں کے لئے مشکلات پیدا کرتا تھا۔ باندھ دیئے گئے۔ گاﺅں کے بچے بچیاں جو سارا دن گلیوں میں آوارہ پھرتے تھے، وہ گھروں میں بیٹھ کر جھنڈیاں اور آرائشی پھول بنانے میں مصروف ہوگئے۔ گاﺅں کی عورتوں نے جھاڑو پکڑ لئے اور آپس میں کام تقسیم کرکے، گاﺅں کے خارجی اور داخلی راستے صاف کردیئے، جن پر آرائشی دروازے لگا کر، ان پر چمکتی روشنیوں میں، عید میلاد النبی کے بورڈ لگا دیئے گئے۔ گلیوں میں آرائشی راہداریاں بنا کر، انہیں ہزاروں گز ریشمی کپڑے اور رنگین روشنیوں سے سجا دیا گیا۔ یہ ڈھکی ہوئی باپردہ روشن گلیاں، جنہیں رنگ برنگے ریشمی کپڑے سے سجایا گیا تھا۔ ان کی آرائش میں گاﺅں والوں نے پورا زور لگادیا۔ جگہ جگہ کشمیری چائے کے سٹال، جلیبی اور پکوڑوں کا اہتمام۔ سپیکروں پر، گونجتی خوبصورت نعتیں۔ جن پر سر دھنتی وہ تمام میلی جاہل عورتیں اور بچے ، جنہیں ان نعتوں کا مفہوم ہرگز معلوم نہیں ، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، انہیں تو قرآنِ پاک کا مفہوم بھی معلوم نہیں۔ سارا گاﺅں، جس نے پورے پندرہ روز ذاتی کام کاج چھوڑ کر، جشنِ عید میلاد النبی کی رضاکارانہ تیاریوں میں گزارے تھے، رنگ برنگے کپڑے پہنے گلیوں میں اتراتا پھرتا تھا۔ کہ وہ اس دفعہ بھی اردگرد کے گاﺅں، اور دیہہ پر بازی لے گیا۔ اور پچھلے تین برس سے، پورے ضلع میں اول آنے کا ریکارڈ یقینا اس دفعہ بھی اسے ہی حاصل ہوگا۔

\"\"ڈسٹرکٹ منڈی بہاﺅالدین کا یہ گاﺅں، عین اپنے اندازوں کے مطابق، اس دفعہ بھی ضلع بھر میں برپا ہونے والے، عید میلاد النبی کے جشن میں اول آیا ہے۔ اول آنے کے بعد، وہ اٹھارہ عدد مذہبی گروپ، جو اس بارہ سو نفوس پر مشتمل آبادی میں پچھلے چار پانچ برس سے کچھ زیادہ ہی متحرک ہو چکے ہیں، اب ان میں یہ جھگڑا شروع ہو چکا ہے، کہ کس گروپ کی کارکردگی کی بنا پر، گاﺅں کے حصے میں یہ اعزاز آیا۔ مدنی گروپ! تحریکِ نظامِ مصطفی گروپ؟ سنی تحریک؟ پنج تنی گروپ؟ یا علیؓ گروپ؟ حسینی گروپ؟ سخی شہباز گروپ؟ سنی اتحاد گروپ؟ پیر پیران گروپ؟ غرضیکہ وہ تمام اٹھارہ عدد متحرک مذہبی گروپ، جو لاکھوں روپیہ، ایک دن کی آرائش پر لگا کر، اس اعزاز کو اپنے نام کرنا چاہتے ہیں، وہ اس وقت آپس میں دست و گریباں ہیں جبکہ اس دوران گلیاں اپنی پرانی شکل میں واپس آچکی ہیں۔ آوارہ بچے اور کھلے مویشی جن میں دندناتے پھرتے ہیں۔ یہ گاﺅں، جس میں، ان گنت بیوائیں اور یتیم بچے پلتے ہیں۔ یہ گاﺅں جس میں نجانے کتنی غریب لڑکیاں، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں۔ یہ گاﺅں جس میں محتاج غریب لڑکیاں، جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کنواری بیٹھی ہیں۔ یہ گاﺅں جس میں محتاج بوڑھے اور بوڑھیاں رہتی ہیں، جنہیں ان کی اولادوں نے چھوڑ دیا۔ یہ گاﺅں، جہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جن کی بینائی موتیا کا آپریشن نہ ہو سکنے کی وجہ سے جا چکی ہے، اور وہ پتلی لاٹھیوں کے سہارے گلیوں میں ٹھڈے کھاتے پھرتے ہیں۔ اور یہ گاﺅں جہاں بے شمار گھر ایسے ہیں، جہاں دو وقت کے بجائے ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے پکتا ہے، اُس گاﺅں میں پچھلے کئی برسوں سے لاکھوں روپیہ ان آرائشوں کے نام پر اجاڑا جا رہا ہے ہے۔ جن کی عمر صرف ایک دن کی ہے، اور جن کے پیچھے آقائے دو جہاں سرور کونین سے محبت سے زیادہ، نمود و نمائش اور مقابلے بازی کا رحجان زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

اس گاﺅں میں چند مخیر حضرات نے ایک درس کی نیو ڈالی ہے۔ جس میں لڑکیاں دینی تعلیمات حاصل کرتی ہیں۔ یہ درس گاﺅں کی بڑی مسجد کے قاری صاحب اور چند سرکردہ زمینداروں کی زیرِسرپرستی قریباً دس برسوں سے نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے، قربانی کی کھالیں، صدقات، اور سالانہ اجناس کا غالب حصہ اس درس کو دینے کا رواج یہاں عام ہو چکا ہے جبکہ بیواﺅں، یتیموں، بیماروں، محتاجوں اور بھوکے نادار لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اس گاﺅں کا وسیع و عریض قبرستان، چار دیواری سے محروم ہے۔ جہاں نوع نوع کے جانور، کتنے، بلیاں، وغیرہ قبروں کو روندتے لتاڑتے پھرتے ہیں۔ گاﺅں کے عین درمیان میں گندے پانی کا جوہڑ (چھپڑ) ہے، جو طرح طرح کی بیماریوں اور جراثیموں کی افزائش گاہ ہے، ہزا ر بار کہنے کے باوجود کسی مذہبی گروپ، کسی سرکردہ زمیندار نے اس جانب توجہ نہیں کی، کہ اسے بھر کر، اور کچھ نہیں تو کم از کم گلیوں میں رلتے آوارہ بچوں کے لئے ایک کھیل کا میدان ہی بنا لیا جائے، یا پھر کمیونٹی سنٹر، جہاں غریبوں کی بچیوں کی باراتیں اترا کریں۔ میں اس گاﺅں میں ایک ایسی مجبور عورت کو جانتی ہوں، جس کا شوہر اسے چھوڑ کر جا چکا ہے، اور جسے پانچ عدد بچوں کے ساتھ زمیندار نے یہ کہہ کر کچے کوٹھے سے نکال دیا کہ یہاں مجھے مویشی باندھنا ہیں۔ یہ عورت دو دن اپنے مختصر سامان اور بچوں کے ساتھ گلی میں بیٹھی رہی، کسی نے اسے پناہ نہ دی، تیسرے دن ایک درد مند شخص نے بھاگ دوڑ کر کے اسے ایک عارضی قیام گاہ میں ٹھہرایا۔ یہاں اس جیسی بے شمار مثالیں ہیں، جنہیں دیکھتے ہوئے، مجھے عید میلادالنبی جیسے پُر فضیلت اور بابرکت دن کے تقدس اور احترام کو پُراسراف، اور ظاہری پہلوﺅں سے نمائشی بنانے والوں کو دیکھ کر باقاعدہ تکلیف ہوتی ہے۔ کہ میں جس عظیم الشان نبی کی امتی ہوں، ان کی شان یہ تھی کہ آپ یتیموں اور بیواﺅں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ بوڑھے لاچاروں کے لئے آسانیاں پیدا فرماتے تھے۔ غریبوں کی دست گیری فرماتے تھے۔ خود سادہ زندگی گزارتے تھے اور سادگی کا درس دیتے تھے۔ آپ کی تعلیمات کا خلاصہ، سادگی، ایثار، محبت، ہمدردی، درگزر، مہربانی اور اخلاص جیسی اخلاقی صفات کا خلاصہ ہے۔ آپ رسو ل اللہ کی حیاتِ طیبہ فقر کا نمونہ ہے۔ اسراف کو آپ نے سخت ناپسند فرمایا ہے۔ جس کا ہمسایہ بھوکے پیٹ سو جائے اور اس کا پیٹ بھرا ہو، اس کی سخت مناہی فرمائی ہے۔

آپؐ رسول اللہ سے محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ نہیں کہ بیواﺅں، یتیموں، محتاجوں اور مفلس نادار لوگوں کی مدد کے بجائے، پھول، پتیوں، آرائشی دروازوں اور دیگر سجاوٹی اشیاءپر لاکھوں روپیہ پھونک دیا جائے۔ جبکہ یہ روپیہ ان محتاجوں کی زندگیاں آسان کرسکتا ہے، جو ایک وقت کی خوراک اور ایک وقت کی دوا کو ترستے ہیں۔ اگر میں غلطی پر نہیں تو، میرے نصیب میں آپ کا اسوہِ حسنہ اور تعلیمات کا جو حصہ آیا ہے، وہ انسان دوستی کا ہے۔ اس انسان میں مذہب و ملت، فرقہ و مسلک، ذات پات، رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہیں، اسی لئے میرے ذی شان نبی رحمت اللعالمین کہلائے۔ محسنِ انسانیت کہلائے۔ انسان تو انسان، جانوروں پر بھی رحم کا یہ عالم، کہ فتح مکہ کے موقع پر، اسلامی فوجوں کا راستہ عین روانگی کے وقت محض اس بناءپر تبدیل کردیا، کہ مقررہ راستے پر ایک کتیا نے بچے دے رکھے تھے، اور وہ وہاں سے ہٹنے کو تیار نہ تھی۔ اب بتائیں، میں کیا کروں؟ کہ میرا دل اپنے ذی شان نبی کی ولادت کا جشن اس سے بھی زیادہ دھوم دھام سے منانے کو چاہتا ہے، جس طرح میرے گاﺅں کے لوگ مناتے ہیں۔ مگر وہ پھٹے لباسوں والی بیوائیں، وہ ادھ ننگے بچے ، وہ ٹھڈے کھاتے بوڑھے، وہ فاقہ زدہ مفلس لوگ، جن کے چولہے ٹھنڈے ہیں، کیا ان حالات میں مجھے 50 ، ساٹھ یا پھر 80 لاکھ روپیہ، پھول، پتیوں، آرائشوں اور ایسی مقابلے بازی کی فضا پیدا کرکے، محض اک چھوٹا سا اعزاز حاصل کرنے پر ضائع کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیا ایک بھوکے کو کھانا کھلانا۔ ایک یتیم کے تعلیمی اخراجات اٹھانا۔ ایک بیوہ کی مدد کرنا کسی اعزاز سے کم ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments