دھند میں لپٹے شفاف جذبے


\"\"تعلق بھی عجیب ہوتے ہیں جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ مکمل طور پہ دم توڑ چکے ہیں تو زندگی کے دروازے پہ دوبارہ سے دستک دینے لگتے ہیں انسان سوچتا ہے کہ دروازہ کھول دے یا انہیں مایوس لوٹا دے۔ دل یہ کہتا ہے کہ موقع دو تجربہ بتاتا ہے لوٹ کے دیکھنا حماقت ہو گی۔ کون پتھر کا ہونا چاہتا ہے؟ کون ذی روح ہے جو زندگی کی تیز رفتاری کا ساتھ گرتے پڑتے دینے کی کوشش نہیں کرتا؟ سبھی کرتے ہیں لیکن وہ جو راستے میں ساتھ چھوڑ جائیں جن کے لیے وقت کے تقاضے محبت اور رکھ رکھاؤ سے بڑھ کے ہوں لوٹ آئیں تو کیا کیجیے؟ احساس مروت سے انہیں خوش آمدید کہا جائے تو دل میں پھانس سی لگتی ہے کہ وہ جو دل میں بلند مقام پہ تھے اب کہاں آ پہنچے کہ ان کا ساتھ دینے کے لیے دل پہ پتھر رکھنا پڑ رہا ہے۔ آنکھیں خوامخواہ بھیگنے لگتی ہیں۔ دماغ کا تقاضا ہے کہ سوال کرو واپسی کیونکر؟ دل یہ کہتا ہے جسے آسمان کی بلندی پہ رکھا اسے شرمندہ کر کے کیوں زمین پہ لا پٹخنا ہے؟ جنگ جاری ہے۔ نہ دل آمادہ مصلحت ہے نہ دماغ پیچھے ھٹنے کو تیار۔

تم میرے دروازے پہ آئے ہو تو ماضی کا ہر در کھل کیا ہے۔ تمہیں یاد ہے وہ وقت جب میرے دل کے کورے کاغز پہ تمہارا نام لکھا تھا۔ مجھے تب محبت کے معنی بھی نہیں معلوم تھے یہ تک نہیں جانتی تھی کہ محبوب کیا ہوتا ہے؟ بس اتنا پتا تھا تمہارے نہ ہونے سے مجھے بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ میں لاشعوری طور پہ تمہارے آنے کا انتظار کرتی تھی۔ اور تمہیں بغیر دیکھے تمہاری موجودگی کو محسوس کر لیتی تھی۔ تم نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تمہیں میری باتیں، حرکتیں سب بچپنا لگتا تھا۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب تمھارے بے تحاشا ذکر پہ مجھے میری دوست نے تمھارے نام سے چھیڑا تھا۔ محبت کا وہ پہلا احساس کتنا خوش کن تھا جیسے کائنات کا کوئی حسین راز اچانک سے آشکار ہو گیا ہو۔ دنیا ایک دم کتنی حسین لگنے لگی تھی۔ ایک ایسے مسحور کن احساس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا کہ جس سے نکلنے کی نہ خواہش تھی نہ ہی ادراک ہر طرف تم ہی تم تھے۔ خیال میں، بے خیالی میں تصور ہی تصور میں تم سے بے تحاشا باتیں کرنا۔ تمہیں سوچنا کس قدر باعث فرحت تھا۔ کتنا یقین تھا دل کو کہ تم میرے ہو، اتنے میرے کہ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں۔

پھر وقت بدل گیا۔ ہر منظر بدل گیا تم نے شاید کبھی سمجھا نہیں تھا یا سمجھنا چاہتے ہی نہیں تھے۔ بے لوث محبت کہ جس کا کوئی تقاضا تھا نہ توقعات۔ تمھاری نظر میں احمق بچی تھی اور بس۔ تمہیں محبت ہوئی تو میری ہی سب سے اچھی سنجیدہ سی دوست سے۔ میں بیان نہیں کر سکتی اس جلن اور دکھ کو جس دن میں نے تمھاری ڈائری پڑھی۔ مجھے یاد نہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو تھے یا صدمے کی وجہ سے دھندلاہٹ کہ مجھ سے ٹھیک سے کچھ پڑھا نہیں جا رہا تھا۔ تب مجھے پتہ چلا کہ دنیا میں حسد نام کا بھی کوئی جذبہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی سب سے پیاری ہستی سے۔ وہ جو دکھ سکھ کی ساتھی تھی۔ حد ہو گئی۔ صدمہ اتنا شدید تھا کہ میری زبان گنگ ہو کے رہ گئی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کس سے کہوں کسے حال دل بتاؤں۔ تم سے کہنا بے معنی تھا کہ تمھارے دل میں کوئی اور آ بسا تھا۔ کسی اور سے کہنا میری محبت کی توہین ہوتی۔ اسی کیفیت میں تھی کہ تم دوست کے شوہر کے روپ میں سامنے آ گئے لیکن اب مجھے تمہارا خود سے باتیں کرنا زہر لگنے لگا تھا۔ مجھے تمہارا سامنا کرتے ہوئے تکلیف ہوتی۔ میری کائنات چھن گئی تھی۔ میری حسین دنیا کا ہر منظر دھواں دھواں ہو گیا تھا۔ دل و دماغ خالی تھے۔ اندر خالی پن کی دھند پھیل گئی تھی۔ تم کیا جانو کیسا لگتا ہے جب ایک بچے سے اس کا پسندیدہ ترین کھلونا چھین لیا جائے۔ پھر دنیا بھر کی نعمتیں، خوشیاں کھلونے اس کا مداوا نہیں کر سکتے۔ تم میرا وہی کھلونا تھے جو مجھے کسی اور کے ہاتھوں میں دیکھنا میری برداشت سے باہر تھا۔

مصروفیت ظالم ہے یا مہربان آج تک سمجھ نہیں پائی لیکن میری ساتھی ضرور ہے اچھے برے وقت کی۔ کم از کم مجھے اتنا الجھائے رکھتی ہے کہ بھولی بھٹکی یادیں ذہن پہ دستک نہیں دینے پاتی۔ تمہیں یاد کہنا بھی زیادتی ہو گی کہ تم میرے ہر سو ہو۔ لیکن میری محبت ولیوں والی نہیں تھی اسے بدلہ چاہیے تھا۔ آج برسوں بعد جب نہ وقت ہے نہ فرصت کہ تمہارے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما جائے تم میرے دروازے پہ آ کھڑے ہو۔ محبت کی بھیک مانگنے۔ تمہیں کتنا یقین ہے کہ خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹو گے۔ تم یہ کہتے ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ میں سوچتی ہوں مرد کی محبت بھی عورت سے مختلف ہے۔ تمہارے دل میں ایک کے بعد ایک اور کی گنجائش کیسے نکل آئی؟ تم خود کو مجھے سونپنا چاہتے ہو، چاہتے ہو تمہارا ہر غم میری محبت سے مٹ جائے لیکن یہ نہیں سمجھ سکتے کہ عورت کو محبت میں دل میں پہلی جگہ چاہیے۔ جسمانی قرب میں پہلا ہونے کی خواہش مرد کی ہوتی ہے عورت تو دل کی حکمرانی چاہتی ہے۔ میں اپنے دل کا کیا کروں اسے کیونکر آمادہ کروں کہ دھند میں کھوئے اس شخص کو اپنا لے جو اچھے وقتوں میں ساتھ چھوڑ گیا تھا۔ جس نے محبت کے معنی بدل دیے تھے، جس نے وہ خوشی چھین لی تھی جو اسی کی وجہ سے تھی۔ کتنا عجیب تضاد ہے نا یہ بھی کہ وہ لوگ جو خوشی کا باعث ہوتے ہیں غم بھی انہیں کی وجہ سے ملتے ہیں۔ میں تمہیں دیکھتی ہوں اور سوچ میں ڈوب جاتی ہوں۔ تم میرے جواب کے منتظر ہو۔ لیکن اس بے اعتمادی کا کیا کروں جو اتنے سالوں میں میری رگ و پے میں اتر آئی ہے۔ بھروسہ کسے کہتے ہیں اس کا شعور ہی نہیں رہا۔ وہ بھروسہ ہی تو تھا بن کہے تم سب سمجھو گے لیکن کیا ہوا وہ اعتماد؟ میری ذات کا غرور ٹوٹ گیا۔ میں تنہا ہو گئی۔ تم آج بھی میرے محبوب ہو لیکن وہ دیوتا نہیں جسے میں نے دل میں سب سے بلند مقام دیا تھا۔ تمہاری قرب کی خواہش تو تب بھی نہیں تھی۔ لیکن یہ مجھ سے پہلے کسی اور محبت سے لبریز دل میں کیونکر سنبھال پاؤں گی۔ کیسے تمہیں اپنا سکتی ہوں کہ جبکہ مجھے معلوم ہے میں تمہارے دل پہ راج کرنے والی پہلی عورت نہیں۔ تم اگر میری سوچ پڑھ سکتے تو تمسخر اڑاتے کہ عورت اور یہ غرور۔ تو عورت میں یہ غرور ہے اسے دل کی حکمرانی چاہیے جسم کی نہیں۔ میرے محبوب ہو سکے تو پہلی اور آخری بار میری خاموشی کو سمجھ جاؤ اور لوٹ جاؤ کہ مجھ سے یہ نہیں ہو پائے گا کہ میں جو اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پائی تو کیونکر تمہیں لوٹ جانے کا کہہ پاؤں گی۔ لوگ صحیح کہتے ہیں عورت کو سمجھنا مشکل ہے۔ لیکن سچائی یہی ہے یہ اپنی ذات میں خالق ہے تو محبت میں بھی شرکت نہیں چاہتی۔ تو میرے محبوب میرے جذبوں کی شفافیت بچا لو اور لوٹ جاؤ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments