ہوا، کھڑکی اور میں


دسمبر کی یخ بستہ شام تھی۔ میں کمرے میں بیٹھا تھا کہ جس کا دروازہ کنڈی سے بند نہ تھا۔ اچانک ہوا کا جھونکا بغیر اجازت دروازہ کھولے اندر آ گیا۔ مجھے ہوا کے جھونکے کی یہ حرکت نا گوار گزری اور اس کی بغیر اجازت آمد کو اپنی ہتک محسوس کیا۔ میرے احساسات کو جھونکے نے فوراً بھانپا اور گویا ہوا

” جناب کفایت صاحب خفا مت ہوئیے ہم تو آپ سے دکھ بانٹنے کو خود تشریف لے آئے آخر خود نہ آتے تو کیا کرتے؟ تمہارے پاس تو وقت ہی نہیں کہ ہم سے دریافت کرتے کہ ہماری خوشبو کے رنگ کیوں ختم ہوئے“

میں نے جب جھونکے کا یہ شکوہ سنا تو غصہ تھوکا اور ان کے دکھوں کے احوال دریافت کیے اور با ادب عرض کیا کہ

” جناب میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کی آمد پر خفا ہوا لیکن حضور آئیے کہ میں آپ کے دکھ سنتا ہوں“
خیر وہ میرے پہلو میں بیٹھ گئے، میں نے احتراماً کمبل پیش کیا تو کہنے لگے کہ

” ہمیں ان مادی چیزوں کی ضرورت نہیں یہ آسانیاں تو خدائے مہربان نے تمہارے لیے خلق کی ہیں اور ان سے لطف اندوز ہوئیے مگر۔ آہ! تم۔“

میں نے جب جھونکے کا یہ درد بھرا لہجہ دیکھا تو مجھے تشویش ہوئی اور میں نے دکھوں کا تزکرہ چھیڑا اور دریافت کیا کہ

” وہ کون سے دکھ ہیں جن کی وجہ سے آپ کی خوشبو باقی نہ رہی؟“
تو جھونکے نے میری سنجیدگی دیکھتے ہوئے اپنی کہانی شروع کی

” کفایت دکھ ایک نہیں ہے۔ اگر میں دکھوں کو زمین پر قطار در قطار کھڑا کروں تو زمین کم پڑ جائے۔ اگر تم سننا چاہتے ہو تو سنو، میں ابھی تمھاری طرف آتے ہوئے ایک گاڑی میں چپکے سے داخل ہو گیا جس میں دو نوجوان سفر کر رہے تھے ایک کار ڈرائیو کر رہا تھا اور دوسرا اپنی لکھی ایک تحریر سنا رہا تھا۔ جس میں اس نے ایک بہت کرخت جملہ بولا کہ“ ہم قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں ”کچھ ہی لمحوں بعد ہمیں اس پر شدت کی ندامت ہوئی جب اس نے ایک دوست سے کسی شخصیت سے ملاقات کے لیے رقم کا مطالبہ کیا مگر اس شخصیت نے ایک آنے کی ڈیمانڈ نہیں کی۔ بتاو کفایت کہ ایسے شخص کو حق ہے کہ وہ قوم کو ہجوم قرار دے؟“

میرا اس سوال پر سر جھکا ہوا تھا اور نفی میں حرکت کر رہا تھا۔ میں چپ رہا مگر جھونکے نے سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہا

” کفایت سنو یہ مسئلہ تو ہے ہی کہ وہ حرام کما رہا ہے اور ستم یہ کہ اوروں کہ بارے میں حد درجہ بدگمان ہے۔ کفایت تم نہیں جانتے کہ ہم کس قدر اذیت میں رہتے ہیں ان بد گمانیوں کی وجہ سے۔“

میں نے بات کو ٹوکا اور پوچھا کہ
”لوگ بد گمانیوں تک محدود ہیں یا اور بھی مسائل ہیں؟“
تو جھونکا گویا ہوئے کہ
” اللہ اللہ۔ ! مسائل۔ انبار ہیں مسائل کے، پوچھو اس کھڑکی سے“

جب جھونکے نے کھڑکی کو شامل کیا تو کھڑکی نے آنسو بہانا شروع کر دیے اور بہتے آنسؤوں کے ساتھ مخاطب ہوئی کہ

” کیا غم بیان کروں کہ جس جگہ بھی رہتی ہوں اذیت میں رہتی ہوں میرے پاس جتنی بھی سہیلیوں کے پیغامات پہنچتے ہیں ان میں اکثریت اپنے کمرے میں رہنے والے انسانوں سے خوش نہیں ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایوان بالا میں رہنے والی ایک سہیلی نے خط لکھا جس میں اس نے لکھا کہ اے بڑی بی میں تو خون کے آنسو رو رہی ہوں کیوں کہ کمرے میں کچھ اور ہوتا ہے اور عوام کو کچھ اور بتایا جاتا ہے۔“

اس بات کے ساتھ ہی کھڑکی کی ہچکی بندھ گئی اور آنسو روانی کے ساتھ گرنے لگے مجھ سے یہ دیکھا نہ گیا اور ہوا کے جھونکے سے گزارش کی کہ کھڑکی کو دلاسا دیجئیے جھونکے نے کھڑکی کو دلاسا دیا اور کہنے لگا کہ

” سنو اب وہ داستانیں سنو کہ جس کو ہم نے اور کھڑکی نے مل کر جھیلا ہے“ اور بولے کہ ”ہم نے ایک ڈاکٹر کو دیکھا کہ جو ہر مریض کو طے شدہ کمیشن والی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کے لیے بول رہا تھا۔ سنو ہم نے ایک سیاست دان کی ایک ٹھیکیدار سے گفتگو سنی جس میں وہ پوچھ رہا تھا کہ ایک ٹینڈر میں کتنے فیصد حساب رکھو گے؟ کفایت کھڑکی سے قسم لے لو وہ بھی موجود تھی، ہم بے ہوش ہو کر گر پڑے یہ دیکھنے کے بعد کہ ایک بیوروکریٹ کے کہنے پر سات بہنوں کے اکلوتے بھائی کے قاتل کو رہا کر دیا گیا۔ مگر ایک غریب ریڑھی بان کی ریڑھی ضبط کر لی گئی صرف اس وجہ سے کہ وہ مین چوک میں کھڑا تھا اور وقت کے حکمران کے راہ میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔“

یہ باتیں کرنے کے بعد جھونکا خاموش ہو گیا اور کھڑکی بھی لمحات میں گم ہو گئی۔ میں نے خاموشی کو توڑتے ہوئے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا اور جھونکے سے پوچھا کہ

” آپ میں خوشبو کس طرح واپس لوٹ سکتی ہے؟“
تو جواب ملا کہ

” سنو کفایت! خوشبو اس وقت لوٹ سکتی ہے جب تم نے کھڑکی کے دکھ سننا شروع کر دیے، جب تم نے میری راحت اور نارضگی کا احساس پیدا کر لیا، جب تم نے اپنے قلم کو مشہوری کے لیے نہیں بلکہ ہماری خوشبو کے لیے چلایا۔ کفایت! تم اس وقت تک ہمارے نزدیک بہرے ہو، اس وقت تک ہمارے لیے گمراہ ہو، اس وقت تک ہمارے لیے اندھے ہو، اپاہج ہو، گونگے ہواور بے شعور ہو

جب تک تم خاموش مجبور کی مجبوری نہیں سنو گے، جب تک تم انسانوں کو معنوی نظروں سے دیکھنا شروع نہیں کر دیتے، جب تک تم اپنے قدم دنیا میں رنگ بھرنے کے لیے نہیں اٹھاؤگے، جب تک تم ہمیں سننے کے قابل نہیں ہو جاتے اور جب تک تم ہواؤں سے، کھڑکیوں سے گفتگو کر کے ان کی خوشبو کے مر جانے کا قصہ دریافت نہیں کر لیتے۔ اچھا آخری بات ذہن نشین کر لو کہ یہ فطرت کا فیصلہ ہے کہ تم رحم کرو گے تو تم پر رحم کیا جائے گا۔”

بس پھر میں ندامت کے دریا میں اس قدر ڈوبا کہ مجھے معلوم نہیں کہ جھونکا کب اٹھ کر چلا گیا اور کھڑکی پر سکون ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).