41 سال سے امریکہ میں مقیم پاکستانی اداکار یونس پنوار گجرات کالج کے اساتذہ کو کیوں یاد کرتا ہے؟


امریکی ریاست البامہ سے یونس پنوار کی مجھے نیویارک میں میسنجر پر کال تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات کے سابق پروفیسر وقار حسین طاہر صاحب کی وفات کا سن کرافسوس ہوا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے خصوصی طور پر کال مجھے گجرات سے تعلق رکھنے اسی کالج کے اپنے دو اور پروفیسروں، رانا صفدر علی اور پروفیسر وسیم بیگ مرزا صاحب کے متعلق جاننے کے لیے کی ہے۔ کیونکہ وہ دونوں 1979 ء میں فرسٹ ائر میں ان کے موسٹ فیورٹ استاد رہے ہیں۔

جب میں نے یونس پنوار کو بتایا کہ ہمارے مشترکہ اور مذکورہ دونوں پروفیسر ماشاءاللہ حیات ہیں۔ تاہم بزرگی اور عمر کے اس حصے میں حملہ آور بیماریوں کی وجہ سے دونوں نامور اساتذہ آج کل صاحب فراش ہیں۔

اپنے پسندیدہ پروفیسرز کے حیات ہونے کا سن کر یونس پنوار کی آواز سے واضح طور پر محسوس ہوتا والہانہ جوش اور مسرت دیدنی تھی۔ وہ بار بار مجھ سے درخواست کر رہا تھا کہ میں اسے اپنے ان اساتذہ کے ٹیلی فون نمبر فراہم کروں تاکہ وہ ان سے بات چیت کر سکے۔ جنھیں اس نے اکتالیس سال سے نہ تو دیکھا ہے اور نہ ہی ان کی آواز سنی ہے۔ وہ زندگی کے بکھیڑوں میں ایسا کھویا کہ اپنے ان شفیق اساتذۂ کرام کو فراموش کیے رہا۔ آج جب اسی کالج کے ایک پروفیسر کی وفات کی خبر سنی تو لاشعوری طور پر فوراً اس کا دھیان انہی کی طرف چلا گیا۔

یونس پنوار کم و بیش چالیس منٹ پر مشتمل اپنی اس کال میں زیادہ تر وقت اپنے ماضی کے ان نامور اساتذہ کی حسین اور خوشگوار یادیں مجھ سے شیئر کرتا رہا۔

پروفیسر رانا صفدر علی کا اردو نثر اور شاعری پڑھانے کا انداز اور پروفیسر وسیم بیگ مرزا کی انگریزی ادب پر گرفت اور ان کے کلاسک، خصوصاً ڈرامیٹک سٹائل میں لیکچر دینے کے انداز پر وہ دیر تک واہ واہ کر کے انہیں داد تحسین پیش کرتا رہا۔ بقو ل فانی بدایونی!

ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

ہاں یاد آیا! پروفیسر رانا صفدر علی صاحب اکثر اردو کلاسز پڑھاتے ہوئے نوجوانوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ دلاتے رہتے تھے۔ اور اکثر انہیں اس قسم کے اشعار سنا کر مجمع باندھ دیا کرتے تھے۔

اپنے اپنے کالج دور میں ان دونوں اساتذہ سے میری اور یونس پنوار کی محبت مشترک ہے۔ کیونکہ مذکورہ اساتذہ اسی کالج میں 1982 تا 1985 میرے بھی استاد رہے۔ اور بعدازاں دونوں اس کالج میں پرنسپل بھی تعینات رہے۔ یونس پنوار 1979 ء سر سید کالج گجرات کا طالب رہا۔

یونس پنوار کالج میں تو مجھ سے تین چار سال سینئر تھے۔ تاہم اپنے ڈیل ڈول اور سمارٹ وضع قطع سے ابھی بھی بہت سوں سے زیادہ جوان نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مشہور زمانہ اداکار مرحوم محمد علی کے معروف مکالمے ”امی امی میں نے بی اے کا امتحان پاس کر لیا ہے“ کے مصداق، اپنے یونس پنوار اب بھی فلموں میں ”ہیرو“ کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔

مولانا الطاف حسین حالی کا یہ شعر ت پروفیسر رانا صفدر علی صاحب اکثر گنگنایا کرتے تھے، خصوصناً اس کا آخری مصرعہ

کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو اٹھتی جوانیاں ہیں۔

پروفیسر رانا صفدر علی اپنی زندگی کا یہ واقعہ تو بڑے فخر سے ہمیں سنایا کرتے تھے کہ جب انہوں نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ تو وہ اپنے محلے کے اس وقت تک واحد لڑکے تھے جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ ان کے بی اے پاس کرنے کی خوشی میں ان کی والدہ نے اس موقع پر سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔

یونس پنوار 41 سال پہلے، کالج سے نکلنے کے باوجود پروفیسر وسیم بیگ مرزا صاحب کے پڑھانے کے سٹائل اور دوران لیکچر ان کے ڈرامائی اور محسورکن انداز بیاں سے ابھی بھی اپنے آپ کو محسور پا رہا تھا۔

آئیے آپ کو ماضی میں گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات کے طالب علم رہے یونس اور آج کل امریکہ کی ریاست البامہ کے شہر برمنگھم میں مقیم ایک کامیاب بزنس مین اداکار، پروڈیوسر، اور فلم ڈائریکٹر یونس پنوار کی زندگی کی کہانی انہی کی زبانی سناتے ہیں۔

یونس پنوار کے بقول وہ 1960 ء کی دہائی میں گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد میں پیدا ہوئے۔ اسی شہر کے ایم سی ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1979 ء میں وہ گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات میں فرسٹ ائر ( پری انجنئیرنگ) میں داخل ہوئے۔

اس کالج انہیں بہت اچھے اساتذۂ سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا جن میں پروفیسر رانا صفدر علی، پروفیسر وسیم بیگ مرزا، فزکس کے پروفیسر ارشاد صاحب، میتھمیٹکس کے شیخ حفیظ صاحب اور دیگر اساتذہ قابل ذکر ہیں۔

تاہم سر سید کالج گجرات میں چند ماہ پڑھنے کے بعد انہیں کسی وجہ سے گجرات سے اپنی مائیگریشن کروا کر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہونا پڑا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ بی۔ ایس پیٹرولیم انجنئیرنگ کرنے کے لیے یونیورسٹی آف انجینئرنگ (یو ای ٹی) لاہور میں داخل ہوئے۔ وزیر آباد کے علاوہ چونکہ ہماری ایک رہائش گاہ لاہور میں بھی تھی۔ اس لیے انہیں لاہور رہائش وغیرہ کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

یونس پنوار کے بقول انہیں اداکاری کا شوق سکول کے زمانے ہی سے پیدا ہو چکا تھا۔ لاہور آنے کے بعد ان کا یہ شوق انہیں پی ٹی وی سنٹر لاہور لے گیا۔ جہاں انہیں مختلف ڈراموں میں چھوٹے موٹے رول ملنے لگے۔ اداکاری چونکہ میرا شوق تھا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنا تعلیمی سلسلہ بھی بدستور جاری رکھا۔

بی ایس سی پیٹرولیم انجنئیرنگ کرنے کے بعد انہیں اپنی تعلیم سے ہی متعلقہ اور گورنمنٹ کے محکمے آئیل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (او۔ جی۔ ڈی۔ سی) میں انجنئیر کی ملازمت مل گئی۔ جو لاہور سے دور ملک کے دیگر حصوں میں تھی۔ اور چند سالوں بعد تبادلے کی صورت میں جگہ بدلتی رہتی تھی۔

یونس پنوار کے بقول زیادہ عرصہ سرکاری ملازمت میں ان کا دل نہ لگا تو پھر دوبارہ شعبہ اداکاری کی جانب واپس لوٹ آیا۔ اپنے وقت کے تمام بڑے اور بیسٹ اداکاروں کے ساتھ انہیں مختلف اوقات میں پی ٹی وی کے ڈراموں میں کام کرنے کے مواقع میسر آئے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے بہت سے ڈراموں میں کام کیا۔ جن میں خاص طور پر 1998 ء میں آن ائر ہوئے، اصغر ندیم سید کے لکھے اور پروڈیوسر مرحوم نصرت ٹھاکر کے بنائے ڈرامے ”غلام گردش“ نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ اس دوران ان کا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تو وہ کافی دفعہ انگلینڈ آتے اور واپس جاتے رہے۔

تاہم 1997 ء میں بالآخر امریکہ آمد ہوئی۔ اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ کسی نے درست کہا ہے کہ ”امریکہ کی کشش اکثر آنے والوں کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہے“ ۔ اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

یونس پنوار نے بتایا کہ گزشتہ 23 سال سے ان کی زندگی کا زیادہ عرصہ امریکہ میں ہی گزرا ہے۔ اس دوران انہوں نے کئی قسم کی جابز اور بزنس بھی کیے ہیں۔ لیکن ان سب کے ساتھ ان کے اندر بسے ان کے اداکاری کے شوق بلکہ ”ٹھرک“ نے ان میرا پیچھا نہیں چھوڑا۔

یہاں امریکہ کے بعض مقامی ایکٹرز اور پاکستانی اداکاروں کے اشتراک سے وہ فلمز کے مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ جن میں حالیہ عرصے میں بنائی جانے والی مختصر دورانیے کی ٹیلی فلمز اور ویب سیریز بھی شامل ہیں۔ جو اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ جن میں قابل ذکر حال ہی میں جموں کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف بنائی جانے والی ایک فلم ”کرفیو“ بھی شامل ہے۔ جو آئندہ ماہ ریلیز ہو گی۔

اس کے علاوہ جنسی ہراسانی کے موضوع پر بھی وہ ایک شارٹ فلم بنا رہے ہے۔

امریکہ میں مقیم دیگر کمیونٹیز کی طرح پاکستانی کمیونٹی سے وابستہ بہت سے پاکستانی بطور ٹیکسی ڈرائیور بھی کام کرتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیورز کے مسائل اور اس پروفیشن سے متعلقہ دیگر خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہوئی ان کی ویب سیریز فلم ”ٹیکسی ڈرائیور“ بھی زیر تکمیل ہے۔ جس کی ڈائریکشن اور پروڈکشن سے لے کر اس میں ٹیکسی ڈرائیور کا مرکزی رول بھی وہی ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختصر دورانیہ پر مشتمل ویب سیریز کے کئی اور پراجیکٹس پر بھی کام جاری ہے۔

یونس پنوار کا کہنا ہے کہ انہوں نے تعلیم تو پٹرولیم انجنئیرنگ کی حاصل کی تھی، مگر دوران تعلیم اور بعدازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر چھپے ایک آرٹسٹ کو نہیں مار سکے۔ امریکہ آ کر انہوں نے بھی اور پاکستانیوں کی طرح کئی قسم جابز اور کاروبار بھی کیے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود وہ اپنی اداکاری کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ نیا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

اب وہ بطور اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کے، شارٹ سٹوریز پر مشتمل ویب سیریز سمیت دیگر فلمز بنا رہے ہیں۔ جن میں ان کے ساتھ کئی ایک امریکی اداکار بھی کام کر رہے ہیں۔ کم سرمایے اور کوڈ۔ 19 کی وجہ سے انہیں تھوڑی دقت کا سامنا تو ضرور کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ کسی بھی فلم کی پروڈکشن بڑے سرمایہ کی متقاضی ہوتی ہے۔

امریکہ سے انہیں کئی ایک اچھے ایکٹرز، کیمرا مینوں سمیت دیگر ٹیکنیکل شعبوں سے متعلقہ سٹاف کی بھرپور اعانت حاصل ہے۔ بلکہ بہت سوں سے تو اب ان کی ذاتی دوستیاں بھی بن چکی ہیں۔ یونس پنوار کہتے ہیں کہ امریکہ سمیت بیرون ممالک میں مقیم جو بھی اوورسیز پاکستانی آباد ہیں۔ ان میں سے اکثریت اپنے اپنے شعبوں مثبت کام کر رہے ہیں۔ روایتی سفارت کاروں کی بجائے دراصل یہی اوورسیز پاکستانی حقیقی معنوں میں اپنے ملک کے اصلی سفیر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).