ایواکاڈو کی کاشت اور ہمارا سیاسی کولمبس


ستر کی دہائی میں جب خلیجی ممالک نے امارت کے ثمرات سے لطف اندوز ہونا سیکھا تو انہیں خواہشات کی تکمیل کے لیے افرادی قوت وطن عزیز نے بہم پہنچائی۔ تب عام مزدور کی قسمت بھی کسی قدر بدلی اور وہ پختہ گھر کے خواب کی تعبیر کو ممکن سمجھنے لگا۔ یوں ایک سہانے مستقبل کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک بڑی تعداد جوانوں کی سمندر پار چلی گئی۔ ایسے ہی چند دوست ان بیتے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے واقعہ بیان کر رہے تھے کہ پاکستان سے نئے نئے آمدہ دوست کو کمرے میں چھوڑ کر کام پر نکل گئے اور اسے وقت گزاری کے لیے قریبی بازار سے سبزی خرید کر کھانا بنانے کی ذمہ داری تفویض کر دی۔

واپسی پر حسب روایت پہلا سوال یہی تھا کہ کیا بنایا ہے؟ جواب آیا ’سیب‘۔ ہم سمجھے شاید کچھ غلط فہمی ہوئی ہے لہذا سوال دہرا دیا۔ دوبارہ جواب آیا ’سیب‘ ۔ ہم نے ہونق بن کر استفہامیہ نگاہوں سے انہیں تکا تو وہ گویا ہوئے، بھائی بازار میں سیب اور آلو ایک ہی بھاؤ بک رہے تھے، میں نے سوچا آلو تو بہت کھا لیے کیوں نا آج کچھ بہتر کھا لیا جائے۔

کل ہی ایک خطاب سنا کہ جس میں ایک حضرت کچھ اسی قسم کا ارشاد فرما رہے تھے کہ ایواکاڈو (ناشپاتی سے ملتا جلتا میکسیکن پھل) ایک بہترین سبزی ہے جس کی پیداوار پاکستان میں نا صرف ممکن ہے بلکہ انہوں نے اگائی ہوئی بھی ہے۔ جی ہاں یہ آج تک بطور پھل ہی استعمال ہوتا رہا مگر مشرق کے اس آفتاب نے دنیا کی تاریکی دور کر دی اور مغرب کے فریب کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایواکاڈو کا اصل مرتبہ بحال کر دیا اور اسے سبزی کے منصب پر فائز کر دیا۔

شاید اس طرح وہ افلاس زدہ، بھوک سے ماری دنیا (یا کم از کم صحرائے تھر کے نوزائیدہ بچوں) کی مسیحائی کا کوئی جامع منصوبہ بھی ترتیب دے چکے ہوں۔ نہیں! یہ حسن ظن قطعاً نہیں کیوں کہ اس سے قبل وہ مرغی، انڈہ، بکری اور بیری کے درخت لگا کر ان پر شہد کی مکھیوں کی افزائش کر کے شہد حاصل کر کے زرمبادلہ کے انبار لگانے جیسی انقلاب آفریں اقتصادی پالیسیاں دے چکے ہیں۔ یہ کارہائے نمایاں صرف اقتصادیات و زراعت تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ صاحب خطاب سرزمین ادب میں بھی خاصا عمل دخل رکھتے ہیں اور اپنے وجدان کی بدولت عقدہ کشائی فرما چکے ہیں کہ ٹیگور اور خلیل جبران ایک ہی ہستی کے دو روپ ہیں۔

اس لیے اگر ٹیگور کے لکھے کو خلیل جبران سے منسوب کر دیا جائے تو کوئی عار نہیں۔ یہ انمول رتن شبانہ روز نت نئی دریافتیں کر رہا ہے مگر دنیا اس سے بے خبر ہے یا شاید ازلی بغض کے ہاتھوں مجبور ہو کر آنکھیں موندے پڑی ہے۔ ایک موئے چاند پر جانے کو بڑا کارنامہ گرداننے والے اور دہائیوں سے اپنی کامیابیوں کے ڈھول پیٹ پیٹ کر دنیا کو زیر بار احسان کرنے والے ارضی تبدیلیوں سے کیونکر نا بلد ہیں؟ اہل مشرق سے اتنا پہلوتہی کاہے کو؟

جب تیسری دنیا کا نہتا (یقیناً اقبال اسی مرد مجاہد کے لیے فرما گئے تھے کہ ”بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“۔) جی نہتا۔ سائنسدان بغیر مغرب کی زنگ آلودہ مشینوں کا سہارا لیے محض قوت ارادی کے بل بوتے پر ثابت کرتا ہے کہ جرمنی و جاپان ہمسایہ ہیں تو اس حیران کن انکشاف پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جاتا۔ مغرب کا دجالی میڈیا تو گویا گونگا ہی ہو جاتا ہے۔ نیشنل جیوگرافک والے جو قریہ قریہ کیمرے لیے دوڑتے پھر رہے ہوتے ہیں انہیں بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مگر مجذوب کو اس دنیا داری سے کیا تعلق؟ سو دریافتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ (شاید اس رام کتھا کے اختتام تک چند ایک مزید دریافتیں بھی ہو چکی ہوں ) ۔ ویسے بھی اقبال لاہوری فرما گئے ہیں ثبات اک تغیر کو ہے اس زمانے میں۔

میں سمجھتا ہوں یہ قطعی نا انصافی ہو گی اگر صاحب موصوف کے اس احسان عظیم کا ذکر نا کیا جائے جو کئی سالوں تک اس ملک کو بھوگنا ہے۔ جی ہاں، ان کی عقابی نگاہوں سے مستقبل کا منظر نامہ بھی محفوظ نا رہ سکا، سو انہوں نے پوری ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو ہم جیسے کند ذہنوں کی آبیاری آنے والے کئی سالوں تک کریں گے۔ اس ضمن میں چند دریافتیں اس ہونہار ٹیم کی بھی آپ کے گوش گزار کرتا جاؤں۔ صاحب کے رضاعی حلقہ سے عوام کے نمائندہ نے بھرے مجمع میں تاریخ کے بخیے ادھیڑتے ہوئے فرمایا کہ یوں تو برصغیر میں کئی بادشاہ آئے اور کئی گئے مگر کسی کو یونیورسٹی کے قیام کا خیال نا آیا یا پھر شاید توفیق ہی نصیب نا ہوئی۔

ہاں مگر، سوائے انگریزوں کے جنھوں نے آکسفورڈ جیسی جامعہ کی بنیاد رکھی۔ ٹیم کی ایک اور معزز رکن نے حالیہ وبائی مرض کووڈ 19 کی تشریح کرتے ہوئے اسے 19 اقسام میں تقسیم کر دیا۔ یہیں پر بس نہیں ہوتی، برصغیر میں انگریزوں کی قائم کردہ جامعہ آکسفورڈ کے ہونہار طالب علم بھی انکشافات کی اس دوڑ میں سابقین سے کسی طرح پیچھے نہیں جس کا ثبوت وہ اکثر و بیشتر مہیا کرتے رہتے ہیں مثلاً روسی صدر پیوٹن کا اسرائیلی وزیراعظم کے بت میں حلول کر جانا وغیرہ وغیرہ۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔

مقدور ہمیں کب ہے تیری وصفوں کی رقم۔ یہ محض چیدہ چیدہ نکات فقط مثال کی خاطر ہی پیش کیے ہیں ورنہ ان مقالات کے لیے کئی جلدیں درکار ہوں گی اور وقت کی تنگی آڑے آ رہی ہے۔ تو اے اہل مشرق تھوڑے لکھے کو بہت جانتے ہوئے اٹھو اور حشر بپا کر دو۔ اپنے ان مہان سائنسدان کو امسال ”نوبل“ انعام دلا کر ہی رہیں گے۔ کیا کہا؟ کس شعبے میں؟ کوئی ایک شعبہ ہو تو نام بھی لیں۔ ادب، جغرافیہ، تاریخ، سائنس، اقتصادیات۔ نام لیتے جاؤ حضرت اور خواتین و حضرات کی تحقیق کے در وا ہوتے چلے جائیں گے۔ میں نے تو اپنی سی حقیر کوشش کر دی آپ بھی حقدار کو اس کا حق دلانے میں ہماری مدد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).