ملت کا پاسبان ہے محمدعلی جناحؒ


 

اندھیری شب میں قدم قدم پر، چراغ اس نے جلا دیے تھے ہماری دونوں ہتھیلیوں پر، غلام لمحے سجا دیے تھے وہ جس نے صدیوں کا قرض اپنے، نحیف کندھوں پر رکھ لیا تھا وہ جس نے تنہا چٹان بن کر، عدو کے چھکے چھڑا دیے تھے

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کو ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ تاہم ان کے حسن کردار کے نقوش آج بھی تابندہ ہیں۔ قائداعظم جن ارفع و اعلیٰ صفات کے حامل تھے، وہ آج بھی قوم کے لیے مشعل راہ ہیں۔ بابائے قوم نے پاکستان کے لئے جو جنگ لڑی اس میں ایک طرف انگریزوں جیسی قوم تھی، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا تو دوسری طرف ہندو تھا، جس کے پاس بے پناہ دولت تھی اور جن سنگھ اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی دہشت گرد تنظیمیں تھیں۔

ان کے مقابلے میں ایک نحیف سی شخصیت تھی، جس کے پاس نہ دولت کے خزانے تھے اور نہ خفیہ تنظیمیں تھیں، لیکن اس کے پاس ایک آہنی عزم اور عظمت کردار کی بے پناہ طاقت تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر کو جناح پونجا کے گھر میں پیدا ہوئے جو رسوم ورواج کے پابند تھے ان میں مقابلے کا بھی گہرا رجحان پایا جاتا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی پیدائش کے بعد جن خصوصیات کو ظاہر کیا تھا، ان میں جدوجہد کو سب سے زیادہ نمایاں حیثیت حاصل ہے، وہ کام کام اور صرف کام پر یقین رکھتے تھے۔

اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ ناکامی کا لفظ میری لغت میں موجود نہیں کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اگر کسی مقصد کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے تو رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ محنت پر ایمان رکھتے تھے، اسی لیے انہوں نے کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کیا ان کے خاندان کے بارے میں ممبئی کی دستاویزات میں لکھا گیا ہے کہ وہ مذہب کا بڑا احترام کرتے ہیں، پاکیزگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے، سنجیدہ رہتے ہیں، ہر وقت نئی منزل سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں، یہ ٹھنڈے دماغ کے باحوصلہ لوگ ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح اپنی زندگی کے آغاز میں گوپال کرشنا گوکھلے سے بہت متاثر تھے، اگرچہ وہ انیس سو پندرہ میں وفات پا گئے تھے مگر ان سے قائد اعظم نے بہت کچھ سیکھا تھا کہ ایک تنہا آدمی کیا کچھ کر سکتا ہے، گوکھلے سے انہوں نے یہ سیکھا تھا کہ ایک تنہا آدمی کتنی قوت کے ساتھ اپنے ملک و قوم کے لئے کام کر سکتا ہے اور کس طرح لاکھوں افراد اس سے راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں، وہ گوکھلے کے استدلال، جدیدیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے بہت متاثر تھے۔

اسی جذبے کے باعث انہوں نے ماتحتی کرنے کو مسترد کر دیا تھا، اور نئی قائدانہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی چلے گئے تھے۔ جہاں انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل آف بمبئی میکفرسن کے چیمبر میں ملازمت کر لی تھی، جس کے بعد وہ انیس سو میں پریذیڈنسی مجسٹریٹ بن گئے۔ انہوں نے یہ عہدہ اتنی کامیابی سے چلایا کہ سر چارلس نے یہ درخواست کی کہ وہ یہ ملازمت مستقل طور پر قبول کر لیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پندرہ سو ماہانہ کی یہ پیشکش مستقل طور پر قبول نہ کی بلکہ یہ کہا کہ وہ اتنے روپے روزانہ کمانا چاہتے ہیں۔

جس کے صرف دو سال بعد وہ دو ہزار روپے کما رہے تھے جو 26 سالہ نوجوان کے لیے انتہائی معقول آمدنی تھی۔ انہوں نے پندرہ سو کی ملازمت کو ٹھکرا کر یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ملازمت، ماتحتی اور کلرکی کی بجائے اپنا مستقبل خود بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں اپنی قوت بازو پر پورا یقین تھا۔ وہ سیاست میں پہلی بار کھل کر 1906 ء میں آئے۔ جب کانگریس کے صدر دادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے۔ کانگریس میں شمولیت کا سبب بھی یہی بات تھی کہ دادا بھائی نوروجی آئینی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی کوشش کر رہے تھے۔

جب کہ اسی سال تیس ستمبر 1906 ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ 1909 ء میں قائداعظم ممبئی پریزیڈنسی کے مسلم حلقے سے آئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے، اس وقت آپ کی عمر محض 33 برس تھی۔ 1909 ء میں منٹو مارلے اصلاحات نافذ ہوئیں تو بھی انگریزوں نے ہندوستان میں جمہوریت نافذ نہ کی، جس سے پتہ چلا کہ انہیں با اختیار پارلیمنٹ کی نہیں، درباری طرز کے ارکان کی ضرورت ہے۔ جس پر قائداعظم کانگرس میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کی بات کھل کر کرتے رہے۔

انہوں نے کہا اگرچہ میں ذاتی طور پر جداگانہ طرز انتخاب کے حق میں نہیں ہوں مگر میں یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کی ہمہ گیر اکثریت کی یہ ایماندارانہ اور مقدس رائے ہے کہ جداگانہ انتخاب ہی وہ واحد طریقہ ہے جس میں وہ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ 25 جنوری انیس سو دس کو آپ امپریل لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے اور اپنی موجودگی کا سب کو احساس دلایا۔

17 مارچ 1911 ء کو آپ نے مسلم اوقاف کا بل پیش کر دیا اور اس بل کی منظوری کے لیے دلائل دیے اور بل کے پاس ہونے کے لیے تعاون کی بات چیت کی۔ چونکہ یہ آپ کے دل کی سچی آواز تھی، اس بل کی عملی تکمیل 21 مارچ 1913 ء میں ہوئی۔ مسلم اوقاف بل کا قانون بن جانا کوئی آسان کام یابی نہ تھی، یہ تاریخی ریکارڈ ہے کہ کسی غیر سرکاری رکن کا پیش کردہ بل یوں قانون بن جائے۔ اسی ایک عمل سے قائد کی قابلیت سوچ اور قانونی مہارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے انیس سو تیرہ میں آپ لندن میں تھے کہ وہیں آپ مسلم لیگ کے رکن بنے۔

آپ بیک وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ممبر تھے۔ اس وقت کوئی پابندی نہ تھی۔ دونوں تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے اور یہ احساس ابھرنا شروع ہو گیا کہ جو سرسید احمد خان کہتے تھے وہ ٹھیک ہے۔ کانگریس صرف ہندوؤں ہی کے مفاد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مسلمانوں کو وہ دکھاوے کے لئے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ آپ مسلم لیگ کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے۔ انیس سو سولہ میں آپ کو لکھنؤ کے مقام پر نویں سالانہ اجلاس کی صدارت پیش کی گئی۔

یہ آپ کی مقبولیت اور مسلم احساس کی بنا پر تھا۔ جس میں آپ کو اعزاز صدارت دیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد آپ نے مسلم لیگ میں مزید انقلابی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ پھر آپ نے انیس سو بیس میں مسلم لیگ کے خصوصی اجلاس کلکتہ کی صدارت کی۔ چنانچہ مسلمانوں کے مفاد کی خاطر آپ نے 1920 ء میں ناگ پور کے مقام پر کانگریس سے استعفی دے دیا۔ اب آپ مکمل طور پر مسلمانوں کے مفاد کی خاطر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آ گئے۔ 25 مئی 1924 ء کو لاہور میں 15 ویں سالانہ اجلاس کی صدارت کی۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کے لیڈر بن گئے۔ 24 جنوری 1925 ء آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور 26 نومبر 1926 ء کو مرکزی اسمبلی کے دوبارہ رکن بنے۔ 1927 ء میں دہلی میں مسلم رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی۔ متاع بے بہا ہے، درد و سوز آرزو مندی۔ 1929 ء میں آپ نے اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ 1930 میں پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوئے۔ 1936 میں آپ نے مسلم لیگ کے ممبئی اجلاس میں شرکت کی۔

جس میں آپ کو مسلم لیگ کی صدارت کے لئے نامزد کیا گیا جو آپ نے مسلمانوں کے وسیع تر مفاد کے لئے قبول کر لی۔ آپ نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کے لیے ملک گیر دورے کیے اور پورے ملک میں مسلم لیگ کی تنظیم کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیا آزادی کا یہ قافلہ سخت جان چلتا چلاتا ہوا 1940 ء میں لاہور کے مشہور منٹو پارک میں آ کر رکا، تو میاں بشیر احمد کی مشہورزمانہ نظم کلام شاعر بزبان شاعرپڑھی جا رہی تھی۔ ملت کا پاسبان ہے، محمد علی جناح ملت ہے جسم جان ہے، محمد علی جناح

لگتا ہے جا کے ٹھیک، نشانے پہ جس کا تیر ایسی کڑی کمان ہے، محمد علی جناح ملت ہوئی ہے زندہ، پھر اس کی پکار سے تقدیر کی اذاں ہے، محمد علی جناح لاہور اپنے بخت پہ نازاں ہے، کیوں نہ ہو آج اپنا مہمان ہے، محمد علی جناح اورپھر قرارداد لاہور پا س کرا لی گئی۔ جس کو دوسرے دن کے ہندو اخبارات نے قرارداد پاکستان کا نام دیا تو مسلم لیگ نے پوری جرات کے ساتھ ان کا یہ دیا ہوا نام قبول کیا اور سات سال کی شبانہ روز سخت ترین جدوجہد کے بعد قیام پاکستان کو ممکن بنا کر دکھا دیا۔

دنیا انگشت بدنداں رہ گئی۔ اقبال نے شاید ایسے ہی لمحوں کے لئے کہا تھا، یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی۔ دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا۔ سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی۔ آج پاکستان کے مصائب و مشکلات کا تذکرہ کرتے وقت اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان تو بنا لیا لیکن تشکیل پاکستان کے اغراض و مقاصد کو فراموش کر دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے نام سے ایک ایسا خطہ حاصل کیا تھا، جہاں وہ اپنے مذہب، اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی روایات کے مطابق کامل آزادی سے اپنی زندگیاں بسر کر سکیں اور اسلامی معاشرہ کا ایک قابل تقلید نمونہ معرض وجود میں لا سکیں۔

آج پاکستان میں کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہی ہیں۔ کہیں نفاذ شریعت کے پرچم بلند کیے جا رہے ہیں، کہیں جمہوریت اور عوام کی حاکمیت کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ کچھ جماعتیں اور سیاسی رہنما ایسے بھی ہیں، جن کی نظریں امریکہ، انگلستان، فرانس اور چین کے نظاموں پر لگی ہوئی ہیں۔ نفاذ شریعت کے علمبردار اگر قائد اعظم کے تصورات کے اسلامی، فلاحی، جمہوری معاشرہ کی تشکیل کے لئے قرآن و حدیث کی پیروی کو ناگزیر خیال کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی تشریح وتوضیح کا حق صرف اپنے تک محدود کرنا چاہتے ہیں تو ان کے مخالفین قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی مجلس دستور سازکی تقریر کے حوالے سے سیکولر جمہوریت کو پاکستان کا نصب العین قرار دیتے ہیں۔

اس پر اسلام اور نظام شریعت کے علمبردار یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر سیکولر جمہوریت ہی پاکستان کی غرض و غایت تھی تو ایک علیحدہ ملک حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک کروڑ مسلمان کیوں اپنا گھر بار چھوڑ کر ترک وطن پر مجبور ہوئے۔ 30 لاکھ سے زائد مسلمانوں نے کیوں جام شہادت نوش کیا۔ اپنے بزرگوں اور اور عظیم ہستیوں کے مزارات و مقابر کیوں چھوڑ کر آ گئے۔ اپنے دینی، سیاسی، علمی اداروں اور تاریخی یادگاروں کو کیوں چھوڑ دیا اور سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم نے ستر ہزار خواتین کی عصمتوں کی قربانی کیوں دی۔

اسلام کے شیدائیوں کا یہ کہنا غلط بھی نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت کے تصورات کے پاکستان کا نقشہ واقعی بڑا مختلف تھا۔ قائداعظم بلاشبہ یہ چاہتے تھے کہ ہمیں ایک ایسا خطہ اراضی نصیب ہو جائے، جہاں ہم بلا شرکت غیرے اسلامی نظام حیات قائم کرسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظم نے اپنی ان گنت تقریروں میں قیام پاکستان کا مقصد ایک ایسے خطے کا حصول ہی قرار دیا تھا، جہاں اخوت، مساوات، معاشرتی عدل و انصاف ایسے لازوال اصولوں اور ابدی اسلامی اقدار و شعائر پر مبنی ایک ایسا متحرک و فعال، ترقی پذیر اسلامی، فلاحی معاشرہ قائم کیا جائے جو سیکولر ازم اور سوشلزم پر مبنی جمہوری و آمرانہ معاشروں کے لیے قابل تقلید نمونہ ثابت ہو سکے۔

لیکن جس اسلامی معاشرے کی تشکیل کا نعرہ ہمارے اکثر و بیشتر علمائے کرام لگاتے ہیں وہ تو سیدھی سادھی تھیو کریسی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بانی پاکستان تھیو کریسی کے سخت خلاف تھے۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان سے تین روز پہلے ایک تقریر میں چند جملے ضرور ایسے کہے جن کی غلط تاویل کر کے پاکستان کی بنیاد کو مشکوک بنانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس کا جواب مدلل طریقے سے دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ وقتاً فوقتاً اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کر کے غلط فہمیاں پھیلاتے رہے۔

حقیقت حال یہ ہے کہ جب قائد اعظم کو پاکستان کی مجلس دستور ساز کا صدر منتخب کیا گیا تو انہوں نے قیام پاکستان کے پہلے کے واقعات کا ذکر کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان طویل عرصہ سے جاری مخاصمت اور فسادات میں اقلیت میں ہونے کے سبب مسلمانوں کے خون خرابے کا حوالہ دیا انہوں نے اس پس منظر میں پاکستان قائم ہو جانے کے بعد غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ انہیں پاکستان میں کوئی گزند نہیں پہنچے گی اور انہیں بطور شہری مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔

اس یقین دہانی کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ قیام پاکستان کے مخالفین نے غیر مسلموں کے درمیان یہ بھیانک منظر پیش کر رکھا تھا کہ پاکستان میں غیر مسلموں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے گا۔ قائد اعظم نے ہندوؤں اور غیر مسلموں کے دلوں سے خوف کو دور کرنے کے لئے ایک مملکت کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں تسلی دی۔ جہاں تک اسلام اور مسلمانوں کا تعلق ہے، تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے اپنی قلمرو میں کبھی بھی اپنی غیر مسلم رعایا کا خون نہیں بہایا۔

انہوں نے صرف ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھائی جو میدان جنگ میں ان کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔ ابتدائے اسلام میں میثاق مدینہ اور فتح مکہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ اسلام نے عقیدے کی بنا پر ہر قسم کے جبر و کراہ کو ناپسند کیا تھا۔ اس پس منظر میں قائد اعظم نے جو الفاظ استعمال کیے ان سے ہرگز یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ انہوں نے پاکستان میں سیکولر حکومت کے قیام کا اشارہ دیا تھا۔ قائداعظم نے تو میثاق مدینہ اور فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کے اعلان کی روایت کی تجدید کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔

انہوں نے گیارہ اگست کو تمام اہل پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، تم آزاد ہو تمہیں اس امر کی کامل آزادی ہے کہ تم اپنے مندروں میں جاؤ یا مسجدوں میں یا مملکت پاکستان میں کسی اور پرستش گاہ میں۔ تمہاری ذات یا مسلک کچھ بھی ہو، اس کا امور مملکت سے کچھ تعلق نہیں ہو گا، اس کے بعد انہوں نے انگلستان کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انگلستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہاں عیسائیوں کے دو فرقوں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں کس قدر کشت و خون ہوا کرتا تھا، لیکن اس مملکت نے اپنی کامل ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے رفتہ رفتہ مناقشات کو مٹا دیا اور اب وہ پورے انصاف سے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نہیں بلکہ مملکت کے شہری بستے ہیں۔

آگے چل کر انہوں نے فرمایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے سامنے یہ نصب العین رکھنا چاہیے کہ ایک وقت کے بعد یہاں نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا سوال ہے۔ ایسا ان سب کے پاکستان کے شہری ہونے کی حیثیت سے سیاسی نقطہ نگاہ سے ہوگا۔ ان الفاظ کو بنیاد بنا کر یہ کہا گیا کہ قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کے فوری بعد دو قومی نظریہ کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اسلامی مملکت کے تصور کی بھی تردید کر کے اسے سیکولر بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔

جب ان لوگوں سے یہ کہا گیا کہ قائداعظم انتہائی سچے اور کھرے، ریاکاری اور منافقت سے کوسوں دور شخص تھے۔ ان کے کردار کی ایک بنیادی خوبی ہی یہ تھی کہ جس بات کا اعلان کرتے اس پر ڈٹ جاتے اور اس سے سرمو انحراف نہ کرتے۔ اس کا ثبوت تو ان کی ذاتی زندگی میں اپنی اولاد کو تج دینے سے بھی ملتا ہے۔ جہاں تک قائد اعظم کے کردار کا تعلق ہے۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی کی تعریف تو ان کے بدترین مخالفین بھی کرتے تھے۔ ان کی وفات پر لندن ٹائمز نے لکھا تھا۔

قائد اعظم نے اپنی ذات کو ایک بہترین نمونے کے طور پر پیش کر کے اپنے اس دعوے کو ثابت کر دیا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ ان میں وہ لچک نہیں تھی، جو انگریزوں کے نزدیک ہندوستانیوں کا خاصہ ہے۔ ان کے تمام خیالات ہیرے کی طرح قیمتی مگر سخت، واضح اور شفاف ہوتے تھے۔ وہ لوگ جو قائد اعظم کی تقریر کی نئی تشریح کرتے رہتے ہیں، وہ یقیناً اس بات سے واقف ہیں کہ جہاں تک دلائل و براہین کا اور الفاظ کی باریکیوں اور معانی کا تعلق ہے، قائداعظم سے بڑھ کر کوئی دوسرا اس دور میں موجود نہ تھا، کیا قائد اعظم سیکولر جیسے الفاظ اور سیاسی اصطلاح سے نا واقف تھے۔

اگر ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ پاکستان کو غیر مذہبی ملک بنانا ہے تو وہ بڑی آسانی سے ایک لفظ سیکولرازم یا سیکولر کہہ کر اپنا مافی الضمیر واضح کر سکتے تھے وہ شخص جس کا ایک ایک لفظ نپا تلا ہوتا تھا اور جو مختصر ترین الفاظ میں مشکل سے مشکل مفاہیم بیان کرنے پر قدرت رکھتا تھا، اسے اتنی لمبی چوڑی تاویل کی کیا ضرورت تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے اپنی کسی تقریر میں یہ بات نہیں کہی کہ پاکستان میں نظام حکومت اسلام کے مطابق نہیں ہوگا۔

اگر معترضین کا کہنا یہ ہے کہ قائداعظم نے ساری دنیا اور خود اپنے لوگوں کو دھوکا دیا یا یہ کہ جو کچھ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بارے میں دس سال تک کہتے رہے، ان کی 11 اگست کی تقریر نے باطل قرار دے دیا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوگا کہ گیارہ اگست کو کی جانے والی ان کی تقریرکوئی آخری تقریر نہ تھی۔ بطور گورنر جنرل ان کی یکم جولائی 1948 ء تک کم و بیش آٹھ دس تقاریر اور بیانات میں اس بات پر زور دے کر کہا گیا کہ پاکستان میں نظام حکومت اسلام اور قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق قائم ہوگا۔

انہوں نے تویہاں تک بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام میں سیاست اور اقتصادیات تک شامل ہیں۔ قائداعظم نے یہ اعلان کر کے اپنے سابقہ اعلانات یا بیانات پر خط تنسیخ نہیں پھیرا تھا بلکہ انہوں نے حقیقت حال بیان کی تھی۔ پاکستان بن جانے کے بعد اقلیتوں کو پورا تحفظ فراہم تھا۔ کیونکہ وہ بلاشبہ۔ قوم کی کشتی کھینے والا، اک درویش قلندر تھا پیچھے اس کے آگ کا طوفاں، آگے لہو سمندر تھا ساری قوم کنارے پر تھی، وہ دریا کے اندر تھا۔

جبکہ ہندوستان میں یہ صورتحال نہ تھی۔ ہندوستان سے آنے والی گاڑیاں زندہ مسلمانوں کو نہیں بلکہ شہیدوں کو پاکستان منتقل کر رہی تھیں۔ ایسی صورت حال میں شدید ردعمل متوقع تھا۔ ہندوستان سے بچ کر آنے والوں اور زخمیوں کی حالت زار کو لاہور کے کیمپوں میں دیکھ کر قائداعظم جیسا مضبوط اعصاب کا مالک لیڈر بھی آ بدیدہ ہو گیا تھا، تو ایک عام پاکستانی کے احساسات میں کس قدر شدت ہوگی۔ ایسے میں اگر قائداعظم گھبرائی ہوئی اقلیتوں کو یہ تسلی نہ دیتے تو کیا کرتے۔

کمزور کو امان دینا ہی تو مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے۔ پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جب وہ گیارہ اگست کو یہ اظہار کر رہے تھے تو یہ ساری باتیں ان کے پیش نظر تھیں۔ بعد میں پاکستان کی تشکیل و قیام کا بنیادی مقصد ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہم نے اسلامی اصولوں پر مبنی معاشرہ کی تشکیل کو قرارداد مقاصد کی شکل میں دساتیر کا حصہ تو بنا لیا لیکن اپنے قوانین و قواعد کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ناگزیر ضرورت کو نظر انداز کر دیا۔

جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کر دیتی ہیں۔ اپنے اکابرین کے ارشادات و نظریات سے رہنمائی حاصل نہیں کرتیں، اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت کو نظر انداز کردیتی ہیں، زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ اور آج ہم بھی اسی جرم فراموشی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ آج بھی اگر ہم قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات پر عمل کریں، ان کے ارشادات و فرمودات کو مشعل راہ بنائیں تو آج بھی ہم مسائل و مشکلات کے بھنور سے نکل سکتے ہیں۔

بابائے قوم کے ایام منانے کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے کہ ہم بابائے قوم کا پیغام لے کر اٹھیں، عوام کو ملک دشمن عناصر کے ناپاک عزائم سے آگاہ کریں، دشمنوں کی ناپاک سازشوں کو خاک میں ملانے کے لیے پوری قوم کو صف آرا کریں اورلوگوں کو ایک ایسی قیادت مہیا کر دیں جو قوم کے یقین افروز اعتماد کی حامل ہو تو انشااللہ فتح ہماری ہوگی۔ کیونکہ دنیا کی کوئی طاقت خواہ وہ کتنی ہی جابر و قاہر کیوں نہ ہو، آزاد و خوددار قوموں کے عزم و ارادہ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی اور خس و خاشاک کی طرح بہہ جایا کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).