کمزور پنکی سے مضبوط بی بی تک کا سفر


بے نظیر بھٹو کون تھی؟ یہ سوال اب تلک قائم ہے اور ہر دماغ اپنے شعور اور مشاہدے کے مطابق جواب دے رہا ہے۔ محترمہ کی شہادت کو 13 سال کا عرصہ بیت گیا۔ مگر وہ طلسماتی شخصیت آج بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔ بے نظیر بھٹو فقط نام سے بے نظیر نہ تھیں بلکہ کام میں بھی بے نظیر، لگن میں بھی بے نظیر، بہادری میں بھی بے نظیر، ہمت میں بھی بے نظیر، جرات میں بھی بے نظیر، اخلاق میں بھی بے نظیر، افکار میں بھی بے نظیر الغرض شجاعت تو اپنے والد سے وراثت میں ملی تھی یعنی شجاعت میں بھی بے نظیر۔ شجاعت یوں بھی کہ بی بی کو معلوم تھا کہ جس راستے پر میں ہوں وہ خطروں کا راستہ ہے مگر پھر وہ وہ نہ رکی کیونکہ بہادر باپ کی بہادر بیٹی فیصلہ کرچکی تھی۔

بے نظیر بھٹو کی جدوجہد کبھی نہیں رکی البتہ سازشوں کی وجہ سے کچھ عرصے کے لئے تھم ضرور گئی تھی۔ مضبوط بابا کی کمزور پنکی کو بابا نے بچھڑتے وقت اتنا مضبوط کر دیا تھا کہ چند لمحوں میں بے نظیر پنکی سے بی بی بن گئیں۔ مضبوط بی بی نے پہلے بابا کی پھانسی دیکھی، پھر ظلم کے نئے سلسلے سہے، پھر چھوٹے بھائی کی موت دیکھی، پھر بڑے بھائی کی خون میں لت پت لاش دیکھی، شوہر کو پابند سلاسل دیکھا، جلاوطنی بھگتی، تین بچوں کو دیار غیر میں تن تنہا پالتی رہیں مگر ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ کیونکہ بابا سے وعدہ ہو گیا تھا نبھانا واجب تھا۔ پھر بیٹی 30 سال تک وعدہ ہی نبھاتی رہی۔ وعدہ توڑنے کے لئے سوداگروں نے سودا کرنے کی کوششیں کی مگر بی بی قدم جما کر ڈٹی رہی۔

بی بی کو بیک ڈور زبردستی والی پالیسی سے قابو کرنے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو دوسری طرح کی اخلاقی پستی کا طریقہ اپنایا گیا۔ کبھی بے بنیاد پروپیگنڈا سے اور کبھی بی بی کی شخصیت کو چند جھوٹی تصویروں کی مدد سے مسخ کرنے کی ناکام کوششیں ہوئیں۔ وقتی طور پر اپنے آپ کو کامیاب سمجھنے والے کچھ عرصے بعد اپنی کرتوت خود بتاتے اور پشیمان ہوتے نظر بھی آئے۔ اس کے بعد بھی بی بی جدوجہد سے نہیں رکی تو اپنی ہی حکومت میں اپنے بھائی کی لاش کو خون میں ڈوبا دیکھا مگر بی بی کی ہمت پھر بھی قائم رہی۔ شوہر کو مختلف قسم کے الزامات لگا کر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا کیا گیا بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ سب سے زیادہ پروپیگنڈا پاکستانی تاریخ میں اگر کسی کے خلاف ہوا ہے تو وہ بی بی اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف۔

بی بی شہید کو معصوم بچوں کے ساتھ ملک بدر ہونا پڑا۔ بی بی بظاہر ملک سے باہر تھیں مگر روح پاکستان میں ہی بھٹکتی رہی۔ بے چین بے نظیر باپ سے کیا گیا وعدہ نبھانے کی لئے بے تاب تھی، مگر سازشی عناصر کسی طور ماننے کو تیار نہ تھے۔ بی بی کی جدوجہد مختلف شکل میں جاری رہی۔ جدوجہد کا نتیجہ تو آنا تھا اور بی بی نے ایک ایسے شخص کو معافی دی جو ماضی میں بی بی کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے میں ملوث رہا تھا۔ مگر بی بی نے اس مقام پر پاکستان کے مستقبل کے لئے اپنے روایتی حریف کو معاف کر دیا تھا۔

پھر بی بی کی جدوجہد رنگ لائی اور راستے میں کھڑے تمام بند ٹوٹ گئے۔ بی بی واپس آ گئی اور شان سے آئی، جمہور خوش تھی، خوشی کے گیت گائے جا رہے تھے مگر پھر وار ہوا۔ بی بی کو زندگی نے چند دن اور عطا کیے۔ پھر ایک خونی شام آئی کہ جب دسمبر کی ٹھنڈ اپنے جوبن پر تھی مگر بارود کی آگ سے ایسی تباہی ہوئی کہ ٹھنڈک آگ بن گئی اور وہ آگ کروڑوں امیدوں کو جھلسا گئی۔ بی بی بابا کے پاس چلی گئی تھی اور جمہور پھر نا امیدی کے ساتھ مصلحتوں کے شہر سدھار گیا۔

بے نظیر نے سیاسی زندگی میں مفاہمت کا راستہ اختیار ضرور کیا تھا مگر مصلحت کے نام پر اپنے اصولوں کا سودا نہیں کیا۔ بے نظیر ہمیشہ کچھ طرز فکر کے مخالف رہیں اور ہر دور میں اس پر قائم رہیں جیسے ؛

تشدد کا شکار ہونے والی بے نظیر، تشدد کے مخالف رہیں۔
وہ شعور قائم کرنے والی بے نظیر، جہالت کے خلاف رہیں۔
ظلم کے آگے کھڑی رہنے والی بے نظیر، ظالموں کے مخالف رہیں۔
جمہور کے ساتھ کھڑی رہنے والی بے نظیر، جمہور دشمنوں کے خلاف رہیں۔
کردار کشی کا شکار ہونے والی بے نظیر، حریف کی کردار کشی کے مخالف رہیں۔
قانون کا غلط استعمال سہنے والی بے نظیر، قانون کے غلط استعمال کے مخالف رہیں۔
طاقت کا منفی استعمال سہنے والی بے نظیر، طاقت کے غلط استعمال کے مخالف رہیں۔
حقوق نسواں کی بات کرنے والی بے نظیر، خواتین کے استحصال کے خلاف رہیں۔
آئین کی بالادستی کی بات کرنے والی بے نظیر، آئین توڑنے والوں کے خلاف رہیں۔

یہ چند مخالفت ہے جس پر بی بی ہمیشہ قائم رہیں اور مصلحت کے نام پر اصولوں کا سودا نہیں کیا یہ ہی وجہ ہے کہ بی بی شہید کے سیاسی ناقدین بھی ان کو با اصول اور حقیقی لیڈر ماننے پر مجبور ہو گئے۔ بلاشبہ پاکستانی جمہوری تاریخ میں سب سے بلند نام بی بی شہید کا ہے جو پاکستان کی مثبت سیاست میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).