رائے بھوئی دی تلونڈی کے ننکانہ صاحب بننے کی کہانی


راوی کے کنارے یہ بستی مسلمان تاجر رائے بھوئی کے نام سے بسائی گئی۔ تاریخ کے حوالوں میں اسے رائے پور بھی کہا جاتا تھا۔ 1469 کے کاتک کی پورن ماشی کی رات کو یہاں کے پٹواری کلیان چند داس بیدی کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ والدین نے اس کا نام نانک رکھا اور دنیا آج اسے بابا گرو نانک کے نام سے جانتی ہے۔ نانک ہندو کھتری خاندان کے چشم و چراغ تھے لیکن ان کی زندگی عشق کے ایسے انقلاب کی داستان ہے کہ سولہویں صدی میں رائے بھوئی کے پوتے نے اس بستی کا نام نانک کی نسبت سے ننکانہ رکھ دیا۔

یہ پنجاب کی مٹی کی تاثیر ہے یا اس کے پانچ دریاؤں کے پانیوں کا جادو، یہاں سے جنم لینے والی کہانیاں محبت سے شروع ہوتی ہیں اور عشق پر ختم ہوتی ہیں۔ نانک کی کہانی انسانیت سے محبت سے شروع ہوئی اور عشق الٰہی پر ختم ہوئی۔

بھلا زمانہ تھا۔ تب کرامات بھی ظہور پذیر ہوتی تھیں اور معجزے بھی۔ ویسے بھی عقیدت کا اپنا ایک الگ فلسفہ ہوتا ہے۔ روایت ہے کہ نانک پانچ سال کے ہوئے تو رواج کے مطابق پاٹ شالا میں بٹھا دیے گئے۔ گرو تو پنڈت گوپال جی تھے، لیکن زندگی کا سبق نانک پڑھا گئے۔ استاد پڑھانے لگے تو یہ کہہ کر بیلے کو سدھار گئے کہ ”پنڈت جی سب پڑھنا لکھنا فضول ہے۔ پڑھائی وہی ٹھیک ہے جو سنسار کی پڑھائی ہے۔“

پٹواری جی پکے پنجابی والد تھے۔ کہاں ہار ماننے والے تھے۔ پنڈت جی کی سنسکرت کے شبدوں سے بچہ بھاگا تو مولوی جی کی فارسی کے حروف تہجی سے باندھ دیا گیا۔ تلونڈی میں اس وقت مسلمان درویش سید حسن رہا کرتے تھے جنہوں نے بخوشی نانک کو پڑھانا قبول کر لیا۔ آج تاریخ کے بڑے نانک کی تعلیمات (جو ہندو اور مسلم کا فرق مٹاتی ہیں اور ایک خدا کا نام جپتی ہیں) کا احاطہ کرتے ہیں تو عقیدت والے اسے الہام الٰہی قرار دیتے ہیں اور عقلیت والے مسلم اساتذہ کے ہاتھوں نانک کی تربیت۔

عشق کی کہانیاں یوں تو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔ لیکن عاشق کو کبھی ظاہری تو کبھی باطنی سفر پر مجبور کرتی ہیں۔ نانک کی زندگی اسی سفر کی ایک لازوال داستان ہے، جو تلونڈی سے شروع ہوا اور آسام، بنگال، کشمیر، افغانستان، بغداد اور حجاز سے ہوتا ہوا کرتار پور جا کر ختم ہوا۔

دیس دیس گھومتے نانک اپنے پیغام کا پرچار کرتے رہے۔ لیکن پنجابی ہونے کہ ناتے مٹی اور کھیت سے محبت ان کے اندر سے نہ نکل سکی۔ کھیتی کرنا پنجاب کے باسیوں کے لیے زندگانی کرنے کا ہی دوسرا نام تھا لیکن نانک نے اسے اعلٰی و ارفع نیکی قرار دیا۔ پنجابیوں کا کھیتی کرنے کا مٹی سے وعدہ تو ہے ہی لیکن آج جو دو مہینے سے ہریانہ۔ دہلی بارڈر پر کسان دھرنا دیے بیٹھے ہیں اس میں نانک کی تعلیمات کا بھی کوئی اثر ضرور ہے۔

نانک کی زندگی کی کہانی کی آخری قسط کرتار پور میں پوری ہوئی۔ زندگی بھر تو نانک اتفاق کا درس دیتے رہے لیکن ان کی وفات نے ہندووں اورمسلمانوں میں اختلاف کو جنم دے دیا۔ ہندو اپنے مذہب کے مطابق میت کو جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنے پر مصر تھے۔ پھر روایت ہے کہ نانک کی میت چادر کے نیچے سے غائب ہو گئی۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ میت والی چادر کو آدھا آدھا بانٹ لیا گیا۔ ہندو اپنے حصے کی چادر جلا کر مکت ہو گئے اور مسلمانوں نے اپنے حصے کی چادر کو دفنا کر اوپر مزار بنا دیا۔ آج اس جگہ پر گردوارہ دربار صاحب ہے۔

نانک جہاں جہاں گئے ان کے پیروکار ان کے قدموں کا سراغ ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئے اور ان نشانات کو محفوظ کرنے لگے۔ لہذا گردوارہ پنجہ صاحب (حسن ابدال) ، گردوارہ بیری صاحب (سیالکوٹ) ، گردوارہ سچا سودا (شیخوپورہ) اور گردوارہ دربار صاحب (کرتار پورہ، نارووال) وغیرہ صرف عمارتیں ہی نہیں، نانک کی زندگی کے گزرے ماہ وسال کی کہانیاں ہیں۔

ننکانہ کے بیچوں بیچ ایسی ہی ایک عالی شان عمارت ہے جو سولہویں صدی میں نانک کے پوتے دھرم چند نے گردوارہ جنم استھان کے نام سے کھڑی کی۔ پھر گوجرانوالہ والے رنجیت سنگھ نے اسے موجودہ حالت میں تعمیر کیا۔ کہنے کو تو یہ گردوارہ نانک کی جنم بھومی پر نانک کی نسبت سے بنایا گیا، لیکن کچھ عمارتوں کی اپنی بھی ایک کہانی ہوتی ہے۔ ایسی کہانی جس سے عشق ہو جائے۔ ایسی عمارتیں اپنے دیکھنے والوں کے دل میں اپنا عشق انڈیل دیتی ہیں۔ عشق بھی ایسا جو صدیوں کا سکون بن جائے۔ گردوارہ جنم استھان اپنے روح پرور نظارے سے ہر آنے والے کو سکون کی جلا بخشتا ہے۔

ننکانہ کی قبا مسجد میں جب نمازی حرم پاک کے دیدار کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت لندن کے ساؤتھ ہال اور کینیڈا کے ٹورنٹو میں گردوارہ جنم استھان کو زندگی میں ایک بار دیکھنے کی پراتھنائیں ہو رہی ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).