برہنہ کلچر، تاریخ اور فطری آزادی


پچیس دسمبر کو دن کے عین وسط میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دکھایا گیا کہ کراچی میں ایک جوان العمر باریش شخص بیچ شاہراہ پر ہجوم کے بیچوں بیچ اپنے موٹر سائیکل پر برہنہ سفر کر رہا ہے۔ جس کو بعد میں پولیس نے پکڑا اور انٹیروگیشن کے دوران ان کو ویسا ہی برہنہ دکھا کر جس کے ہاتھ آگے کی سمت باندھ کر اس کے بے پردگی کو چپانے کی ایک نیم دلانہ سعی کی گئی تھی۔ جس میں وہ کسی پولیس افسر کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں آزاد پیدا ہوا ہوں اور آزاد گھوم رہا ہوں۔

بعد ازاں اس شخص کو ذہنی مریض دکھا کر ایدھی ہوم بھیجا گیا جہاں سے ان کو ان کے ورثا اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ ویسے ذہنی معذوری اپنی جگہ لیکن جو جوابات اس شخص نے پولیس کو انٹیروگیشن کے دوران دیے وہ معمولی نوعیت کے نہیں تھے۔ ان سوالوں کے جوابات کے پیچھے برہنہ کلچر یا ثقافت کی ایک پوری تاریخ چپھی ہوئی ہے۔ جو ہر دور میں آزادی کے اس فطری جواب کے لبادے میں پس پردہ رہتی ہے بس وقت، جغرافیہ، مذہب اور ثقافت کے اعتبار سے تمیز کے زاویہ نظر سے الگ ہوتے ہیں اور کردار کے لحاظ سے وہی قد آدم، وہی قد کاٹھ اور وہی اعضا اور جملہ فضا۔ اب اگر ہم برہنہ ثقافت و تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو آغاز جرمنی سے کریں گے۔ جیسا کہ جرمن لوگ سمجھتے ہیں کہ عریانی کی ثقافت ’فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔

امریکی ثقافت میں عریانی کا تعلق جنسی تعلقات سے ہے جبکہ جرمنی میں روزمرہ کے کچھ حالات میں ایسا ہونا غیر معمولی بات نہیں۔ چین میں جنازوں میں نیم برہنہ رقاصائیں کیوں بلائی جاتی ہیں لیکن جیسا کہ مغربی کہاوت ہے کہ عوامی مقام پر عریانی کے ساتھ پیش آنے کے پہلے تجربے کو آپ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ فری باڈی کلچر یا مختصر طور پر ایف کے کے، جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (سابقہ مشرقی جرمنی) میں زندگی کا اہم حصہ تھا لیکن عوامی مشق کے طور پر ’نیوڈزم‘ یا عریانی انیسویں صدی کے آخر میں اپنائی گئی۔

مثال کے طور پر سپین کے ساحل پر عریانی کے برعکس، جرمنی میں عریانی کا کلچر حوصلہ افزائی کرنے والے مقاصد کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کرتا ہے۔ ماضی میں، فطرت میں مکمل طور پر برہنہ ہو جانا مزاحمت اور دباؤ سے آزادی کا اظہار تھا۔ برلن کی فیری یونیورسٹی میں عصری تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر آرینڈ بورکیمبر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں عریانی ایک پرانی روایت ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام پر آرگینک کھانوں، جنسی آزادی، متبادل ادویات اور فطرت کے قریب ایک سادہ زندگی کو فروغ دینے والی زندگی میں اصلاحی فلسفہ مقبول ہوا۔

بائرکمبر کہتے ہیں ’عریانی اس وسیع تحریک کا حصہ تھی جو صنعتی جدیدیت کے ردعمل کے طور پر ابھرا اور جدید معاشرے کے خلاف تھا جو انیسویں صدی کے آخر میں نئی ​​تبدیلیوں کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا۔‘

پوٹسڈیم میں لبنز سینٹر برائے عصری تاریخ کے ایک مؤرخ ہنو ہاکموت کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحی تحریک برلن جیسے بڑے شہروں میں مقبول تھی حالانکہ اس نے سادہ دیہی زندگی کی خوبیوں کو فروغ دیا۔ اور جمہوریہ ویمار کے دور میں 1918 سے 1929 تک بورژوائی اقلیت کے لوگ برہنہ جسمانی ثقافت اپنائے ساحلوں پر دکھائی دیے۔ باؤرکمبر کے مطابق اس وقت ایک آزادی کا احساس تھا جو 1878 سے 1918 تک آمریت پسند معاشرے اور جرمن سلطنت کی قدامت پسند اقدار کے بعد انھیں ملا۔

1926 میں الفریڈ کوچ نے مخلوط صنف کی عریانی کے رواج کی حوصلہ افزائی کے لئے برلن میں نیوڈازم سکول کی بنیاد رکھی، اس خیال میں کہ بیرونی عریانی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی لانے اور صحت سے متعلق فوائد لانے میں مددگار ہے۔ جبکہ نازیوں نے ابتدا میں جسمانی برہنہ ثقافت پر پابندی عائد کرتے ہوئے اسے غیر اخلاقیات اور بے حیائی سے تعبیر کیا۔ ہکوموت کا کہنا ہے کہ 1942 تک نازی جرمنی نے آہستہ آہستہ عوام میں عریانی پر پابندیوں میں نرمی کر دی لیکن یقیناً یہ رعایت یہودیوں اور کمیونسٹ جیسے مظلوم گروہوں کے لیے نہیں تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی مشرقی اور مغربی جرمنی میں تقسیم، خاص طور پر مشرقی جرمنی میں دہائیوں تک عریانی کی ثقافت نہیں پھیلی، اگرچہ عوامی مقامات پر عریانی اب صرف بورژوا طبقے کے ممبروں تک ہی محدود نہیں تھی۔

مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ ڈیموکریٹک جمہوریہ میں سفر، ذاتی آزادیوں اور صارفین کے سامان کی فروخت پر عائد پابندیوں کی روشنی میں برہنہ جسم کی ثقافت حفاظت کا ذریعہ بن چکی تھی یعنی ریاست کی جانب سے عائد کردہ سخت پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کے تناؤ اور دباؤ کی روک تھام کا راستہ اور کچھ ’تحریک آزادی‘ فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ جرمنی میں متعدد ساحلوں اور پارکس میں عریانی کی ثقافت رائج ہے، تاہم 1971 میں ایرک ہنکر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد باضابطہ طور پر برہنہ ہونے کی ثقافت کی اجازت دے دی۔

1970 اور 1980 کی دہائی میں مشرقی جرمنی کی سخت حکومت نے اپنے آپ کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے عوام کو برہنہ ہونے کی اجازت دی۔ باؤر کمبر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’جمہوری مشرقی جرمنی نے ایک لبرل معاشرے کی حیثیت سے اس کے لیے ایک قسم کے پروپیگنڈے کے طور پر عریانی کی حوصلہ افزائی کی۔‘

لیکن 1990 میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد نیوڈازم کی ثقافت آہستہ آہستہ کم ہو گئی اور سابقہ ​​کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں پابندیاں ختم کر دی گئی۔

2019 میں جرمن ایسوسی ایشن فار فری باڈی کلچر کے مطابق ان کے ممبروں کی تعداد 30000 کے قریب تھی اور ان میں سے بیشتر کی عمریں 50 سے 60 کے لگ بھگ تھیں۔

برہنہ جسم کی ثقافت اب بھی جرمن ثقافت کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر سابقہ ​​مشرقی جرمنی میں اور بعض اوقات اس کے ممبروں کی خبریں سرخیاں بن جاتی ہیں۔

درحقیقت ایف کے کے اور جرمنی میں نیوڈزم کی طویل روایت نے ملک بھر میں برہنہ ہونے کے مقامات کے لیے رواداری پیدا کی اور عوامی مقام پر بے لباسی کو صحت کی ایک قسم قرار دیا گیا۔

کچھ جگہوں پر جرمنی کے ایسے ساحل اور پارکوں کی ایک فہرست موجود ہے جہاں لوگ برہنہ ناچتے، سوتے اور دھوپ سینک سکتے ہیں یا جنگلات میں ننگے پہاڑ پر چڑھ سکتے ہیں۔ یہ لوگ برلن کے ایڈولف کوچ سپورٹس کلب میں جا سکتے ہیں اور برہنہ یوگا، والی بال، بیڈ منٹن اور ٹیبل ٹینس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔

بہت سے طریقوں سے عریانیت کی ثقافت کی وراثت مسافروں کو ان اقدار کی بصیرت فراہم کرتی ہے جو مشرقی جرمنوں کو متحد کرتی ہیں۔

سٹرنکوف کا خیال ہے کہ ’ننگے جسموں کو اس طریقے سے دیکھنا خواہشات کو جنم نہیں دیتا بلکہ لوگوں کے باطن میں جھانکنے اور سیکھنے میں مدد دیتا ہے نہ کہ ظاہری شکل کو۔ اپنے کپڑے اتارنے پر، آپ کو صرف جسم ہی نہیں فرد نظر آتا ہے۔ اگر آپ لوگوں کو برہنہ دیکھنے کی عادت ڈالتے ہیں تو آپ ان کی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں کم ہی سوچیں گے۔ میرے خیال میں یہ ثقافت مشرقی جرمنی میں مزید پھیل گئی ہے۔ ہم لوگوں کو ان کی ظاہری شکل سے نہیں پرکھتے بلکہ ہم ہمیشہ اندر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا اور ایک ہی حمام میں تو ہمارے بھی سب ننگے ہوتے ہیں اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہر لفظ یا ضرب المثل کے پیچھے پوری ایک ثقافتی دروبست اور تہذیبی تاریخ کارفرما ہوتی ہے، ورنہ بقول شاعر :۔ برہنہ ہے سربازار تو کیا۔ بھلا اندھوں سے بھی پردہ کرے کوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).