خواتین کی ہراسانی کے بڑھتے ہوئے واقعات


کیا یہ ایک معمول کا واقعہ ہے؟

کچھ عرصہ قبل تک اک دکا خبر منظر عام پر آتی تھی کہ کسی خاتون کو بازار یا دفترہراساں کیا گیا، لیکن آج کل اس جدید دور میں اس طرح کی خبریں جیسے روزمرہ کا حصہ بنتی جا رہی ہیں، ہر دن کوئی نہ کوئی اس نوعیت کا واقعہ سامنے آتا ہے اور حکام بالا کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کسی بھی مناسب انجام کے بغیر ہی دھند میں چلا جاتا ہے۔ عام لوگ بھی اس طرح کی خبروں کے عادی ہو چلے ہیں کہ پہلے اس طرح کی خبریں ٹی وی پرآنے پر گھر کے بزرگ فوراً چینل بدل دیتے تھے اور اس پر اظہار افسوس کیا جاتا تھا، آج اس طرح کی خبریں معمول کی حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ لہذا ان پر کوئی ردعمل نہیں ہوتا، گھر بھر ویسے ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھا رہتا ہے اور خبریں آگے بڑھتی رہتی ہیں۔

ایک معروف خاتون سیاستدان نے اس نوعیت کی خبروں میں اضافے کا سبب خواتین کی اپنے حقوق سے اور میڈیا کی آزادی قرار دیا ان کے مطابق اس طرح کے واقعات اس سے قبل ماضی بھی رونما ہوتے رہے ہیں مگر اب خواتین میں شعور پیدا ہو چکا ہے لہذا اب ان کی رپورٹ ہو جاتی ہے، میڈیا میں ان کو پیش کیا جاتا ہے، تاہم توجہ طلب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ان پر کوئی با اثر شخصیت نوٹس لیتی دکھائی نہیں دیتی، متاثرہ فرد خود ہی خاموش ہو جاتا ہے اور واقعہ ایک سمجھ کر حادثہ بھلا دیا جاتا ہے

اس وقت ہمار معاشرہ ہی نہیں تمام دنیا مشکل معاشی صورت حال کا سامنا کررہی ہے اور اس کو بہتر بنانے کے لئے پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آ رہی ہے۔ اس وقت خواتیں کے لیے صورت حال بہتر ہونے کی بجائے مزید دشوار ہو رہی ہے۔ آئے دن ایسے تکلیف دہ واقعات منظرعام پرآنا ہمارے معاشرے ہماری اقدار کے زوال کی کھلی نشاندہی کر رہے ہیں

کیا ہم بے حس ہو چکے ہیں؟ ہمارے جذبات ہمارے خیالات اس حد تک خودغرضی کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہم دوسرے کی تکلیف کو تکلیف نہیں سمجھتے جب تک کہ ہم خود اس درد میں مبتلا نہ ہوجائیں اس وقت تک ہم خاموش رہیں گے، کیا ہم سب اس وقت اس انتظار میں ہیں کہ جب تک یہ آگ ہمارے دامن تک نہیں آئے گی ہم خاموش رہ کر اپنی خیر مناتے رہیں گے۔ کہاں ہیں ہم اور ہماری اقدار؟ آگے آگے اور سب سے آگے بڑھنے کی اس نا ختم ہو نے والی دوڑمیں ہم احساس سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).