2020ء: وبا کے سال کا سبق


سال 2020ء کا آغاز خوف کے ساتھ ہوا۔ 2019ء میں چین کے شہر ووہان میں منظر عام پر آنے والے کرونا وائرس نے آناً فاناً دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں لوگوں کو گھروں میں قید کر ڈالا تھا۔ ہسپتال بھر گئے تھے ڈاکٹر اور طبی عملہ بے خبری میں لپیٹ میں آ گیا تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے ڈرنے لگے تھے جس کی وجہ سے خوف کی فضاء میں ہم نے اکیسویں صدی کے اکیسویں سال کا استقبال کیا۔

2020ء میں جب کرونا وائرس دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے ملک ریاستہائے متحدہ امریکہ پہنچا تو وہاں کے صدر نے اس وائرس کو مذاق قرار دیا اور کہا کہ جیسا یہ آیا ہے اسی طرح چلا جائے گا اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اب تک اس وائرس نے دنیا کے سب سے طاقتور ملک میں تقریباً دو کروڑ لوگوں کو اپنا شکار بنالیا ہے جن میں سے ساڑھے تین لاکھ لوگ جان سے گئے ہیں۔ امریکہ کی معیشت کئی سال پیچھے جا چکی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ اس نقصان کی وجہ سے یہ ملک اگلے کچھ برسوں میں دنیا کی واحد بڑی معاشی طاقت کا اپنا اعزاز کھو دے گا۔

یورپ کے بیشتر ممالک کی حالت بھی امریکہ سے بہتر نہیں ہے۔ اس سال کرسمس کی تقریبات منعقد نہ ہو پائی ہیں۔ لوگ گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں اور 2020ء میں منڈیوں میں مسلسل مندی کا رجحان ریا، کارخانے بند ہوئے اور تجارت پر جمود طاری رہا۔ تیل جس کے حصول کے لئے مشرق وسطیٰ کو بارود کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا 2020ء میں تیل کو رکھنے کی جگہ نہیں مل سکی۔

جاپان سے ارجنٹائن اور کوریا سے آسٹریلیا تک سکول، کالج، کارخانے، بازار اور ٹرانسپورٹ کو بند کروانے والے وائرس سے مختلف ممالک نے اپنے اپنے انداز میں مقابلہ کیا۔ نظریاتی اور فکری سیاست کے جواب میں گزشتہ کچھ برسوں میں جذباتی نعرے لگانے، خوشنما خواب دکھانے اور قومی اور مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے نتیجے میں مقبولیت حاصل کرنے والی قیادت کا جن ممالک میں ظہور ہوا تھا وہ اس وبا کے سامنے بے نقاب ہو گئی۔

جن ممالک میں حقیقت پسند، انسان دوست اور ہمدردی کے جذبات رکھنے والی قیادت موجود تھی وہاں کے نہ صرف لوگ اس وبا میں نسبتاً زیادہ محفوظ رہے بلکہ وہاں معاشی و اقتصادی نقصان بھی کم ہوا۔ خواتین جن کو پچھلے کچھ برسوں تک ناقص العقل قرار دے کر رائے دہی کے حق سے بھی محروم رکھا گیا تھا وبا کے مقابلے کے لئے بہترین راہنما ثابت ہوئیں۔

اس وبا نے جہاں قومی قیادت کو امتحان میں ڈال دیا وہاں قومی تحفظ کے روایتی تصور کو بھی تبدیل کر دیا۔ افواج، ہتھیار، گولہ بارود، جہاز، میزائل، بم اور ٹینک سب ایک ایسے خطرے کے سامنے بے کار نظر آئے جو نظر بھی نہیں آتا۔ وائرس سے دفاع کے لئے ناک اور منہ پر چڑھانے والا فیس ماسک سب سے بڑا ہتھیار بن گیا جس کی دستیابی دفاعی لحاظ سے سب سے طاقتور ترین ممالک میں بھی دشوار رہی۔

وائرس سے متاثر ہونے والے پھیپھڑوں تک آکسیجن پہنچانے والا وینٹیلیٹر کیا ملتا جب ہسپتالوں میں مریضوں کو جگہ ہی نہ ملی اور لوگ گلیوں اور سڑکوں پر مرنے لگے۔ ملک کی آدھی سے زیادہ آمدنی سے دفاع کے نام پر آگ اور بارود کا کھیل رچانے والے نا خداؤں کی اصلیت اس وقت کھل کر سامنے آئی جب لوگوں کا درد کم کرنے گولی بازار میں ناپید ہو گئی۔

دنیا بھر میں ہمیشہ سے بہنے والے دریائے علم کی ترسیل اور حصول 2020ء میں منجمد رہی۔ درسگاہوں کو تالے لگ گئے طلبہ گھروں میں مقید ہوئے اور اساتذہ اپنی دانش گاہوں کو بھول گئے۔ بیسویں صدی کی سب سے بڑی اور مایہ ناز ایجاد انٹرنیٹ کو مارکیٹنگ کی رکھیل اور تفریح کا ذریعہ بنانے والے شرمسار ہیں کہ دنیا کی بڑی بڑی درسگاہوں میں بھی اس کے ذریعے فاصلاتی تعلیم تک موثر رسائی آج بھی ممکن نہ ہو سکی۔ غریب ممالک میں تو ای میل بھیجنے کی سہولت آج بھی عیاشی کے زمرے آتی ہے مگر ستاروں پر کمند ڈالنے والوں کے ہاں بھی انٹرنیٹ کے ذریعے دی جانے والی فاصلاتی تعلیم سے طلبہ اور استاد مطمئن نہیں۔

وبا کو قابو میں لانے کے لئے تحقیق بھی ہوئی تو ہر بات صیغہ راز میں رکھی گئی کہ کہیں کوئی دوا بنا کر اپنی جیب پہلے نہ بھر لے۔ اہل ثروت نے غریب ممالک کے بسنے والوں کو بندروں کے بعد انسانوں پر ویکسین کے تجربے تک محدود رکھا۔ ویکسین کے تیار ہونے سے پہلے ہی طاقتور حکومتوں اور ریاستوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ مقدار میں خرید کر جینے اور صحت مند رہنے کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کر لئے۔ ویکسین بنانے والی کمپنیوں کی قیمت حصص بازار میں آسمان کو چھونے لگی۔ وبا کی مصیبت کو اپنی خوش قسمتی میں بدلنے والے ساہوکار 2020ء میں خوش ہیں کہ کرونا وائرس نے اربوں ڈالر سالانہ منافع کمانے لے لئے اس سال ایک اور منڈی پیدا کی ہے۔

2020ء کو اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا کہ کعبہ، ویٹی کن، دیوار گریہ، ہری دوار سمیت دنیا کے چھوٹے بڑے ہر معبد کو تالے لگ گئے۔ سڑکیں سنسان، کھیلوں کے میدان ویران ہو گئے۔ مگر پہلی بار شہروں میں کارخانوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کی دبیز تہہ چھٹی تو نئی نسل نے پہلی بار آسمان کا نیلگوں رنگ دیکھا اور رات کو ہمیشہ ویران نظر آنے والے فلک پر ستارے بھی پہلی بار نظر آئے۔

جب سڑکیں شور مچاتی اور فراٹے بھرتی گاڑیوں سے اور بازار انسانی ہجوم سے خالی ہوئے تو پہلی بار کئی جانوروں نے بے خوف و خطر شہروں اور قصبوں میں گھوم پھر کر روئے زمیں پر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ دائر کیا۔ صرف اسی سال نہ صرف کئی نئے پرندے فضاؤں میں محو پرواز نظر آئے بلکہ کئی نئے کیڑے مکوڑوں کا بھی لوگوں نے پہلی بار نظارہ کیا۔

ماں فطرت جس کی کوکھ سے سب پیدا ہوئے اور اسی کی گود میں سب پل رہے ہیں سب پر یکساں مہربان ہے۔ روئے زمیں پر زندگی کا انحصار تمام مخلوقات پر ہے جو سب یکساں طور پر افضل و ارفع ہیں۔ اگر یہاں انسانوں کے علاوہ جانور اور حشرات ختم ہوجائیں تو کچھ عرصے میں دیگر مخلوقات کے لئے زمیں پر رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اگر درخت ختم ہوں تو چند مہینوں میں زمیں زندگی کو سہارا دینے کی قابل نہ رہے گی۔ 2020ء کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ جب انسان نہیں ہوں گے تو دیگر چرند، پرند و نباتات نہ صرف باقی رہیں گے بلکہ زیادہ خوش و خرم رہیں گے اور خطرات سے بھی آزاد ہوں گے۔

اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب انسان دوسرے سیاروں کو مسخر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے ایک وائرس نے 2020ء میں تمام انسانی علم و حکمت کو چیلینج کیا۔ اس وائرس کے منظر عام پر آنے کے کچھ عرصے میں دنیا کے کونے کونے میں پہنچنا انسانی بے بسی کا سب سے بڑا ثبوت ہے جبکہ یہ وائرس خود نہ چل پھر سکتا ہے اور نہ ہی انسانی جسم کے علاوہ کہیں نمو پاتا ہے۔ وائرس کے بہانے انسانوں کو انسان سے خطرے سے دوچار کر کے ماں فطرت نے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ روئے زمیں پر تمام مخلوقات کے رہنے کا حق یکساں ہے۔ اگر کسی ایک مخلوق نے ماں فطرت کو چیلینج کیا تو اس کے انتقام کے لئے بھی تیار رہے۔

زیادہ لمبے عرصے کی تو بات ہی نہیں صرف گزشتہ دس ہزار برسوں میں روئے زمیں پر جانوروں اور پودوں کی کئی اقسام ناپید اور کئی ایک نئی نمودار ہو چکی ہیں۔ حالیہ صدیوں میں انسانوں نے ایک اندازے کے مطابق اپنے بڑھتے علم، عقل، شعور اور علم و حکمت بل بوتے پر دس لاکھ کے قریب جانوروں اور پودوں کی اقسام کو روئے زمیں پر معدومی کے خطرے سے دوچار کر کے رکھا ہے۔ 2020ء کے وبا کے سال نے ماں فطرت کی گود کو اجاڑنے والے انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی جانداروں کی ایک قسم ہے جو روئے زمیں پر معدوم ہوتے رہتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan