معاہدہ لوزان: کیا 2023ء میں خلافت بحال ہو جائے گی؟


ہمارا ملک بھی کمال کا ملک ہے وقتاً فوقتاً لوگوں کی ”نشو و نما“ کے لیے ہماری ریاست، سیاستدان، علماء اور صحافی حضرات مختلف ”پروگراموں“ کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا کہ ”طاغوت“ کی ”سازشوں“ کی وجہ سے ہمارے لوگوں خاص طور پر نوجوان نسل کی ”تخلیقی صلاحیتوں“ پر زد نہ پڑے۔ کبھی انہیں بتایا جاتا آپنے لال لال لہرانا ہے، تو کبھی لال قلعہ پر سبز لہرانا ہے ہر ”مقصد“ کے حساب سے ”پروگرام“ ترتیب دیا جاتا ہے۔

یہ بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو لوگوں کو بد ہضمی ہو جائے گی پھر اس کے لیے چورن درکار ہوگا اب یہ اپنے آپ میں ایک دلچسپ تاریخ ہے کہ قوم کی بدہضمی دور کرنے کے لیے کیسے کیسے چورن بیچے گے۔ ہماری قوم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ پڑھتی نہیں ہے بس جس کسی نے جس طرف لگا دیا لگ گے۔ پہلے لال کے پیچھے لگے آج کل خلافت کا بخار ہے۔ ویسے یہ بخار ایک عرصے سے ہے لیکن ان دنوں کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ قصہ اس طرح ہے کہ ہمارے کپتان نے قوم کی ”نشو و نما“ کی خاطر ارطغرل ( اکثریت تو نام ہی غلط لیتی ہے بچارے کا) نام کا ڈرامہ سیریل دیکھنے کا مشورہ دیا قوم نے لبیک کہا اور دیکھنا شروع کیا۔

اب ہوا کچھ یوں کہ ڈرامہ ”نشو و نما“ کی بجائے بد ہضمی کر گیا جب بد ہضمی ہوئی تو چورن کا بندوبست کیا گیا۔ کیونکہ چورن بیچنے والے قوم کی نفسیات سے واقف ہوتے لہذا ان کا چورن ہر دفعہ کامیاب ہو جاتا۔ اب یہاں چورن یہ تھا کہ یہ ڈرامہ اصل میں ایک منصوبہ کا حصہ ہے وہ منصوبہ یہ ہے کہ 2023 میں معاہدہ لوزان ختم ہونے جا رہا ہے اس کے بعد ترکی آزاد ہو جائے گا اور خلافت کا بول بالا ہوگا اس کے لیے آپ کو تیاری کروائی جا رہی ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے میں آٹھویں جماعت میں تھا تو میرا ایک دوست جو قوم پرستی نام کی بد ہضمی کا شکار تھا وہ مجھے کہا کرتا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ میں نے پوچھا کیسے؟ کہتا ایک معاہدہ ہوا تھا انگریز کا ڈیورنڈ لائن کے نام سے افغانستان کے ساتھ ہوا تھا وہ سو سال کے لیے تھا۔ وہ سو سال ختم ہو چکے لہذا اب یہ علاقے واپس کرنے ہیں۔ جب میں نیٹ سے معاہدہ کو نکالا تو حقیقت کچھ اور نکلی۔ لیکن اس میں اس کا بھی قصور نہیں بیچارہ بد ہضمی کا شکار تھا اس کے لیے اسے جو چورن دیا گیا اس نے لے لیا۔

ایسا ہی کچھ خلافت والوں کا حال ہے۔ ارطغرل انہیں بدہضمی کر گیا جسے دور کرنے لیے انہوں نے چورن کا استعمال کیا۔ اب یہ چورن یہ تھا کہ معاہدہ لوزان سو سال بعد ختم ہو جائے گا۔ اس معاہدہ کے بعد ترکی آزاد ہو گا ہر قسم کی تجارت کے لیے۔ وہ تیل نکال سکتا ہے۔ آبنائے باسفورس سے ہونے والی تجارت کنٹرول کر سکتا ہے۔ وہ تمام علاقے جو کسی وقت خلافت عثمانیہ کا حصہ تھے ان پر اپنا دعوی کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لب لباب یہ کہ خلافت بحال ہو جائے گی۔

اس پر کئی یوٹیوب چینل نے باقعدہ پروگرام کردیے کئی کالم لکھے گے اور حد تو اس وقت ہو گئی جب جہلم کے ایک ”علمی کتابی“ نے بھی اس پر وڈیو بنا ڈالی (جس کا مجھے بے حد افسوس ہے) اور وہی کچھ ارشاد فرمانا شروع کر دیا جو کہا جا رہا تھا۔ ایسے میں میں نے سوچا کیوں نہ معاہدہ لوزان کو پڑھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے ترکی کی ہی دفتر خارجہ کی ویب سائٹ سے معاہدے کو دیکھا۔ جب دیکھا تو حقیقت کچھ اور ہی نکلی۔ جو کچھ یوں تھی۔

معاہدہ لوزان اصل میں معاہدہ سوریس کی ناکامی کی وجہ سے کیا گیا۔ جب معاہدہ سوریس ناکام ہوا تو سویئٹزرلینڈ کے شہر، لوزان میں ایک کنونشن بلایا گیا۔ اس کنونشن میں ایک معاہدہ منظور ہوا۔ معاہدہ اصل میں فرانسیسی زبان میں تھا۔ دستخط کنندہ میں ایک طرف برطانیہ، فرانس، اٹلی، جاپان، یونان، رومانیہ، سلوواکیہ، سربیا اور کروشیا تھے جبکہ دوسری طرف ترکی تھا۔ اس معاہدہ نے ترکی کی حدود اربعہ کا تعین کیا۔ اس معاہدہ پر دستخط 24 جولائی 1923 کو ہوئے۔

یہ معاہدہ 143 آرٹیکلز پر مشتمل ہے جو کہ پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلا حصہ ترکی کی حدود کا تعین کرتا ہے، شہریت کے مسائل پر بات کرتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کی بھی ضمانت لیتا ہے۔ یہ حصہ 45 آرٹیکلز پر مشتمل ہے جو کہ تین سیکشنز پر مشتمل ہے۔ دوسرا حصہ مالی شقوں پر مشتمل ہے جس میں زیادہ تر ان قرضوں کی ادایئگیوں پر بات ہوئی جو یا تو ترکوں نے لیے تھے یا دیے تھے۔ اور کچھ متفرق شقیں بھی اس میں شامل تھیں۔ یہ حصہ اٹھارہ آرٹیکلزاور دو سیکشنز پر مشتمل ہے۔

اس کے بعد آتا ہے اس معاہدہ کا سب سے بڑا حصہ۔ یہ تیسرا حصہ معاشی معاملات پر گفتگو کرتا ہے۔ اٹھارہ آرٹیکلز تک پہلا یہ حصہ چھہ سیکشنز میں منقسم ہے۔ یہ حصہ جائیداد کے حقوق، مفادات کا تحفظ، قرضوں کے تعین ( وہ قرضے جن کا ذکر دوسرے حصہ میں ہوا وہ اس میں شامل نہیں ) جیسے مسائل کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ جو چوتھا حصہ ہے وہ مواصلاتی اور سینیٹری کے معاملات و مسائل پر گفتگو کرتا ہے۔ یہ حصہ بھی اٹھارہ آرٹیکلز پر مشتمل ہے جنہیں دو سیکشنز میں بانٹا گیا ہے۔ آخری حصہ میں جنگی قیدیوں کی رہائی اور جو قبریں ان علاقوں میں یونانیوں کی موجود ہیں ان کے تحفظ کی ضمانت بھی ترکی سے لی گی۔ اس حصہ میں پچیس آرٹیکلز ہیں جنہیں تین سیکشنز میں پھیلا دیا گیا ہے۔

یہ تھا نہایت مختصر معاہدہ لوزان۔ اب کچھ اور بھی مسائل تھے جنہیں بعد میں حل کیا گیا لیکن وہ اس وقت میری بحث سے باہر ہے۔ اب اس معاہدہ میں جو چیز میں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی وہ تھی سو سال کی شرط، معدنیات و تیل کے استعمال پر پابندی، آبنائے باسفورس پر ترک اجارہ داری کا خاتمہ اور خلافت کی دوبارہ بحالی۔ لیکن افسوس ان میں سے ایک بھی چیز مجھے نہ مل سکی۔

چونکہ خلافت کا چورن بیچنے والوں کو پتہ تھا کہ یہ قوم پڑھتی نہیں اس لیے ان کا چورن خوب بک رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا؟ پاکستان کی تاریخ اس کا جواب ہاں میں دیتی ہے۔ لہذا لیتے رہیں چورن اور دیکھتے رہیں خواب خلافت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).