کنجوس ڈونلڈ ٹرمپ


”یہ الیکٹرو کالج کیا ہوتا ہے؟“
استاد اختر رنگریزہ نے خاصی سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
”یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟“ چوہدری سنجیدہ خان نے جوابی سوال جڑ دیا۔

”شیخ صاحب سے چیک کر لو استاد! ان کا بیٹا پچھلے سال ٹیکسلا یونیورسٹی میں کسی الیکٹرک کے مضمون میں داخل ہوا تھا۔“ شاہ صاحب رؤف نے لقمہ دیا۔

میں جب شام کو استاد اختر کی دکان پر پہنچا تو یہی موضوع چل رہا تھا۔ استاد اختر رنگریزہ راولپنڈی کی قدیمی باوا روڈا روڈ پر واقع ایک المشہور دکان کے پروپرائیٹر ہیں۔ جہاں پر علاقے بھر کی خواتین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن دوپٹے اور جماعتی اسکارف وغیرہ رنگواتے ہیں۔ دن بھر تو دکان پر خواتین کی بھیڑ رہتی ہے لیکن مغرب کے بعد حضرات خصوصاً ایسے حضرات جن کی اپنی بیویوں سے انڈر اسٹیڈنگ زیادہ ہوتی ہے کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

لہٰذا سالہا سال سے مغرب بعد دکان کے عقبی حصے میں بیٹھک کا جمنا ایک معمول ہو چکا ہے۔ اس بیٹھک کی مقبولیت میں استاد اختر کی مہمان نوازی اور قریب ہی موجود دودھ دہی کے ٹھیے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں سے سردیوں میں گرما گرم دودھ جلیبی، گرمیوں میں ٹھنڈی ٹھار لسی اور سال بھر ملائی والی دودھ پتی گفتگو کے لطف کو دوبالا کر دیتی ہے۔

”استاد تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔“ سنجیدہ نے دوبارہ پوچھا۔

یار جی! میں نے سنا ہے یہ کوئی ایسا کالج ہے کہ جس میں داخلہ مل جائے تو بندہ امریکہ کے صدر کو ووٹ دیتا ہے ۔“

” اور یہ تمہیں کیسا پتہ چلا؟“

”کل رات کو بنی گالے کے عباسیوں کی بہو نے اپنے ٹی وی پروگرام میں بتایا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اوکھا سوکھا ہو کر اپنے بیٹے کو اسی کالج میں داخلہ دلوا دوں۔“ چوہدری سنجیدہ جو خاصے عرصے امریکہ اور کینیڈا رہتا رہا تھا یہ سن کر مزید سنجیدہ ہو گیا۔

” تم پاکستانی ادھوری بات سن کر اپنے خواب بن لیتے ہو۔ پہلے تو یہ الیکٹرو کالج نہیں بلکہ الیکٹرول کالج ہے اور دوسرا یہ کوئی ویسا کالج نہیں جہاں پڑھنے کے لئے داخلہ ملتا ہے“ ۔

”تو چوہدری یہ کیسا کالج ہے؟“ استاد نے حیرت سے پوچھا۔

” یہ امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لئے تشکیل دیا جاتا ہے اور تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے انگریزی زبان میں کالج کا مطلب صرف پڑھائی والا کالج نہیں ہوتا۔“

ایک تو یہ گورے ہمیں انگریزی کی مار دیتے ہیں۔ ”شاہ صاحب بولے۔“

”“ مختصراً یوں سمجھو امریکہ کی ہر ریاست سے آبادی کے لحاظ سے ووٹ مختص کیے جاتے ہیں۔ صدارتی امیدوار کی پارٹی الیکشن سے پہلے اپنے ووٹر نامزد کر دیتی ہے جو ریاست کے نمائندہ کے طور پر ووٹ ڈالتے ہیں۔ امریکہ کی سب ریاستوں سے کل ملا کر 538 ووٹ بنتے ہیں۔ جس امیدوار کو 270 ووٹ مل جاتے ہیں وہ صدر منتخب ہو جاتا ہے ”۔ چوہدری سنجیدہ کہتا رہا اور حاضرین خالی الذہن سنتے رہے۔ وہ عام طور پر کھسیانا تو نہیں ہوتا لیکن ہو گیا“ میرے خیال میں تم لوگوں کو مثال دے کر سمجھاتا ہوں۔ ”

”“ جزاک اللہ ضرور۔

”امریکہ میں پچاس ریاستیں ہیں۔ ان میں سے ایک ریاست ٹیکساس کی مثال لیتے ہیں۔ ٹیکساس سے الیکٹرول کالج کے 38 نمائندے ہوتے ہیں۔ صدارتی انتخاب کے دن ریاست کے عام ووٹر اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ اگر ڈیموکرٹیک پارٹی کا امیدوار جیتے تو ڈیموکریٹ اور اگر ریپبلکن جیتے تو ریپبلکن نمائندہ الیکٹرول کالج کے 38 ووٹ پول کرتے ہیں“ ۔

”چوہدری تمہاری اس بات سے میں یہ سمجھا ہوں کہ امریکی صدر کا اصل انتخاب ان 538 نمائندوں کی ووٹوں سے ہوتا ہے۔“ شاہ صاحب نے کہا

شکر ہے بات تم کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں آ گئی ”۔“

”لیکن اگر یہ نمائندے الیکشن والے دن اپنے ضمیر کے مطابق دوسرے امیدوار کو ووٹ ڈال دیں تو پھر؟“ رؤف شاہ نے نکتہ اٹھایا

وہ کفار ہیں۔ ان کے ضمیر سوئے رہتے ہیں۔ یا بالکل مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسا نہیں ہوتا ”۔“

”مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ امریکہ میں یا تو زراعت ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی ہے تو یہ نمائندگان زرعی شعبے سے لاتعلق ہوتے ہیں۔“ استاد بولا

” یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“

”وہ اس طرح کہ اگر یہ لوگ زمیندار ہوتے تو یقیناً انہیں بیج، کھاد اور جراثیم کش ادویات وغیرہ کی ضرورت ہوتی اور محکمہ زراعت ان کی مدد کے لئے موجود ہوتا۔“ استاد خاصی دور کی کوڑی لایا۔

لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہاں کا محکمہ زراعت زیادہ فعال نہ ہو؟ ”“

فعال نہیں بلکہ ناکارہ۔ جو محکمہ اپنے صدر کے لئے چند ووٹوں کا بندوبست نہ کر سکے اسے ناکارہ ہی کہا جاسکتا ہے؟ ”“

” اپنی زرعی پیداوار کو دیکھ لو۔ سنہری سوندھی گندم، میٹھی رسیلی مکئی، لمبا کٹیلا گنا اور دنیا کے نمبر ون آم۔ اسی لئے ہی ہمارا محکمہ زراعت دنیا میں نمبر ون ہے۔ فرط جذبات سے شاہ صاحب کی آواز بھرا گئی۔ ساتھ والی دکان سے ملی نغمہ۔ تیری وادی وادی گھوموں، تیرا کونا کونا چوموں۔ گونج رہا تھا۔

مجھے تو یہ سسٹم ہمارے ایوب خان کے بی۔ ڈی ممبران جیسا لگتا ہے۔ ”
”تم ٹھیک کہتے ہو۔“ چوہدری سنجیدہ بولا ”میرے تایا جان بی۔ ڈی ممبر ہوا کرتے تھے۔“

”یار خدا کا خوف کرو! مانا کہ تم امریکہ سے ہو آئے ہو اور تمہارے پاس ڈالر ہیں لیکن یہ نہ بھولو ہم سب بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔“ شاہ صاحب نے چوہدری کی بات کاٹ دی۔ ”یہ بی ڈی ممبروں والا کھڑاک ہمارے ہوش سے پہلے کا ہے پھر بھی ہتھ ہولا رکھو۔“

یہ سن کر چوہدری سنجیدہ مشتعل ہو گیا۔ ”تمہارا ایک کزن اپنے آپ کو انصاری بتاتا ہے، دوسرا شیخ، اور تم خود شاہ جی بنے پھرتے ہو، تو کبھی ہم نے سوال اٹھایا ہے؟“

” اوئے چھوٹے۔ دودھ پتی ہور“ استاد نے بیچ بچاؤ کے لئے فوراً آرڈر دیا اور کہا ”چوہدری تو شاہ جی کو چھوڑ اور اپنی بات جاری رکھ۔“

نہیں۔ اس شیخ شاہ انصاری کی بات سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے ”۔“

”چوہدری صاحب۔ میں نے مان لیا آپ کے جناب تایاصاحب واقعی بی۔ ڈی ممبر تھے۔ معذرت۔ اب آگے چلو۔“ شاہ صاحب نے معافی مانگ لی۔ ”

اور اس دوران ملائی والی دودھ پتی کی پیالیاں بھی آ گئیں۔ چوہدری نے ایک بھرپور گھونٹ بھرا اور گویا ہوا۔ ”تو دوستو! تایا صاحب بتاتے تھے کہ 1965ء کے صدارتی الیکشن کے دوران سارا پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کا حامی تھا۔ حالانکہ ایوب خان کی فوجی حکومت نے ان پر ہر طرح کے الزامات لگائے۔ تو پھر بی۔ ڈی ممبران خصوصاً دیہی علاقوں کے ممبران کو دھونس دھاندلی کے ساتھ ایوب خان کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئے کہہ دیا گیا اور ساتھ ساتھ خزانے کا منہ بھی کھول دیا گیا۔ یوں ایشیا کے ڈیگال کی فقیدالمثال کامیابی کا بندوبست کیا گیا تھا۔“

” اس سے تو یہی ثابت ہوتاہے کہ نہ صرف امریکہ کا محکمہ زراعت ناکارہ ہے بلکہ یہ ٹرمپ ایک نکما اور کنجوس آدمی ہے کہ صرف 500 بندے مینج نہیں کیے جاسکے۔“ شاہ صاحب نے حتمی بات کر دی۔

سچ تو یہ ہے کہ مجھے ٹرمپ کے ہار جانے کا افسوس ہوا ہے۔ ”استاد بولا۔“
وہ کیوں؟ ”“

”اس لئے کہ وہ جیسا بھی کوجا تھا۔ میں، بلکہ ہم سب ملانیا ٹرمپ کو بہت شوق سے دیکھتے تھے۔“

”اوئے کوئی خدا کا خوف کرو۔ ملانیا امریکہ کی فرسٹ لیڈی ہے۔ تم اسے بھی تاڑنے سے باز نہیں آئے؟“
” کیسے باز آئیں۔ یہ تو ہمارا قومی کھیل ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).