جا اسامہ بیٹا سو جا، سکون تو صرف قبر میں ہی ہے


کئی تصویریں سامنے ہیں۔ ایک اکیس برس کا نوجوان۔ زندگی سے بھرپور۔ ایک تصویر میں وہ ایک پہاڑی پر ساز بجا کر زندگی کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ دوسری میں وہ ایک آبشار کے سامنے کھڑا ہے۔ تیسری میں وہ تحریک انصاف کی ٹوپی پہنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ چوتھی میں وہ آئی ایس ایف کے کسی کارکن کے ساتھ بظاہر انتخابی پرچیاں بھر رہا ہے۔ بہتر زندگی کے خوابوں کے سوا کیا ہے ان تصویروں میں۔ جن کے بیٹے بھتیجے اٹھارہ بیس برس کے ہوں، وہ ان خوابوں کو جانتے ہیں۔ وہ ان میں اپنی جوانی دیکھتے ہیں۔ اور اپنا بڑھاپا بھی۔ بالکل ویسا ہی بچہ جیسا آپ کا اور ہمارا ہے۔

بیس اکیس برس کی عمر میں اس طالب علم کو ایک نئی نکور گاڑی ملی تھی۔ اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہو گا۔ جب مڈل کلاسیے بچے کو کالج جانے کے لیے موٹرسائیکل بھی ملے تو وہ خوشی سے بے حال ہو جاتا ہے۔ یہ تو پھر نئی گاڑی تھی۔ اس کا خاندان ظاہر ہے کہ بہت خوشحال نہیں تھا۔ بینک سے قسطوں پر لی گئی تھی اور غالباً قسط اتارنے کی ذمہ داری بھی اسامہ کو دی گئی تھی کہ وہ اوبر پر اس گاڑی کو چلاتا تھا۔ زندگی اور کتنی خوبصورت ہو سکتی ہے ایسے نوجوان کے لیے۔ پھر ایک اور تصویر سامنے آتی ہے۔ وہ گاڑی گولیوں سے چھلنی ہے۔ ایک اور تصویر سامنے ہے۔ زندگی سے بھرپور نوجوان اب ایک لاش بن چکا ہے۔ وہ گاڑی اس کا تابوت بن گئی ہے۔

کہانی وہی پرانی ہے جو ہم ساہیوال میں سن چکے ہیں۔ وہاں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ننھے بچوں سے بھری گاڑی کا تعاقب کر کے اور گھیر کر اس پر فائرنگ کی تھی اور اسے مقتل گاہ بنا دیا تھا۔ یہاں بھی انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے یہ دہشت گردی کی ہے۔ بتاتے ہیں کہ تعاقب کر کے گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی تھی جس سے دو گولیاں اسامہ کو لگیں۔ خبروں کے مطابق چھے گولیاں پوسٹ مارٹم میں آ رہی ہے اور ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ گاڑی پر تین اطراف سے سترہ فائر کیے گئے تھے۔

ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد ٹویٹر پر فرماتے ہیں کہ پولیس کو رات کو کال ملی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقہ میں ڈکیتی کی کوشش کر رہے ہیں، اے ٹی ایس پولیس کے اہلکاروں نے جو علاقہ میں گشت پر تھے، مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ  ’پولیس نے کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی بھگا دی پولیس نے متعدد بار جی 10 تک گاڑی کا تعاقب کیا نہ رکنے پر گاڑی کے ٹائروں میں فائر کیے، بدقسمتی سے دو فائر گاڑی کے ڈرائیور کو لگ گئے جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔‘

پھر شاید ان کو شرم آ گئی یا انہوں نے معلومات حاصل کر لیں، اور یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی گئی۔

بہرحال ہو گا کیا؟ ہمارا خون کھولے گا۔ اپنے بچوں کی شکلیں نظروں کے سامنے پھریں گی۔ اسامہ کے ماں باپ کی حالت دماغ میں سناٹے کا عالم طاری کر دے گی۔ ایک سکتہ سا طاری ہو جائے گا۔ لیکن یہ سب تو سانحہ ساہیوال کے بعد بھی ہوا تھا۔ یہ سب تو تربت میں حیات بلوچ کے قتل کے بعد بھی ہوا تھا۔ یہ سب تو کراچی میں سرفراز شاہ کے قتل پر بھی دیکھا تھا۔

لیکن ہوا کیا؟ کس قاتل کو سزا ملی؟ ساہیوال کے ویڈیو ثبوت موجود تھے، سب قاتل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں معصوم قرار پائے۔ سرفراز شاہ کے قتل کے الزام میں سزا پانے والے رینجر اہلکار کو صدر ممنون حسین نے معافی دے دی۔ تربت کا واقعہ وقت کی گرد میں دفن ہو گیا ہے۔ کیا اب کچھ مختلف ہونے کی توقع ہے؟

بس دعا کریں کہ وزیراعظم قطر سے واپس آ جائیں تو ساہیوال کے سانحے کی طرح پولیس کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کر دیں اور واقعے کے ذمے داروں کو عبرتناک سزا دیں کہ اب تو معصوم شہریوں کی دہشت گردوں کے ہاتھوں اتنی اموات نہیں ہو رہیں جتنی انسداد دہشت گردی والوں کے ہاتھوں ہو رہی ہیں۔ جب تک وہ واپس نہیں آتے، ہم ان کے فرمان کی روشنی میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ جا اسامہ بیٹا سو جا،  ”سکون تو صرف قبر میں ہی ہے“ ۔

اسامہ کو تو سکون مل گیا، اس کے ماں باپ کا کیا ہو گا؟ انہیں تو ابھی قبر نہیں ملی۔ اور ہمارا کیا ہو گا؟ ہمارے اپنے بچوں کا کیا ہو گا؟ کیا ہم سب اپنی اپنی قبر کا انتظار کریں؟ کہیں کوئی بہتری کی امید نہیں ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar