جادوئی ملک: بادشاہ کی تلاش اور غدار وزیر اعظم کو سزائے موت


بچپن میں پریوں کی جادوئی کہانیاں سنتے تھے۔ ان میں کسی ایک کہانی میں ذکر تھا کہ دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے ایک ایسا ملک ہے جہاں چھے مہنیے رات اور چھے مہینے دن ہوتا ہے۔ بہت حیرت ہوتی تھی یہ سوچ کر کہ وہاں لوگ کیسے زندگی گذارتے ہوں گے۔ چھے مہینے سوتے رہتے ہوں گے اور پھر پورے چھے مہینے جاگ کر گذارتے ہوں گے؟ چھے مہینے بغیر کھائے پیے؟ جب ذرا بڑے ہوئے تو سننے میں آیا کہ یورپ اسکینڈے نیویا اور خاص طور پر ناروے ایک ایسی طلسماتی جگہ ہے جہاں چھے مہینے موسم سرما ہوتا ہے اور چھے مہینے موسم گرما۔ پھر سوچا کہ لوگ کیسے رہتے ہوں گے۔

اگر گلوب پر نظر ڈالیں تو ناروے بالکل اوپر ہے۔ لگتا ہے ذرا ادھر ادھر ہوئے تو کہیں پھسل کر گر ہی نہ جائیں۔ دنیا کے بالکل اوپر واقع ناروے ایک سرد ملک ہے۔ سردی کا موسم طویل بھی ہے اور شدت بھی رکھتا ہے۔ برفباری سے سڑکوں اور گلیوں میں پھسلن ہو جاتی ہے۔ ٹریفک کے حادثات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پیدل چلنے والے بھی سنبھل سنبھل کر چلتے ہیں اس کے باوجود گر کر ہاتھ پاوں تڑا لیتے ہیں۔

ایک اور بات جو یہاں کی بہت مشہور ہے وہ ہے مڈ نائٹ سن یعنی آدھی رات کا سورج۔ تصور کچھ ایسا بنتا ہے کہ تاریک سیاہ رات ہے، گھپ اندھیرا ہے اور پھر ایک دم سے کہیں سے سورج نکلا آتا ہے۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں دن بہت لمبے ہوتے ہیں۔ اور شمال میں تو دن ڈھلتا ہی نہیں۔ بس ذرا جھٹ پٹا ہوتا ہے اور پھر نئے دن کا سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ اسے آدھی رات کا سورج کہتے ہیں۔ یعنی ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا سا سماں۔ سردیوں میں معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ راتیں لمبی ہوتی ہیں اور دن بہت ہی مختصر۔ موسم سرما کافی لمبا ہوتا ہے۔ ستمبر میں خزاں کے ساتھ ہی سردی شروع ہوجاتی ہے۔ اکتوبر میں پہاڑوں پر برف گرنی شروع ہو جاتی ہے اور نومبر دسمبر تک سارے ملک میں برف کی چادر سی پھیل جاتی ہے۔ مارچ تک یہ جاڑوں کا موسم چلتا ہے اور اپریل مئی میں بہار کی آمد نظر آنے لگتی ہے۔ برف پگھل جاتی ہے اور جابجا سبزہ اور پھول کھل جاتے ہیں۔ موسم گرما مختصر ہے لیکن جب گرمی پڑتی ہے تو خوب پڑتی ہے۔ گلوبل ورامنگ سے کچھ زیادہ ہی گرمی ہو چلی ہے۔ کچھ سال پہلے تک یہاں ایر کنڈیشنر کا کوئی تصور نہیں تھا اب عام ہو رہا ہے۔

Aurora – Arctic Lights – Norway

ناروے اور اس سے ملے علاقوں میں شمالی قطبی روشنیوں آرورا کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ یہ ایک اچھوتا اور حسین منظر ہے۔ آسمان پر یکایک مختلف رنگوں کی قطبی روشینوں کا رقص سا نظر آتا ہے۔ یہ سچ مچ جادوئی سی یا کسی اور دنیا سے آنے والی روشنییان لگتی ہیں۔ دیکھنے والے مبہوت دیکھتے رہ جاتے ہیں۔

ناروے بہت خوبصورت ملک ہے۔ پہاڑ، جنگل، دریا، نہریں اور جھیلیں۔ ناروے ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے میں اب بھی لوگ کم ہی جانتے ہیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہایئوں تک ناروے اسکینڈے نیویا میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتا تھا۔ ناروے کو سویڈن اور ڈنمارک کا غریب کزن کہا جاتا تھا اور اس سے سلوک بھی ایسا ہی کیا جاتا تھا۔ لیکن ساٹھ کی دہائی کے آخر میں یہاں تیل کی دریافت نے ناروے کے حالات کو یکسر بدل ڈالا۔ معیشت کو تیزی سے آگے بڑھایا اور آج ناروے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔

ناروے میں جمہوریت ہے اور بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔ لیکن بادشاہت بھی ہے۔ ناروے میں بادشاہت کی تاریخ کوئی ہزار سال پرانی ہے۔ لیکن آج جو بادشاہت ہے اس کا تعلق کسی پرانے شاہی خاندان سے نہیں۔ کیونکہ ایک عرصے تک ڈنمارک اور سویڈن کے شاہی خاندان ہی ناروے پر سوار رہے۔ ناروے کو پوری خودمختاری حاصل کرنے میں کافی وقت لگا۔

لیکن ذرا ٹہریئے۔ تھوڑا پیچھے جاتے ہیں۔ آٹھویں صدی سے پہلے ناروے چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں بٹا ہوا تھا۔ جیسے ایک زمانے میں ہندوستان میں راجواڑے تھے۔ اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی سی سلطنیتیں۔ ایک دوسرے سے الجھتے لڑتے۔ ایک مرد جری آیا کہ نام اس کا ہارالڈ ہورفاگرے تھا۔ سن آٹھ سو بہتر میں اس نے سب کو جمع کیا اور اپنی بادشاہت قائم کر دی۔ یہ ناروے کا پہلا باقاعدہ بادشاہ تھا۔ گو کہ ناروے کی شاہی تاریخ ہزار سال سے اوپر ہے لیکن ماڈرن تاریخ میں ناروے کو لمبے عرصے تک مکمل آزدی میسر نہ آ سکی۔ ایک کمزور ملک ہونے کی وجہ سے کبھی ڈنمارک لے اڑتا کبھی سوئڈن دبوچ لیتا۔ غریب کزن کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ ناروے کی اپنی بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔

The-1814-constitutional-assembly-painted-by-Oscar-Wergeland

1814ء وہ یادگار سال تھا جب ناروے نے اپنے لیےایک راہ کا انتخاب کیا۔ یہ سال ناروے کی تاریخ میں اہم ترین سال ہے۔ ڈنمارک سے ٓآزادی ملی تو مجبوری کے تحت سویٗڈن کے ساتھ ایک یونین میں بندھنا پڑا۔ ملک کے کچھ بڑے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک دن ہم خود مختار ضرور ہوں گے۔ اور پھر اسی سال سترہ مئی کو ان اچھے لوگوں نے اپنے ملک کا دستور بنایا اور عہد کیا کہ جب بھی پوری خودمختاری ملی وہ ملک کو اس آئین کے تحت چلایں گے۔ یہ آئین ایک فلاحی مملکت کا تھا۔ غلامی میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی سمت متعین کر لی تھی۔ اب ہوا یہ کہ ناروے کے پاس آئین تو تھا لیکن خودمختاری نہیں تھی۔  دستور سویڈن کا تھا۔ سویڈن کا بادشاہ ہی ناروے کا بادشاہ تھا اور اسٹاک ہوم پایہ تخت۔ آج بھی سترہ مئی ناروے کا قومی دن ہے اور اسے بہت احترام اور پیار سے منایا جاتا ہے۔ اس آئین کی روشنی میں ناروے نے اپنی آزادی کی جدوجہد تیز کردی۔

آخر 1905ء میں ناروے کے ضبط کی انتہا ہو گئی اور وہ ہمت کر کے آزادی کی چاہ میں سویڈن کی اس یونین سے نکل گیا۔ سویڈن نے بھی اسے جانے دیا۔ اور ناروے کو مکمل آزادی نصیب ہو ہی گئی۔ ناروے کو ملک میں بادشاہت ہی چاہیے تھی وہ بھی اصلی شاہی خون والی۔ ناروے میں پرانے شاہی خاندان کا کوئی وجود باقی نہیں رہ گیا تھا۔  ناروے کو ایک بادشاہ کی ضرورت آن پڑی۔ مملکت بھی تھی، دستور بھی تھا، پارلیمان بھی تھی، منتخب نمائندے بھی تھے، تخت بھی تھا، تاج بھی تھا۔ لیکن بادشاہ نہیں تھا۔

Queen Maud and King Haakon VII 1906

بچپن میں یہ کہانی بھی پڑھی تھی تھی کہ ایک ملک کا بادشاہ فوت ہوگیا بے اولاد تھا اس لیے ملک کے رہنے والوں کو نئے بادشاہ کی ضرورت پڑی۔ فیصلہ ہوا کہ جو بندہ صبح سویرے شہر کے دروازے سے اندر داخل ہو گا اسے ہی بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہوا۔ ناروے کو بھی ایک بادشاہ درکار تھا۔ آس پاس نظر دوڑانے کے بعد پارلیمان کے ارکان نے ڈنمارک کے ایک شہزادے سے پوچھا کہ کیا وہ ناروے کا بادشاہ بننا پسند کرے گا۔ اس نے ہاں کہہ دی اور اس طرح ناروے کو اپنا پہلا بادشاہ مل گیا۔ اور اسے ناروے کے پرانے بادشاہوں کا ایک نام ہوکن دیا گیا۔ شاہ ہوکن اور ملکہ ماعود کی تاج پوشی ہو گئی۔ ملکہ کا تعلق برطانیہ کے شاہی خاندان سے تھا۔ پارلیمان نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ عوام کے منتخب نمایئدے ہی حکومت چلائیں گے اور اصل اقتدار پارلیمان کے پاس ہی ہوگا۔ بادشاہ اور اس کا خاندان سیاست سے الگ رہے گا۔ تخت اور تاج علامتی رہیں گے۔

ناروے کی قدیمی تاریخ وائی کنگز سے منسوب ہے جو کشتی بانی، لوٹ مار کرنے اور لڑنے مرنے میں شہرت رکھتے تھے۔ اپنی بنائی ہوئی کشتیوں اور جہازوں میں سمندری سفر کرتے آس پاس کے ملکوں میں لوٹ مار کرتے اور واپس آجاتے۔ نئے ناروے کو اپنی اس شناخت پر قدرے ندامت رہی اور وہ دنیا کے سامنے اپنا سوفٹ امیج دکھانا چاہتے تھے اور اسی کوشش میں تھے کہ پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی۔ اس سے سنبھلے تو دوسری جنگ آ پہنچی۔

پہلی جنگ عظیم میں تو ناروے نے غیر جانبدار رہ کر کسی نہ کسی طرح خود کو الگ کر لیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کی لپٹ میں ناروے بھی آیا۔ جرمنی نے حملہ کردیا اور ہٹلر کی فوجیں دندناتی ہوئی سویڈن کے راستے ناروے میں داخل ہو گیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ بادشاہ اور اس کے خاندان کو گرفتار کر کے ملک پر قبضہ کر لیا جائے۔ خوش قسمتی سے جرمنی کا فوجی بحری جہاز ڈوب گیا اور جرمن فوج کو آنے میں دیر ہوگئی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاہی خاندان کے افراد، چند وزیر اور اسمبلی کے کچھ ارکان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بادشاہ ہوکن اور ولیعہد اولا لندن میں جلا وطن ہوئے۔ اور ولیعہد کی بیوی اور بچے واشنگٹن امریکہ سدھار گئے۔ ناروے میں نازی فوجیوں کا قبضہ ہو گیا۔

یہاں سویڈن کا اہم کردار بنتا ہے۔ اس نے کمال مہارت سے خود کو غیر جانبدار رکھا لیکن جرمن فوجیوں کو اپنی زمین سے ناروے میں داخل ہونے دیا۔  ناروے کے اس وقت کے وزیر اعظم ویدکن کوئزلنگ نے بھی نازی فوجوں کا ساتھ دیا۔ چار سال جرمن فوجی ناروے میں اپنی حکومت چلاتے رہے۔ عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ نازیوں کو شکست ہوئی۔ ناروے آزاد ہو گیا اور پانچ سال کی جلا وطنی کے بعد شاہی خاندان بھی ملک واپس آگیا۔ ناروے والوں کا دل سویڈن کی جانب سے دکھا تو ضرور لیکن دل کی اس گرہ کو دشمنی نہیں بننے دیا اور آج دونوں ملک اچھے ہمسائے اور بہت اچھے دوست ہیں۔

1945ء میں ناروے کے سابق وزیراعظم کوئزلنگ پر غداری کا مقدمہ چلا۔ اس کے علاوہ ملکی وسائل کا ناجائز استعمال اور دولت کی خرد برد کا الزام بھی لگا۔ اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ چوبیس اکتوبر کو ایک فائرنگ اسکواڈ نے انہیں ہلاک کر دیا۔ اس واقعہ کے تین سال بعد ناروے نے قانون پاس کیا اور سزائے موت پر پابندی لگ گئی۔ کوئزلنگ کا نام اب غدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کوئزلنگ کی ایک چھوٹی سی پارٹی تھی نیشنل یونین پارٹی۔ جب نازی فوجیں ناروے میں داخل ہوئیں تو اگلے ہی دن اس نے نازیوں کا ساتھ دینے کے اعلان کے ساتھ ہی خود کو ملک کا وزیر اعظم ڈکلیر کر دیا۔ حالنکہ اس کی پارٹی کے پاس اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں تھی۔

German officers in front of the National Theatre in Oslo 1940


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).