کوئی تو زنجیر عدل کھینچے


آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ الفاظ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں ادا کیے۔ نئی ریاست کی تشکیل کے وقت یہ تھا ریاست کا وہ خاکہ جو اس ریاست کے بانی کے ذہن میں موجود تھا۔ ریاست کی مذہب سے علیحدگی کا اصولی نقطہ قائد نے اپنی تقریرمیں بیان کر کے ریاست کے مستقبل کی وضاحت کردی۔

اس کو یوں کہا جائے تو غلط نا ہوگا کہ ریاست کے اندر تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بیٹا تسلیم کر کے ریاست کو ماں کا درجہ دے دیا۔ جس طرح ماں اپنے بیٹوں میں تقسیم نہیں کر سکتی اسی طرح ریاست کی نظر میں ہرشہری برابر ہے۔ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ تمام شہری برابر کے حقوق و فرائض کا حق رکھتے ہیں اور تمام شہری بلاتفریق رنگ و مذہب مساوی ہیں۔

اس سب کے باوجود گزشتہ دنوں کرک میں مہاراج پریم ہنس کا مندر اور آشرم شدت پسندی کی نذر ہو گیا۔ قائد کے فرمان اور ملک کے آئین کو شدت پسندوں کے ایک گروہ نے اس مندر کی منہدم عمارت کے اندر دفن کر دیا۔ عمارتوں کے منہدم ہونے کے بعد ان کی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور ملبے سے معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ ملبہ بابری مسجد کا ہے یا پھر مہاراج پریم ہنس کا مندر ہے۔ پاکستان کی مشرقی سرحد کے دونوں اطراف کچھ گروہ ایسے بس رہے ہیں جن کو اپنی ریاستوں کی نظریاتی اساس، اپنی ریاستوں کے قانون اور آئین سے کوئی غرض نہیں ہے۔ دونوں طرف جب جس کا دل کرتا ہے مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر مسجد یا مندر گرا دیتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ریاست کیا کر رہی ہے۔ ریاست اتنی بے بس کیوں ہے۔ کوئی سانحہ ہو جانے کے بعد ہی ریاست کیوں حرکت میں آتی ہے۔ ریاست وہ حالات کیوں پیدا نہیں کرتی جس میں قانون اور آئین کی پاسداری کے لیے ذہن سازی کی جاسکے۔ ریاست سے یہ سوال بھی تو بنتا ہے کہ وہ معاملات جو ریاست کے ہاتھ میں ہونے چاہیں وہ عام لوگوں کے ہاتھ میں کیوں ہیں اور یہ معاملات ریاست اپنے ہاتھوں میں کب لے گی۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالے اور اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔

بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ریاست جہاں مذہبی معاملات پر کمزور ثابت ہوئی ہے وہاں پر سیاسی معاملات پر بھی گرفت نا ہونے کے برابر ہے۔ سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ملک کی سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ملک کی گیارہ سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کے نام سے الائنس بنا کر ریاستی اداروں کو متعین کردہ آئینی حدود میں کام کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ریاستی اداروں کا سیاسی کردار ختم ہونا چاہیے۔ اداروں کی پسند نا پسند سے ہٹ کر عوامی راے کے مطابق حکومتوں کی تشکیل ہونی چاہیے جو عوامی امنگوں کے مطابق حکمرانی کرسکیں۔

یکم جنوری کو پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس میں کہا کہ عمران خان ایک مہرہ ہے جس کے لیے جنہوں نے دھاندلی کی۔ عوام پر یہ حکومت مسلط کی۔ ہم اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور فوجی قیادت کو اس کا مجرم سمجھتے ہیں ہم نے تحریک کا رخ صرف مہرے کی طرف نہیں موڑنا بلکہ اس کے پیچھے کرسی والوں کی طرف بھی اس تحریک کو متوجہ رکھنا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو ڈیپ اسٹیٹ بنا دیا ہے۔

ڈیپ اسٹیٹ جیسے سنگین الزامات عائد ہونے کے بعد کیا اب بھی نیشنل ڈائیلاگ کا وقت نہیں آیا۔ کیوں ضرورت محسوس نہیں ہو رہی کہ ان الزامات کی وضاحت کی جائے اور ملکی سیاسی جماعتوں کی اعتماد سازی کے لیے کوششیں کی جائیں ان جماعتوں کو قومی سیاسی دھارے میں واپس لایا جائے۔ ان کے تحفظات کو دور کیا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ملک کے رکے ہوئے نظام کا پہیہ دوبارہ سے رواں ہو سکے۔ اس سارے کھیل میں شریک ہر کھلاڑی کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی انا سے بالاتر ہو کر ملک وقوم کے مفاد میں سوچنے کا وقت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین اس جنگ میں ہار صرف پاکستانی عوام کی ہونی ہے۔

پی ڈی ایم کے مطابق حکومت کو 31 جنوری تک کی مہلت دی گئی ہے اور اس کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ ہوگا اور یہ بھی فیصلہ ہوگا کہ دھرنا اسلام آباد میں دیا جائے یا راولپنڈی میں دیا جائے۔ ہر دوصورتوں میں دھرنا اورلانگ مارچ ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک ماہ کی مہلت بھی خوش آئند ہے کہ ایک ماہ کی مدت کافی ہوتی ہے جس میں بیک ڈور چینلز سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ کوئی بیچ کی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ اس تصادم کو روکا جاسکتا ہے اور اقوام عالم کے سامنے تماشا بننے سے پہلے ہی اگر معاملات خوش اسلوبی سے سیاسی انداز میں طے ہوجائی تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔

رہی بات ملک کی عوام کی تو حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں اور پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں کا اطلاع ہو کہ جس بائیس کروڑ عوام کی نمائندگی کا آپ دعویٰ کر رہے ہیں ان کے معاشی حالات بہت ابتر ہوچکے ہیں۔ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری نے انسانی زندگیوں کو نگلنا شروع کر دیا ہے۔ ارباب اختیار کو اطلاع ہو کہ عام پاکستانی اب بجلی، گیس کے بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہنرمندان آئین وسیاست کو اطلاع ہو کہ عام پاکستانی کو اب ایک وقت کا کھانا بمشکل مل رہا ہے۔ قوم کے مسیحاوں کو خبر ہو کہ عام آدمی اب بھی قابل علاج بیماریوں کے باوجود اپنی زندگی ہار رہا ہے۔ صاحب دستار کو بھی علم ہونا چاہیے کہ غربت نے دستاروں کو داغدار کرنا شروع کر دیا ہے۔ کوئی زنجیر عدل کھینچے کہ تخت نشین آقا کو خبر ہو کہ اس کی رعایا کے حالات اچھے نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).