فرات کے کنارے کتا


وزیراعظم صاحب نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالنے سے بھی کہیں پہلے سے اچھی اچھی باتیں کرنا اور اپنے لئے تاریخ کی کامیاب شخصیات اور بہترین ادوار حکومت کو بطور مثال چننا سیکھ لیا تھا۔ اس میں برائی بھی کچھ نہ تھی مگر بتے ملانے اور کچھ کر کے دکھانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔

فرات کے کنارے کتا تو کیا ہی بھوکا رہتا، پاکستان کی سڑکوں پر عوام بے آسرا ہیں۔ پولیس کا محکمہ ہمیشہ کی طرح بے نتھا بیل بنا ہوا ہے۔ سانحہ ساہیوال پر اس قدر شور مچانے کے باوجود جب معاملہ اسی طرح قالین کے نیچے چھپا دیا گیا جیسے سالہا سال سے ہوتا آیا ہے تو آج سانحہ اسلام آباد پیش آیا۔

سانحہ ساہیوال کو کتنے برس ہوئے ہوں گے؟ شاید انگلیوں پر گننے کی بھی ضرورت نہیں۔ سانحہ ساہیوال کو کس بھدے پن بلکہ ڈھٹائی سے دبایا گیا، یاد کرانے کی ضرورت نہیں۔ دکھ اور رائیگانی بہت حقیر لفظ ہیں۔ کسی جوان، بے گناہ بچے کی موت کا اندوہ بیان کرنے کی تاب نہ مجھ میں ہے نہ آپ پڑھ پائیں گے مگر حکومت وقت کے لئے یہ بھی ایک واقعہ ہے جس کی ذمہ داری وہ کل کی طرح آج بھی قبول نہیں کرے گی۔

کھوکھلے الفاظ اور کمزور لہجے میں روایتی مذمت اور سخت سے سخت کارروائی کرنے کا عزم دہراتے وزیر داخلہ صاحب کو شاید احساس نہیں تھا کہ الفاظ جب بے روح ہوتے ہیں تو ان کا وزن اس قدر ہوتا ہے کہ ادا کرتے ہوئے لہجے بوجھل ہو جاتے ہیں اور نظر جھک جاتی ہے، چاہے کہنے والا شیخ رشید ہی کیوں نہ ہو۔

ایک جوان لڑکا، جس کے لئے زندگی ابھی رباب کے تاروں پر چھڑا نغمہ تھی، اسے گولیوں سے بھونتے ہوئے غیر تربیت یافتہ پولیس والوں کو یہ تک معلوم نہ تھا کہ یہ سیدھی فائرنگ تو ماسوائے مخصوص حالات کے وہ کسی ڈاکو پر بھی نہیں کر سکتے۔

میں بھی ایک ماں ہوں اور اتنا جانتی ہوں کہ ایک بچے کو پال پوس کر بیس برس کا کرتے کرتے ماں خود جھک کے دوہری ہو جاتی ہے۔ ماں کی یہ کمر تب سیدھی ہوتی اور فخر سے سر تب بلند ہوتا ہے جب بیٹا اپنی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔

جس ماں کا جوان بیٹا گھر سے نکلے اور واپسی پر اس کی گولیوں سے چھلنی لاش واپس آئے تو اس ماں کی جھکی کمر کبھی سیدھی نہیں ہو پاتی نہ اس کے آنسو کبھی رک سکتے ہیں۔

وزیراعظم صاحب روحانیت پر بھی بہت اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ ماں کبھی بد دعا نہیں دیتی کسی کو بھی لیکن جب ماں کے دل سے آہ نکلتی ہے تو عرش کے پائے ہلا دیتی ہے۔

سانحہ ساہیوال پر ہمارے واویلے کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو شاید آج یہ معاملہ پیش نہ آتا لیکن یہاں تو اصلاحات کے نام پر جانے کیا کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ دکھ کی شکل نہیں ہوتی لیکن میری نظروں سے اسلام آباد کی سی ٹی ڈی سکواڈ کے ہاتھوں مارے جانے والے اسامہ کی شکل نہیں جا رہی۔

ہنستا مسکراتا، گیت گاتا جوان رعنا، جو چند لمحوں میں مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا، ان کے ہاتھوں جن کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے ٹیکس جمع کراتے کراتے اس ملک کے متوسط طبقے کی کمر کبڑی ہو گئی۔

اس بار بھی کچھ نہیں ہو گا۔ بیان بازیاں، مذمتیں، لاتیاں پوتیاں، قصے کہانیاں اور بس۔ لیکن اگر وزیراعظم صاحب کو واقعی، فرات کے کنارے بھوکے کتے کے لئے جواب دہ محسوس کرنے والی شخصیت کی مثال میں ڈھلنا ہے تو اس بار ایکشن لینا پڑے گا۔

ورنہ باتوں کا تو یہ ہے کہ بناتے رہیے۔ مگر بتاتے ہوئے یہ سوچ لیجیئے گا کہ اب کی بار بھی ماں کے کلیجے پر ہاتھ پڑا ہے۔ کتنی ماؤں کی آہیں لیں گے؟ پولیس کے نظام کی بنیاد ہی گل رہی ہے۔ اس بنیاد پر جو عمارت بنے گی نا پائیدار رہے گی۔

اب تو لکھتے ہوئے بھی رائیگانی کا احساس ہی رہتا ہے۔ پتھر کی سماعتوں پر ہمارے الفاظ کیا اثر کریں گے؟ جو دل سانحہ ساہیوال پر نہ پسیجے، جو کلیجے تربت کے واقعے پر نہ پھٹے، جن کو سرفراز کی موت پر شرم نہ آئی انھیں اب کیا فرق پڑے گا؟

بے حسی اور ڈھٹائی کے درمیان پیاز کا سا ایک باریک چھلکا ہوتا ہے جب وہ بھی نہ رہے تو یہ دونوں کیفیات ایک ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں پولیس کے محکمے کی اصلاح پر ڈھٹائی اختیار کر لی گئی ہے۔ یہ واقعات جس تسلسل سے پیش آ رہے ہیں اگر ہم خاموش رہے تو کل پھر یہ ہی ہو گا، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی۔

اس سلسلے کو کیسے روکنا ہے، کیوں کر روکنا ہے، یہ جن کا کام ہے وہ اپوزیشن کو کوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چکنے گھڑے جیسے یہ لوگ مشاہیر کے قول ادا کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی نہیں سوچتے کہ فرات تو بہت دور ہے، میں اپنے پایہ تخت ہی میں بے قصور مارے جانے والے انسان کی موت کا ذمہ دار ہوں اور مجھ سے سوال ہو گا۔

کتا نہیں ایک انسان مرا ہے اور آپ سب، جو اس کے ذمہ دار ہیں، جوابدہ ہیں۔ سخت سے سخت کارروائی کا فقط اعلان نہ کیجیئے، کر کے دکھایئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).