ناول ’پیرِکامل‘، ایک جائزہ


سید سبط علی، ڈاکٹر فرقان اور ان کے تمام ساتھی جو فلاحی کاموں میں حصہ لے رہے تھے ، وہ سب معاشرے میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ اور شاید ان کی زندگی میں ممکن نہ ہو مگر وہ ایک ایسی بنیاد ضرور فراہم کر دینا چاہتے تھے جس پر بعد میں آنے والی نسلیں تعمیر کرتی رہیں۔ سالار اب پریکٹیکل مسلمانوں سے متعارف ہو رہا تھا جو دین اور دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے اور دونوں انتہاؤں کے بیچ کے راستے پر چلنے کا طریقہ جانتے تھے۔

ایک دوست اسے اپنی گرل فرینڈ امامہ کے بارے میں بتاتا ہے جس کا تعلق ریڈ ایریا سے تھا تو سالار کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ اس سے درخواست کرتا ہے کہ مجھے اس سے ملا دو۔ لیکن وہاں پہنچ کر وہ جب دیکھتا ہے کہ وہ کوئی دوسری لڑکی ہے تو وہ وہیں سجدے میں گر جاتا ہے۔ اسے اللہ کی ایک نئی پہچان ہوتی ہے اور وہ اس کا شکر بجا لاتا ہے کہ اللہ نے اسے ایک بہت بڑی اذیت سے بچا لیا ہے۔ اللہ چاہے تو سب کچھ کر سکتا ہے۔

وہ اللہ کے حضور بلک بلک کر روتا ہے۔ اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ امامہ سے محبت کرنے لگا ہے۔ اس نے بیرون ملک ملازمت سے استعفٰی دے دیا اور مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ فلاحی کاموں میں اسے سکون ملنے لگا۔ لاہور میں ایک غیر ملکی بنک میں ملازمت کرنے لگا اور مختلف اداروں میں معاشیات پر لیکچر بھی دینے لگا۔ لاہور میں قیام کے دوران سید سبط علی اور ڈاکٹر فرقان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا۔

یہ لوگ دیہاتوں میں زیادہ سکول کھولنا چاہتے تھے تاکہ وہاں کے غریب لوگ تعلیم سے بہرہ ور ہو کر باشعور ہوں اور بہتر روزگار بھی حاصل کر سکیں۔ ڈاکٹر سبط علی فرماتے ہیں کہ اسلام تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ آپ ہر وقت سر پر ٹوپی پہنے، ہاتھ میں تسبیح پکڑے، مصلٰی بچھائے بیٹھے رہیں۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتا ہے، دیانت داری اور لگن چاہتا ہے، اخلاص اوراستقامت مانگتا ہے۔

اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کا متاثر کرتا ہے۔ سالار کو ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں ایک رہبر مل گیا تھا، جس کی تلاش میں وہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی قوم پر عروج صرف اس لئے نہیں آیا کہ اسے ایک کتاب اور نبی دے دیا گیا۔ جب تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لیے اپنی اہلیت ثابت نہیں کر دی، وہ کسی مقام، کسی مرتبہ اور کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ آج کل مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اعلٰی طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکار ہیں۔

یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ سالار ڈاکٹر صاحب کی صحبتوں سے فیض یاب ہوتا رہا۔ ایک دن انہوں نے ”پیر کامل“ پر لیکچر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ”پیر کامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل سے اللہ کی عبادت کرتا ہے، نیک اور پارسا ہوتا ہے۔ اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے اس حد تک جس حد تک اللہ چاہے، اس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے، وہ لوگوں کو ہدایت دیتا ہے مگر اسے الہام نہیں ہوتا بلکہ اس پر وحی اترتی ہے اور وحی صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیر کامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا“۔

پیر کامل کی تلاش اللہ خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔ پیر کامل کی یہ تلاش ہی انسانوں کو ہر زمانے میں اتارے گئے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی اور پھر یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کر دیا گیا۔ آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کے لئے کسی اور پیر کامل کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے قرآن پاک میں بتا دیا ہے، صاف اور دو ٹوک الفاظ میں۔

وہ کام کریں جس کا حکم اللہ اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے دیتا ہے اور اس کام سے رک جائیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن کو کھول کر دیکھیے، کہیں کسی دوسرے پیر کامل کا اشارہ نہیں ملتا۔ پھر ہم کیوں خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ اپنے ہاتھ خود اٹھائیے، دعائیں مانگیے، اللہ اگر دے دے تو شکر ادا کیجیے، نہ دے تو صبر کیجیے۔ اگر زندگی کا قرینہ اور سلیقہ نہیں آ رہا تو اسوۂ حسنہ ﷺ کی طرف چلے جائیں، آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ احترام ہر کسی کا کریں، ہر مومن کا، ہر ولی کا، ہر بزرگ کا، ہر شہید کا، ہر صالح کا، ہر پارسا کا، مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور راہنمائی صرف حضرت محمدﷺ سے لیں۔ کیونکہ انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے بلکہ جو کچھ بتایا ہے وہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔

سالار کو آٹھ سال بعد اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سوالات کے جوابات مل گئے تھے۔ وہ جان گیا تھا کہ امامہ ہاشم نے حضرت محمدﷺ کی محبت میں اپنا گھر اور خاندان کیوں چھوڑ دیا تھا۔ سالار کے دل میں ابھی تک امامہ کے سلسلے میں بے سکونی تھی۔ ایک دن اس کے والد نے بتایا کہ امامہ نے ایک مرتبہ ان کو فون کر کے سالار کے بارے میں پوچھا تھا مگر انہوں نے جھوٹ بولا کہ سالار مر چکا ہے۔ یہ سن کر تو وہ اور بھی زیادہ مایوس ہو گیا کہ میری موت کی خبر سن کر تو وہ آزاد ہو گئی ہو گی اور شاید کسی اور سے شادی بھی کر چکی ہو۔

اسی مایوسی کے عالم میں وہ عمرے پر چلا جاتا ہے۔ وہاں حرم میں بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ اس دوران وہ خواب میں اپنے آپ کو باب کعبہ کے سامنے بلند آواز میں تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ امامہ ہاشم اس کے بائیں کندھے کے پیچھے کھڑی دھیمی آواز میں تلبیہ پڑھ رہی ہے، وہ اس کو مڑ کر دیکھتا ہے اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ جاگنے کے بعد وہ ملتزم کے پاس جا کر اللہ تعالٰی سے رو رو کر اور گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا ہے کہ اے میرے اللہ میں یہاں تیرے گھر میں کھڑا ہو کر تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔

میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔ میں اپنی نسل کے لیے اس عورت کو مانگتا ہوں جس نے آپ کے پیغمبر ﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشوں کو چھوڑ دیا۔ دوسری جانب امامہ بھی ایسا ہی خواب دیکھتی ہے۔ وہ ڈاکٹر سبط علی کی بیٹی کی سہیلی بن جاتی ہے اور ان کے گھر میں پناہ لیتی ہے۔ اپنا نام بدل کر آمنہ رکھ لیتی ہے تاکہ پہچانی نہ جا سکے۔ اپنے سارے حالات ان کو بتا دیتی ہے۔ وہ اس کی بھر پور مدد کرتے ہیں، اس کی تعلیم مکمل کراتے ہیں۔

وہ ایم ایس سی کیمسٹری کر کے کسی فارماسیوٹیکل کمپنی میں ملازمت کرنے اور سبط علی کی ایک رشتے میں بہن کے گھر رہنے لگتی ہے جو لوگوں کو اسے اپنی بیٹی کہہ کر متعارف کرواتی ہے۔ سالار کی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ مل جاتا ہے اور سبط علی کی مدد سے اس کا نکاح دوبارہ امامہ سے ہو جاتا ہے۔ شادی کے بعد دونوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سالار سکندر ہے اور وہ امامہ ہاشم ہی ہے۔ دونوں اللہ کے فیصلے پر ایمان لاتے ہیں۔

مصنفہ عمیرہ احمد نے اس کتاب میں ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں اپنا عقیدہ درست اور پختہ رکھنا چاہیے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے لیے ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول اور اس کی سنت ہی کافی ہے۔ اور ”پیر کامل“ صرف حضرت محمدﷺ ہی ہیں جو کہ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کا اسوۂ حسنہ ہمارے لئے نجات کی راہ ہے۔ آپ ﷺ کے علاوہ ہمیں کسی دوسرے پیر کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (جزاک اللہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2