پی ڈی ایم کا اگلا پڑاؤ اسلام آباد یا راولپنڈی؟


ہماری ملکی سیاست بہت عجیب ہے۔ ہر دور میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں تو جو جماعت دوسرے نمبر پر آتی ہے وہ ہمیشہ دھاندلی کے الزامات لگاتی ہے۔ پھر وہی جماعت ایک دو برس اپنے جلسے کر کر کے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پھر دھرنے اور لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہیں۔ دھرنے اور لانگ مارچ تو ہر دور حکومت میں ہوتے ہی ہیں اور حکومت اور عوام کے لیے باعث تکلیف ہوتے ہیں۔ان دھرنوں سے ملتا تو کچھ بھی نہیں ہے البتہ ملک کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

اگر فائدہ ہوتا بھی ہے تو صرف اسی جماعت کا جو دھرنے اور لانگ مارچ کر رہی ہوتی ہے۔ مگر دیکھا جائے تو آج تک جس جماعت نے بھی دھرنے اور لانگ مارچ کیے ہیں ، ان کے ہاتھ سوائے رسوائی کے کچھ بھی نہ آ سکا۔ چاہے وہ طاہر القادری ہوں، عمران خان ہوں، مولانا خادم رضوی، مولانا فضل الرحمن یا نواز شریف ہوں، کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ آیا۔

دھرنے میں ہر جماعت کے ایک ہی مطالبات ہوتے ہیں بس مطالبات کی شکل اور بیانات مختلف ہوتے ہیں۔ آج کل جو بھی نیوز چینل لگاؤ ،وہاں لانگ مارچ اور دھرنوں کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ میں جب بھی لانگ مارچ کا سوچتا ہوں تو مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ پھر سے لانگ مارچ کر کے کیا حاصل کر لیں گے۔ کیا پی ڈی ایم اتحاد کی جماعتوں کو اس بات کا علم نہیں کہ اس کے بعد حاصل کچھ بھی نہیں ہو گا؟ کہیں یہ لانگ مارچ استعفے اور دھرنے مریم نواز کی خواہش اور مولانا فضل الرحمن کی ضد تو نہیں؟

کیا مریم نواز صاحبہ کے اس بیانیہ پر ان کی اپنی پارٹی ان کے ساتھ کھڑی ہے؟ مریم نواز صاحبہ نے تو مرتضیٰ جاوید عباسی اور سجاد اعوان کو استعفیٰ دینے کا کہا تھا مگر وہ دونوں تو اپنے استعفوں سے ہی مکر گئے تو اس سے مسلم لیگ نون کا کیا تأثر جاتا ہے؟ کیا واقعی  نون لیگ استعفے دینا چاہتی ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ نون لیگ استعفے دے گی کیونکہ نون لیگ کی سینئر قیادت کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے کہ استعفے دینا بچکانہ حرکت ہے اور اس سے ایک غلط روایت جنم لے گی اور پھر ہر دور حکومت میں اپوزیشن یہ راستہ اختیار کر کے حکومت اور ملک کے حالات خراب کرے گی۔

ن لیگ کے بہت سے اراکین مریم نواز کے اس بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتے مگر مجبوری میں جی حضوری کر رہے ہیں۔ اب جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے استعفوں اور لانگ مرچ پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے تو ٹیم کافی مایوس دکھائی دے رہی ہے۔ اب ان کو سمجھ نہیں آ رہا کیا کریں؟ اتحاد کو بھی نہیں توڑنا چاہتے اور حکومت کو بھی گرانا چاہتے ہیں۔ ایسے حالات میں مولانا نے ایک نئی بات کی جو بہت ہی خطرناک اور حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کی جانب بھی موڑ سکتے ہیں۔

اس بات سے مولانا کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟  کیا وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو ہیڈ کوارٹرز کے باہر دھرنا دینے کا سوچ رہے ہیں؟ کیا اس فیصلے میں باقی جماعتیں مولانا کا ساتھ دیں گی؟ اگر اس طرح کا کوئی بھی دھرنا دیا گیا تو راولپنڈی میں موجود عسکری قیادت کا اس پر کیا ردعمل ہوگا جو ابھی تک خاموش دکھائی دے رہی ہے؟ اگر ایسا ہوا تو کوئی نہیں جانتا کہ ملک کی سیاست کس جانب جائے گی۔

کیا مولانا فضل الرحمن عسکری قیادت کے سامنے یہ مطالبہ رکھیں گے کہ وہ سیاست میں مداخلت سے گریز کریں۔ ان کے مطالبات کیا ہوں گے؟ مطالبات کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ حکومت تو اپوزیشن کے ساتھ گرینڈ ڈائیلاگ کرنے کی بات کو بھی نہیں مان رہی۔ ایسی صورتحال میں پی ڈی ایم کی قیادت کیا فیصلہ کرے گی۔

میرا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس فیصلے سے دور رہے گی کیونکہ وہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور وہ اس فیصلے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی۔ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ پی ڈی ایم اپنا پڑاؤ کس شہر میں ڈالے گی۔ کیا وہ شہر اقتدار ہو گا یا اس کے ساتھ موجود راولپنڈی؟ امید ہے کہ اپوزیشن اپنے ساتھ ساتھ ملک اور اس کے عوام کے بارے میں بھی سوچے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).