پاکستان کے معاملے میں سعودی چینی تناؤ اور عمران خان کا جرات مندانہ موقف


نیوز ویب سائٹ یوریشن ٹائمز کی خبر کے مطابق پاکستان کے معاملے پر سعودی عرب اور چین میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب نے گوادر پاکستان میں آئل سٹی کی تعمیر کے لیے سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ جنوری دو ہزار انیس میں سعودی وفد نے گوادر کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں چین کے سفارتی ترجمان نے اظہار ناراضی ظاہر کرتی کچھ ٹویٹ بھی کی تھیں۔ پاکستان نے حال ہی میں سعودیہ کو جو دو ارب ڈالر ادھار واپس کیا ہے۔ وہ چین نے ہی ایمرجنسی بنیادوں پر فراہم کیا ہے۔

سعودیہ چین کو تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔ اگست دو ہزار انیس سے چین نے سعودیہ سے تیل کی خرید تقریباً ختم کر رکھی ہے اور اس کا درجہ تیل کے سب سے بڑے سپلائر سے گھٹا کر تیسرے نمبر پر کر دیا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتیں بہت زیادہ گر گئی تھیں جس سے تیل کی سعودی صنعت شدید دباؤ میں تھی۔ ایسے میں چین نے موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے تیل کے بڑے سودے کر کے 2021 سے بھی آگے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سستا تیل ذخیرہ کر لیا تھا۔ چین سے تیل کی خریداری روک کر اور پاکستان کے پیسے واپس کرا کے ایک قسم کا سفارتی پیغام ہی دیا گیا ہے۔

پاکستان پر اپنے قرض واپسی کے لیے دباؤ ڈالتا سعودی عرب الٹا چین کی صورت ایک اہم گاہک گنوا کر اپنا اربوں ڈالر کا نقصان کر بیٹھا ہے۔ جبکہ پاکستان نے سعودی مطالبات تسلیم کرنے کے لیے کسی قسم کی لچک ظاہر نہیں کی۔

اکیس دسمبر 2020 کو پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر سعید المالکی نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی۔ عمران خان کی باڈی لینگویج سے ان کے ایک سخت اور جرات مندانہ موقف کا پتہ چلتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس تناظر میں سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا دورہ ضروری ہو گیا تھا تاکہ وہ عمران خان کی حکومت کو مطمئن کر سکیں۔

اطلاعات کے مطابق پاکستان پر سعودی عرب کا شدید دباؤ تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے مگر پاکستانی حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر چین کی مدد شامل نہ ہوتی تو پاکستان کے لیے خراب معاشی صورتحال کے سبب انکار کرنا نہایت دشوار ہو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).