بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے 11 مزدوروں کا قتل، لواحقین کا تدفین سے انکار


اس سے قبل بھی سورینج، مارواڑ، سنجدی، مچھ، ہرنائی اور دُکی سے کان کنوں کو اغوا کیا جاتا رہا ہے۔ جن میں سے بعض کو قتل بھی کیا گیا۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد لواحقین نے کوئٹہ میں مغربی بائی پاس کے مقام پر احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے قاتلوں کی گرفتاری تک تدفین نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب شیعہ تنظیم ‘مجلس وحدتِ مسلمین’ بھی دھرنے میں شامل ہو گئی ہے۔ مظاہرین نے میتیں بھی سڑک پر رکھی ہوئی ہیں اور شدید سرد موسم میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے کان کنوں کے قتل کا مقدمہ زیرِ دفعہ 224 اور 302 انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کر لیا ہے۔

خیال رہے کہ مچھ کے علاقے گیشتری کی کوئٹہ کوئلہ فیلڈ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردوں نے کئی مزدوروں کو اغوا کر لیا تھا۔ حکام کے مطابق شناخت کے بعد بلوچستان کی شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے 11 کان کنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

‘مجلس وحدتِ مسلمین’ نے کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ میتوں کی تدفین اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن تشکیل نہیں دیا جاتا۔

ادھر کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود واقعہ کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا۔

دوسری جانب شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

تنظیم کے زیرِ اثر نیوز ایجنسی ‘عماق’ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دولت اسلامیہ کے اراکین نے ہزارہ برادری کے 11 کان کنوں کو ہلاک کیا۔

ادھر کوئٹہ میں سخت سردی کے باوجود لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگ کھلے آسمان تلے دھرنا دیے ہوئے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

دھرنے کے باعث معربی بائی پاس قومی شاہراہ دونوں اطراف سے ٹریفک کے لیے گزشتہ روز سے مکمل بند ہے۔

اس سے قبل ہزارہ قومی جرگہ نے پیر کو میتیں دفنانے کا اعلان کیا تھا تاہم لواحقین نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا۔

گزشتہ روز واقعے کے بعد لواحقین نے ہلاک ہونے والے مزدوروں کی میتوں کے ہمراہ بلوچستان اور سندھ کو ملانے والی قومی شاہراہ پر مچھ کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔

بعدازاں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے رکنِ صوبائی اسمبلی قادر نائل سے کامیاب مذاکرات کے بعد میتوں کو کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن کے ولی العصر امام بارگاہ پہنچایا گیا تھا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی مچھ واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو حکم دیا تھا کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔

مچھ, بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر بولان کے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہے۔ یہاں کوئلے کی کانوں کے علاوہ قدیم کوئلہ ڈپو بھی ہے۔ جہاں ملک بھر سے کان کن کام کی غرض سے آتے ہیں۔

یہاں پر موجود مچھ جیل کا شمار ملک کی بڑی اور قدیم جیلوں میں ہوتا ہے۔

اس سے قبل بھی سورینج، مارواڑ، سنجدی، مچھ، ہرنائی اور دُکی سے کان کنوں کو اغوا کیا جاتا رہا ہے۔ جن میں سے بعض کو قتل بھی کیا گیا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa