انڈیا کا زیرانتظام کشمیر: سابق عسکریت پسندوں کی پاکستانی بیویوں کا سفری حقوق نہ ملنے کی صورت میں ایل او سی کی جانب مارچ کرنے کا اعلان
’میں نے یہاں ایک نجی سکول میں کام شروع کیا۔ لیکن مجھے یہاں آ کر پتہ چلا کہ ہم دراصل بے وطن ہوگئے ہیں، نہ ہمیں واپس جانے کی اجازت ہے نہ یہاں شہری حقوق حاصل ہیں۔‘
یہ کہنا ہے بینکنگ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طیبہ اعجاز کا جن کا تعلق پاکستان کے شہر ایبٹ آباد سے ہے اور اس وقت وہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے پٹن ضلع میں اپنے کشمیری خاوند اور تین بچوں کے ساتھ رہائش پزیر ہیں۔
طیبہ اعجاز ان خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے پیر کو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر اپنے سفری حقوق کا مطالبہ کیا ہے اور نہ ملنے کی صورت میں ایل او سی کی طرف مارچ کا اعلان کیا ہے۔
وہ اُن 300 سے زیادہ خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے برسوں پہلے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے بھاگ کر پاکستان پہنچنے والے عسکریت پسند کشمیری نوجوانوں کے ساتھ شادیاں کی تھیں۔ یہ نوجوان بعد میں پاکستان میں ہی مقیم ہو گئے تھے۔
دس سال قبل سابق عسکریت پسندوں کے لیے انڈین حکومت نے ’باز آباد کاری‘ کی مہم کا اعلان کیا تو بعض نوجوان اپنی پاکستانی شہریت رکھنے والے بیویوں اور بچوں کے ہمراہ انڈیا کے زیر انتطام کشمیر لوٹ آئے تھے۔
لیکن ان خواتین کو نہ شہری حقوق ملے نہ سفری دستاویزات۔
یہ بھی پڑھیے
سابق عسکریت پسندوں کی پاکستانی بیویاں جموں کشمیر کے انتخابات میں سرگرم
کشمیر انتخابات: ’میں ہندوستانی ہوں نہ پاکستانی، آخر میرا قصور کیا ہے؟‘
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین
’نہ سسرال اپناتا ہے نہ پاکستان جانے کی اجازت‘
طیبہ اعجاز نے چند سال قبل شمالی کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے قریبی قصبہ ٹیٹوال کا دورہ کیا جہاں کشمیر کے دونوں حصوں میں مقیم کشمیریوں کے منقسم خاندان ایک دوسرے کو پتھر سے باندھ کر خط پھینک دیتے ہیں۔
’ندی میں پانی بہت تھا۔ مجھے نظر نہیں آیا، پھر میں نے دُوربین سے اپنے بوڑھے ماں باپ کو دیکھا۔ اُنھوں نے خط پھینکا، میں نے خط کو چوم لیا اور میرا دل کرتا تھا کہ اُسی تیز بہاؤ والے دریا میں کُود جاؤں اور اپنے والدین کو گلے لگا لوں۔‘
سرینگر میں پریس کانفرنس اور مطالبات
گزشتہ دس سال سے یہ خواتین انڈیا کی حکومت سے سفری حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پیر کو سرینگر میں منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران ان خواتین کی ترجمان سائرہ جاوید نے بتایا کہ ’ان خواتین میں سے بعض کی طلاق بھی ہو چکی ہے، ایک خاتون نے خودکشی بھی کرلی ہے۔‘
سائرہ جاوید نے ان سبھی خواتین کی طرف سے انڈیا کی حکومت سے اپیل کی کہ ’پہلے ہمیں یہاں باز آبادکاری منصوبے کے تحت لایا گیا، اب ہمیں ’ملی ٹینٹ‘ (شدت پسند) کی بیویاں کہہ کر غیر قانونی مہاجر کہتے ہیں۔ ہم نے بار بار کہا کہ اگر ہم غیر قانونی مہاجر ہیں تو آپ کے یہاں کوئی قانون تو ہوگا، ہمیں سزا دیجیے اور پھر اپنے شوہروں اور بچوں کے ہمراہ واپس گھر جانے دیجیے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا اب بھی نہ ہوا تو ہم بال بچوں سمیت لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کریں گے، اور پوری دُنیا دیکھے گی کہ ہم کس بے چینی کا شکار ہیں۔ ہم وہاں سے نہیں ہٹیں گے، یا ہم اپنے والدین سے ملیں گے یا گولی کھائیں گے۔
تصویر کا دوسرا رُخ یہ بھی ہے کہ بلدیاتی اداروں کے لیے ہونے والے حالیہ انتخابات میں ان میں سے دو خواتین نے حصہ بھی لیا۔ تاہم دونوں کے انتخابی نتائج التوا کا شکار ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والی صومیہ صدف نے کپوارہ کے باترگام ضلع سے ترقیاتی کونسل کے لیے الیکشن لڑا جبکہ بانڈی پورہ میں شازیہ اختر نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔
جب ان خواتین کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تو پاکستان کے زیر انتظام علاقوں سے تعلق رکھنے والی دیگر خواتین نے یہ کہہ کر احتجاج کیا تھا کہ ’اگر وہ الیکشن لڑسکتی ہیں تو ہم کو پاسپورٹ کیوں نہیں ملتا۔‘
تاہم انتخابی نتائج کے روز دونوں نشستوں کے نتائج التوا کا شکار ہوگئے۔ انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کا الزام تھا کہ ایسا ان کے پاکستانی تعلق کی وجہ سے کیا گیا جبکہ جموں کشمیر الیکشن کمیشن کے دفتر سے جاری ایک حکمنامے میں بتایا گیا تھا کہ ووٹ شماری کا عمل فقط اس لیے مؤخر کیا گیا کہ نامزدگی کے فارم میں درج بعض معلومات نامکمل تھیں۔
- انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے - 19/04/2024
- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).