ایک انسان کی حوصلہ افزائی کیوں ضروری ہے؟


یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر انسان منفرد ہے۔ انسان کو تبدیل کرنے سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اسے اس کی انفرادیت کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے۔ ایسا کرنا معاشرے میں مثبت رجحانات کو فروغ دیتا ہے کیونکہ دنیا میں ہر شخص اپنی صلاحیت کے حوالے سے تحسین کا خواہش مند ہے۔ موجودہ دور معلوماتی انقلاب کا دور ضرور ہے مگر معلومات کے اس سیلاب نے انسان کو انسان سے دور بھی کر دیا ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی طرح کے جبر کا شکار ہے۔

ہر انسانی وصف سرمائے کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ اخلاقی اقدار سرمائے کے بوجھ تلے سسک رہی ہیں۔ پروفیشنلزم کی قینچی سے تراش خراش کر کے ایک نئی طرح کا آئیڈیل انسان بنا دیا گیا ہے۔ دنیا میں آگے بڑھنے کے مواقع محدود ہیں جس سے مسابقت کی دوڑ روز بروز تیز ہوتی جا رہی ہے۔ جو لوگ اس دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں ان کو معاشرہ ہر حوالے سے نظر انداز کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ مایوسی اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلتا ہے اور بعض اوقات بات لڑائی جھگڑے سے ہوتی ہوئی کسی سنگین حادثے تک جا پہنچتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اگر ان کی صلاحیت کا احساس دلایا جائے اور یہ باور کروایا جائے کہ وہ باقی لوگوں سے منفرد ہیں اور دنیا میں ان کی اپنی ایک اہمیت ہے تو وہ مایوسی اور ڈپریشن کی کیفیت سے نکل کر زندگی کی دوڑ میں واپس آ سکتے ہیں۔

برٹنی ڈیرس کولوراڈو امریکہ میں رمپارٹ ہائی سکول میں انگلش کی استاد ہیں۔ جب برٹنی نے اپنی ایک طالبہ کی مسلسل غیر حاضری کی وجہ جاننے کے لئے اس کے گھر رابطہ کیا تو انہیں پتا چلا کہ اس طالبہ نے خود کشی کی کوشش کی، پولیس کی بروقت مدد سے اسے بچا لیا گیا اور کئی دن سے وہ ہسپتال میں زیر علاج تھی۔ وہ مرنا چاہتی تھی کیونکہ اس کے والدین نے تعلیمی میدان میں جو امیدیں اس سے وابستہ کر رکھی تھیں، انہیں پورا کرنا اس کے لیے خاصا مشکل ہوتا جا رہا تھا اور یہ مسلسل ذہنی دباؤ وہ برداشت نہ کر پائی۔

یہ بات برٹنی کو بہت زیادہ پریشان کر گئی اور اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ اس صورتحال میں وہ کیسے اس طالبہ کی مدد کر سکتی ہے۔ اس نے ایک خط لکھا اور ہسپتال میں داخل اس طالبہ کو بھجوا دیا۔ اس خط میں برٹنی نے اپنی طالبہ کی منفرد صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے اس کا اپنی ذات پر کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی اور اسے یہ باور کروایا کہ وہ مستقبل میں ایک منفرد مقام حاصل کر سکتی ہے۔ یہ خط اس کی زندگی میں امید کی ایک کرن ثابت ہوا اور وہ نئے سرے سے اپنی زندگی جینے کے لئے تیار ہو گئی۔

اس تجربے نے برٹنی پر گہرا اثر چھوڑا اور اس نے اپنے طلبا کی حوصلہ افزائی کرنا اپنا معمول بنا لیا کیونکہ وہ جان چکی تھی انسانی سوچ کو مثبت رخ پر رکھنے میں حوصلہ افزائی نہ صرف بہت اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ زندگی میں امید کا دیا بھی جلا دیتی ہے اور یہ ہی امید زندگی کو کامیاب مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔ برٹنی نے سال میں ایک دفعہ ہر طالب علم کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک تعریفی سرٹیفکیٹ دینا شروع کر دیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ ٹرینڈ اس قدر مقبول ہوا کہ کولوراڈو میں تمام ہائی سکولز کے اساتذہ بھی اسی طرح اپنے طلبا کی حوصلہ افزائی کرنے لگے جس کے طلبا پر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ ایک سرکاری سروے کے مطابق اس اقدام سے کولوراڈو کے اسکول جانے والے بچوں میں خودکشی کے رجحان میں ایک ہی سال میں تین چوتھائی کمی واقع ہوئی۔ اگر غور کیا جائے تو برٹنی کا عمل بہت سادہ سا ہے مگر اس کے نتائج حیران کن ہیں۔

مذکورہ بالا واقعہ تعلیم سے متعلق ہے مگر زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہی داستانیں زبان زد عام ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی گھریلو خواتین سے لے کر کاروبار اور ملازمت سے وابستہ افراد اور اساتذہ تک، ہر شخص تحسین و تہنیت کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اس سے محروم ہے۔ ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کی ایک بہت بڑی وجہ حوصلہ افزائی کا یہ فقدان بھی ہے جس کے نتیجے میں یا تو انسان بیگانگی کا شکار ہو جاتا ہے یا اس کے مزاج میں غصہ بڑھ جاتا ہے، خرابیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور معاشرہ رفتہ رفتہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔

اگر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمارے اردگرد بہت سارے لوگ ہیں جن کے قریب سے ہم ایسے گزر جاتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ ہو حالانکہ وہ سب کسی نہ کسی درجہ کی کوئی سروس ہمیں فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک ذرا سی تحسین اور شکریہ ان کا حوصلہ بڑھا سکتا ہے مگر ہم اپنی ہی دنیا میں گم اس بات سے قطعی ناواقف رہتے ہیں کہ وہ سب ہمارے لئے کتنے اہم ہیں۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجیے کیونکہ ایسا کرنا ان میں ایک نئی روح پھونک دے گا۔ شکر گزاری کے یہ جذبات نہ صرف آپ کو اندر سے مضبوط کر دیں گے بلکہ معاشرے میں دوسروں کے دل میں آپ کے لیے محبت اور احترام بھی پیدا کر دیں گے۔ ایسا کیجیے تاکہ معاشرہ زندگی کے حسن سے مزین ہو جائے اور یہ بھی مان لیجیے کہ حوصلہ افزائی کی ضرورت آپ کو بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).