وبا میں اسٹریٹ اسکولوں کا کسی نے سوچا؟


تحریک پاکستان میں طلبا کے کردار سے کون واقف نہیں؟ تاریخ دان نے لکھا کہ قیام پاکستان کی تحریک میں شامل نوجوان کو والد نے نصیحت کی کہ ”تحریک کے کام میں کوئی غفلت نہ ہو، تم اگلے سال امتحان میں بیٹھ سکتے ہو، لیکن قوموں کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آتا“ ۔ دنیا نے دیکھا کہ سرسید کا لگایا ہوا پودا ایسا تناور درخت بنا، جس نے قیام پاکستان کے لیے ستون کا کام کیا۔

خط لکھنے کا زمانہ پرانا ہوا، یوں مؤرخ کے کان میں ایک والد کی آواز پڑی، بولے ”ایک سال ہونے کو ہے، وبا کے باعث تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ایسا جاری رہا تو بچوں کی تعلیم سے رغبت ختم ہو جائے گی“ ۔ قوم کا امتحان اب بھی ہے لیکن ہم نے میدان میں اترنے کا فیصلہ ترک کر رکھا ہے۔ ہم مورچوں میں دبکے بیٹھے وائرس ختم ہونے کے انتظار میں ہیں۔ بالکل اس شخص کی مانند جو ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا کہ اچانک خبر آئی کہ پڑوسی ملک کے ساتھ جنگ چھڑ گئی ہے۔ اس نے فوراً چینل بدلا اور ٹھنڈی آہ لیتے ہوئے بولا ”بس اب میں محفوظ ہو گیا ہوں“ ۔

کورونا وائرس ہمارے تعلیمی نظام کا امتحان تھا۔ نمبروں کی تفریق سے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا تعلیمی نظام اس امتحان میں بری طرح فیل ہوا۔ جو بارہ، چودہ، سولہ سال کی تعلیم ہمیں اس قابل نہ بنا سکی کے وبا کے دن چند احتیاطی تدابیر کے ساتھ تعلیمی اداروں میں گزار سکیں، ہم اس تعلیم سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمارے سر کامیابی کے سہرے سجائے گی، ہمارے لیے روزگار کے مواقع لائے گی اور ترقی کے نئے راستے کھولے گی۔

بچوں کے تعلیمی مستقبل کے بارے پریشان لوگ سوال کرتے ہیں کہ بازار، شادی ہال سب کھلے ہیں، اگر بند ہیں تو تعلیمی ادارے، یہ تفریق کیوں؟ ایک استاد سے ملاقات ہوئی جو فرصت کے لمحات بازار میں اپنے والد کی دکان پر گزارتے ہیں، بولے ”ایک دن اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے بازار کا دورہ کیا تو پورے بازار میں زبردستی ہی سہی لیکن احتیاطی تدابیر پہ عمل درآمد ہونے لگا۔ اول تو تعلیمی اداروں پر ایسا وقت نہیں آنا چاہیے کہ انہیں بازاروں کی طرح زبردستی احتیاطی تدابیر کا پابند بنایا جائے، تاہم انتہائی صورت میں زبردستی ایس او پیز پہ عمل کرایا جا سکتا تھا لیکن افسوس! ہم نے تعلیمی ادارے بند کرنے میں غنیمت جانی۔

کاروبار بند ہوئے تو کاروباری حضرات احتجاج کو آئے لیکن تعلیمی ادارے بند ہوئے تو شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد ایسے چپ ہوئے کہ راوی چین ہی چین لکھنے لگا۔ بحث ہوئی بھی تو سوشل میڈیا پر، جو آج کل تعلیم یافتہ لوگوں کی آماج گاہ ہے۔ اہل علم کی طرف دیکھنے والے اس امید میں تھے کہ ابھی بحث چل نکلے گی کہ وبا کے دوران تعلیمی سلسلہ کیسے بحال رکھا جائے لیکن ہمیشہ کی طرح پڑھا لکھا طبقہ اس بے معنی بحث میں الجھ گیا کہ وائرس ہے بھی یا نہیں۔

2005 کے زلزلہ میں ہونے والے تعلیمی نقصان پہ تحقیق کرنے والے ایک ریسرچر نے بتایا کہ ہم اس زلزلہ میں ہونے والے تعلیمی نقصان کا اب تک ازالہ نہیں کر سکے۔ اگر 2005 سے آغاز ہو تو 2010 کے سیلاب سمیت کئی قدرتی آفات اور دہشت گردی کی لہریں ہمارے راستے میں پڑتی ہیں۔ یوں 2020 میں ہونے والے اس نقصان تک پہنچنے کو صدی درکار ہے۔

16 دسمبر 2014 کے آرمی پبلک سکول کے واقعے سمیت چند واقعات ایسے بھی ہیں جن کا ازالہ کرنا ممکن نہیں۔ ایک سانحہ اس وبا کے دوران بھی ہوا۔ وہ والدین جو پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھاتے ہیں انہوں نے اتنے طویل تعلیمی وقفے اور معاشی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کمانے والوں کی دوڑ میں شامل کر لیا۔ ان بچوں کو اب تعلیم کی طرف واپس لانا دیوانے کا خواب لگتا ہے۔

اس فہرست میں وہ چھوٹے بھی شامل ہیں، جو اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ایسے بچے جو اپنا بچپن کمانے کی نذر کر دیتے ہیں۔ ان بچوں کے لیے پڑھنا ایک خواب ہوتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں ان کا یہ خواب پورا کرنے کو مالک کائنات نے فرشتہ صورت نوجوان اتارے۔ ان نوجوانوں نے وسائل نہ ہونے کا رونا رونے کی بجائے سڑک، میدان سمیت جہاں جگہ ملی سکول آباد کر لیے ۔ یہ اسٹریٹ سکول کہلائے۔ ان سکولوں کی بدولت شام کو گھر جاتے ان بچوں کے پاس ننھے ہاتھوں کی کمائی کے ساتھ نشوونما پاتے ذہن میں علم کی چند بوندیں بھی ہوا کرتی تھیں۔

کورونا ان بچوں کے سکول کھا گیا۔ باقی سکولوں کی عمارتیں موجود ہیں ، یوں ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک امید سے رہتی ہے کہ جلد ان سکولوں سے ہنستے، کھیلتے بچے باہر آئیں گے۔ لیکن سڑک کنارے آباد یہ سکول شاید پھر نظر نہ آئیں۔ سوتے میں خواب دیکھتے ہوئے آنکھ کھلے تو انسان پرسکون رہتا ہے، لیکن کھلی آنکھوں سے دیکھے ہوئے تعبیر پاتے خواب جب منزل مراد کو نہ پہنچ پائیں تو سکون آنا محال ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).