سہ ماہی اثبات کا تازہ شمارہ: ایک جائزہ


اشعر نجمی ایک شخصیت کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے۔ وہ ایک غیر معمولی ذہن کے مالک ہیں۔ وہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جو گنبد بے در میں بیٹھ کر اپنی ہی صدا کے اسیر رہتے ہیں بلکہ ان کی نگاہ زبان و ادب کے عالمی منظر نامے پر گہری ہے ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس اشعر نجمی جیسا غیر معمولی فکر رکھنے والا مدیر اور اثبات جیسا معیاری جریدہ ہے۔ اثبات نے شروعات سے ہی اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے۔

خصوصاً حالیہ برسوں میں اس کے جو خاص نمبر شائع ہوئے ہیں وہ یقیناً انتہائی اہمیت کے حامل ہیں خواہ وہ ادب میں فحش نگاری اور عریانی نمبر، سرقہ نمبر ہو یا احیائے مذاہب نمبر ہو نہ صرف اہم ہیں بلکہ ان کی دستاویزی حیثیت بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان موضوعات پر مواد جمع کرنا اور پھر اس مواد کو سلیقہ سے پیش کرنا بغیر جنون کے ممکن نہیں اور یہ جنون اشعر نجمی کی ذات کا حصہ ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے

مستانہ طے کروں ہوں رہ منزل خیال
تا بازگشت سے نہ رہے مدع۔ ا مجھے

اشعر نجمی کی جواں ہمتی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ نومبر 2020 میں انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اثبات کا عام شمارہ جنوری سے دوبارہ منظر عام پر لارہے ہیں۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ 2 دسمبر کو فیسبک کی برقی دیوار پر یہ میسج روشن ہوا کہ اثبات کا جنوری تا مارچ شمارہ منظر عام پر آ چکا ہے۔ ہم نے چونک کر جب فہرست پر نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ یہ عام شمارہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ فوراً اسے منگوا لیا۔ اور جب پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ عام شمارہ بھی کسی خاص شمارے سے کم نہیں ہے۔

شمارے کا اداریہ جامعاتی تحقیق کا کاروبار کے نام سے لکھا گیا ہے جو بڑا ہی چشم کشا ہے۔ اس اداریے میں اشعر نجمی صاحب نے یونیورسٹیوں میں جو پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا رہے ہیں ان کی پول کھولی ہے اس اداریہ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

”ایک بار دہلی میں قیام کے دوران میں ایک نوجوان دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے پاس ایک طالب علم آیا، دونوں کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں۔ طالب علم ساحر لدھیانوی پر پی ایچ ڈی کا مقالہ ان سے لکھوانا چاہتا تھا اور وہ اس کے لیے پچاس ہزار روپے دینے کو بھی تیار تھا لیکن میرے عزیز دوست نے انکار کر دیا، اس لیے نہیں کہ وہ اصول پرست آدمی تھے بلکہ اس لیے کہ انھیں ایک لاکھ روپے سے کم۔ معاوضہ قبول نہیں تھا۔“

آگے لکھتے ہیں کہ

”ایسا نہیں ہے کہ اس تحقیقی بدحالی پر صرف ہندوستان کی اجارہ داری ہے۔ پاکستان میں اس سے بھی برا حال ہے۔ لاہور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک دوست بتا رہے تھے کہ ایک صاحب کو رجسٹریشن کرانے کے چار سال بعد فکر لاحق ہوئی کہ مقالہ کیونکر لکھا جائے؟ ایک دن وہ پریشان حال اپنے کسی دوست کے پاس پہنچے اور اپنی داستان غم سنائی۔ وہ دوست کیا جو دوست کے کام نہ آئے۔ دوست صاحب بولے گھبراتے کیوں ہو، سامنے فوٹو اسٹیٹ والے کے پاس جاؤ۔ اپنی تحقیق کا موضوع بتاؤ اور موج کرو۔ یہ گئے فوٹو اسٹیٹ والے نے معاوضہ 1500 روپے بتلایا، یہ انکار کر کے لوٹ آئے اور لاک ڈاؤن ہو گیا۔ گزشتہ ہفتے نگران صاحب کی انھیں کال وصول ہوئی کہ میاں اس ماہ کی آخری جمعرات تمہارا Viva ہوگا، مقالے کا خلاصہ بھیج رہا ہوں پڑھ لینا۔ یہ ششدر کہ مقالہ کہاں سے آ گیا۔“

یہ سچ ہے کہ ہماری سہل پسندی اور ڈگری کی لالچ نے اردو جامعات کے تحقیقی پیراہن کو کسی حد تک داغدار کر دیا ہے ورنہ بقول مدیر ky ”کیا تحقیقی موضوعات کا کال پڑا ہے؟ پٹنہ کی خدا بخش لائبریری، کلکتہ کی ایشیا ٹک سوسائٹی، رام پور کی رضا لائبریری، انڈیا آفس لائبریری، حیدرآباد، علی گڑھ اور دوسرے شہروں کے کتب خانوں میں مخطوطات کے ذخائر موجود ہیں جو آج بھی کسی محقق کے دست ہنر مند اور مرد خرد مند کے منتظر ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ“ مردے از غیب بروں آیدوکارے بکند ”

اشعر نجمی

پہلا مضمون معروف فکشن رائٹر خالد جاوید کا ”افسانوی اور غیر افسانوی نثر ( فلسفیانہ اور بیانیاتی تناظر میں )“ کے عنوان سے ہے جس میں انھوں نے افسانوی اور غیر افسانوی نثر پر مستند حوالوں کے ساتھ سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مضمون نہ صرف وقیع ہے بلکہ فکشن کے طالب علموں کے لئے اس کا مطالعہ سود مند ہو گا

خالد جاوید کے اس اہم مضمون کے بعد معروف شاعر سعادت سعید کی تین نظمیں ”تسخیر مریخ“ ، ”عشق پیچیدگی“ ، اور ”بغاوت“ کے عنوانات سے شامل ہیں۔

صدیق عالم جدید اردو افسانہ نگاروں میں ممتاز ہیں۔ وہ بے پناہ تخلیقی وفور اور گہرے وجودی تجربے کی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ اثبات کے اس شمارے میں ان کے تازہ ناول ”مرزبوم“ کے دو ابواب شامل کیے گئے ہیں جن کی بہترین منظر نگاری اور جزئیات نگاری قارئین کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ واضح رہے کہ اس ناول سے پہلے ان کے تین ناول ’چار رنک کی کشتی‘ ، ’چینی کوٹھی‘ اور ’صالحہ صالحہ‘ کے نام سے منظر عام پر آ چکے ہیں جنہیں صاحبان نقد و نظر کے بیچ کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

یاسمین حمید کی چار غزلیں اس شمارے میں شامل ہیں۔ شاعری اور تراجم کے حوالے سے یاسمین حمید کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ جدید اور منفرد لہجے کی شاعرہ ہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں اور پانچواں زیرطبع ہے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان انہیں ”ستارۂ امتیاز ایوارڈ“ سے سرفراز کر چکی ہے۔

نوبل انعام یافتہ مصنف وی ایس نائپال کے افسانے کا عمدہ ترجمہ شیخ نوید نے ”میری طلائی دانتوں والی چچی“ کے نام سے کیا ہے۔ ادب و فن کے مرکزی عنوان سے جوزے اور تگیاسے کا مضمون ”فن اور اخراج بشریت“ بھی اس شمارے کی زینت ہے جس کا عمدہ ترجمہ ابراہیم رنگلا نے کیا ہے۔ ڈچ ماہر سیاسیات کاس مڈی اور ڈیگو پورٹالیس یونیورسٹی، چلی کے اسکول آف پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر کرسٹوبل رووترا کالتوسر کی مشترکہ کتاب Populism:A very short ’Introduction‘ سے ماخوذ ایک مضمون ”پاپولزم اور شناخت کا بحران“ اس شمارے میں شامل ہے جس میں پاپولزم کی اصطلاح کی علاقائی پس منظر کے لحاظ سے وضاحت کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ عوامیت پسند راہنما کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ سماج میں کیسے اپنی جگہ بناتے ہیں۔

معروف شاعر سلیم شہزاد کی پانچ نظمیں ’خواب کی تلاوت‘ ، کوئلہ بیمار پڑ گیا ’،‘ یاد کا جھینگر روتا ہے ’،‘ نارالوہی ’اور‘ تمازت کے مسام ’کے عنوانات سے شامل کی گئی ہیں۔

سلیم شہزاد کی نظموں کے بعد خالد جاوید کے تازہ ترین ناول ”ایک خنجر پانی میں“ کا کچھ حصہ شامل کیا گیا ہے۔

ہندوستان کے جدید شعراء میں شارق کیفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس شمارے میں ان کی آٹھ غزلیں شامل کی گئی ہیں۔

ظفر سید کا تحقیقی مضمون بعنوان ”علامہ اقبال اور ایما کا تعلق : عشق یا سادگی کی انتہا؟“ بڑا ہی دلچسپ ہے۔ اس تحقیقی مضمون میں علامہ اقبال کے ان خطوط کے حوالے سے دلچسپ حقائق بیان کیے گئے ہیں جو انھوں نے اپنی جرمن دوست ایملی ایما ویگیناسٹ کو لکھے تھے۔ ان خطوط سے علامہ اقبال کے اس روایتی تصور سے بالکل مختلف تصویر ہمارے سامنے آتی ہے جو ہم شروع سے ہی نصابی کتابوں اور یوم اقبال پر کی گئی تقاریر میں دیکھتے رہے ہیں۔ ان خطوط میں اقبال حکیم الامت اور مفکر پاکستان کم اور جذبات سے مغلوب نوجوان زیادہ نظر آتے ہیں۔

21 جنوری 1908 کو انھوں نے لندن سے ایما کے نام خط لکھا:

”میں یہ سمجھا آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں اور میرا دل ہمیشہ بڑے خوبصورت خیالوں سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے۔ اور ایک شعلے سے ایک بڑا الاؤ روشن ہوجاتا ہے۔ لیکن آپ سرد مہر ہیں، غفلت شعار ہیں۔ آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں کچھ نہ کہوں گا، ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔

اس دلچسپ مضمون کے بعد منیرہ سورتی کا افسانہ ’مستورہ اور موصوفہ‘ اور تنقید پر مبنی ناصر عباس نیر کا مضمون ”کیا گھوڑے خطا نہیں کرتے“ شامل ہیں۔

علی اکبر ناطق ایسے تخلیق کار ہیں جن کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف اردو کے ہر بڑے ادیب اور ناقد نے کیا ہے۔ اس شمارے میں ان کا لکھا ہوا ایک دلچسپ مرقع شامل کیا گیا ہے جس میں دلی کے بسنے کی روداد کو بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ عثمان قاضی کا لسانیات سے متعلق مضمون ”ہماری عربی دانی اور ہیچ مدانی“ بھی بڑا ہی دلچسپ ہے۔ معروف ادیب اور شاعر خورشید اکرم کی دو نظمیں ”مدرلینڈ مدرلینڈ بے وطن بے وطن“ اور ”دیکھو غضب ہو جائے گا“ کے عنوانات سے جبکہ معروف شاعر شفق سوپوری کی چار نظمیں ’تف ہے تم پر‘ ، ’انتباہ‘ ، ’میں کشمیر کا دانشور ہوں‘ اور پلیٹ والی بندوق ”کے عنوانات سے شامل کی گئی ہیں۔

معروف مذہبی مفکر عمار خان ناصر کا ایک دلچسپ مضمون ”مقدس شخصیات کی توہین اور جدید قوانین“ کے عنوان سے بڑا ہی اہم ہے۔ اس میں انھوں نے مختلف مواقع پر مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے اسلام مخالف لوگوں کو جو فائدہ پہنچا ہے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد معروف افسانہ نگار رضوان الحق کے نئے ناول ”خودکشی نامہ“ میں سے دو ابواب ’باب چہارم اور باب پنجم‘ بھی اس شمارے میں شامل کیے گئے ہیں۔ معروف شاعر کاشف حسین غائر کی چھ غزلیں، مسعود احمد کی چار غزلیں اور نئی نسل کے نمایاں شاعر عمیر نجمی کی چار تازہ غزلیں اس شمارے کی زینت ہیں۔

سنیما سے متعلق شیام بینیگل کے مضمون ”سیکولر ازم اور ہندوستانی سنیما“ کا ترجمہ عبدالمنان نے کیا ہے۔ اس کے بعد نوبل انعام یافتہ پولستانی ادیبہ اولگاتو کارچک کا بڑا ہی دلچسپ اور معلوماتی انٹرویو بھی ا ا شمارے میں شامل ہے جس کا ترجمہ نجم الدین احمد نے کیا ہے۔ معروف مورخ عرفان حبیب کا ایک تنقیدی مضمون بعنوان ”ایڈورڈ سعید: ایک تنقیدی جائزہ“ شامل کیا گیا ہے جس کا اردو ترجمہ ناظر محمود نے کیا ہے۔ لوئیزا الیزا بیتھ گلک جنہوں نے طاس وقت دنیا بھر کے اہل علم و ادب کو چونکا دیا تھا جب 2020 کے نوبل انعام برائے ادب کے لیے ان کے نام کا اعلان کیا گیا۔ اس شمارے میں ان کی دو نظمیں شامل کی گئی ہیں جن کا ترجمہ خان حسنین عاقب نے کیا

ہے۔ نوجوان افسانہ نگاروں میں دائم محمد انصاری کا افسانہ ’بستر پر اگا جسم‘ اور سفینہ بیگم کا افسانہ بعنوان ’سراب‘ شامل کیے گئے ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے یاسر اقبال کا مضمون ”موسیقی، لسانیات اور شاعری کی مشترکہ صوتیات“ شامل ہے جس میں انہوں نے موسیقی لسانیات اور صوتیات کے حوالے سے مدلل گفتگو کی ہے۔

ادریس بابر پاکستان کے جدید شعراء میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے 2014 میں اردو شاعری میں نئی صنف ’عشرہ‘ کا نیا تجربہ کیا۔ جس کا تعارف کراتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ”عشرہ۔ دس لائنوں پر مبنی شاعری کا نام ہے جس کے لیے کسی مخصوص صنف یا ہیئت، فارم یا ردھم کی قید نہیں۔ ایک عشرہ غزلیہ بھی ہو سکتا ہے اور نظمیہ بھی۔ قصیدہ ہو کہ ہجو، واسواخت ہو یا شہر آشوب ہو، بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور تو اور، یہ حمد و نعت کو بھی ویسا ہی مناسب ہے جیسا یہ سلام و منقبت کے لیے موزوں ہے۔

پھر یہ اتنی ہی آسانی یا دشواری سے پابند بھی ہو سکتا ہے، آزاد بھی اور تقریباً اسی طرح بلینک ورس بھی، نثری نظم بھی۔ یا ان میں سے کچھ یا سبھی کا کوئی آمیزہ۔ عشرہ وقت ضائع کرتا ہے نہ جگہ۔ ہاں کبھی کبھی بدل دیتا ہے ایک کو دوسرے میں“ ۔ اس نئی صنف کو بھی اسی شدید اختلاف سے گزرنا پڑا جس طرح ماضی میں ’آزاد غزل‘ یا ’نثری نظم‘ کو گزرنا پڑا تھا۔ اشعر نجمی کا موقف یہ ہے کہ علم و ادب کا دائرہ تنگ نہیں ہونا چاہیے تجربے ہوتے رہنا چاہیے اس لیے اس شمارے میں ادریس بابر کے چھ عشرے شامل کیے گئے ہیں۔ آخر میں حسنین جمال کا کالم ”اردو ادب میں کتا شناسی کی روایت“ اور مطالعہ پر مبنی اینی پال کا مضمون بعنوان ”گہرا مطالعہ کیا ہے اور کیوں ضروری ہے“ شامل کیا گیا ہے جس کا ترجمہ نایاب حسن نے کیا ہے۔

بہرحال اس شمارے میں وہ سب کچھ ہے جو ادب کے کسی سنجیدہ قاری کو سیراب کر سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ با ذوق اور سنجیدہ قارئین کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالرز کو خصوصاً اس شمارے کو پڑھنا چاہیے۔ اس اہم شمارے کو درج ذیل لنک پر جاکر خریدا جا سکتا ہے۔

https://store.pothi.com/book/ashar-najmi-esbaat-28/

ایپ (app) پر سافٹ کاپی پڑھنے کے لیے آپ دنیا کے کسی بھی خطے سے درج ذیل لنک پر کلک کر کے اور آنلائن کاپی کی قیمت ادا کر کے اسے پڑھ سکتے ہیں۔

http://NotNul.com/Pages/ViewPort.aspx?ShortCode=gfML9eBb


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).